سوال: بہت مرتبہ یہ دیکھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں آپس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک ہی حدیث میں ایک بات ہوتی ہے اور دوسری میں اس کے بالکل متضاد۔ ایسا کیوں ہے اور اس کے بارے میں ہمیں کیا طرز عمل اختیار کر لینا چاہیے؟
جواب: انسان کی یہ نفسیات ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی واقعے کے ہر پہلو کو جزوی تفصیلات کی حد تک یاد نہیں رکھتا۔ انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ کسی بھی واقعے کو اپنے خیالات، نظریات، دلچسپیوں اور تعصبات کی عینک سے دیکھتا ہے۔ مثلاً اگر کسی جگہ کوئی قتل کا واقعہ ہو جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک گواہ تو پوری تفصیل سے قاتل کا حلیہ بتا دیتا ہے لیکن آلہ قتل کو زیادہ تفصیل سے بیان نہیں کر پاتا کیونکہ اس میں اس کی دلچسپی نہیں ہوتی ۔ اگر کوئی ایسا شخص بھی وہاں موجود ہو جواسلحے میں بڑی دلچسپی رکھتا ہو تو وہ باقی چیزوں کی نسبت آلہ قتل کی جزئیات کو بڑی تفصیل سے بیان کردے گا۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی شخص نے قاتل کو پہچان لیا ہو لیکن وہ کسی ذاتی مفاد یا خوف کی وجہ سے اس کے بارے میں غلط معلومات فراہم کردے۔یہی وجہ ہے کہ ایک ہی واقعے کو بیان کرنے والوں میں تفصیلات کے بارے میں کچھ نہ کچھ اختلاف واقع ہو ہی جاتا ہے۔
یہ چیز بھی عام مشاہدے میں دیکھنے میں آتی ہے کہ ایک شخص دوسرے کے سامنے واقعے کو بالکل درست بیان کردیتا ہے لیکن دوسرا تیسرے کے سامنے بیان کرتے وقت اپنے کسی مفاد کے تحت، یا پھر محض غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے اس میں کچھ کمی بیشی بھی کر دیتا ہے۔ آپ نے وہ کھیل کھیلا یا پھر دیکھا ضرور ہوگا جس میں ایک فرد کو کوئی جملہ بتایا جاتا ہے اور اس نے اسے اپنے ساتھی کے کان میں بتانا ہوتا ہے۔ بہت سے ساتھیوں سے گزر کر جب وہی جملہ آخری فرد سے پوچھا جاتا ہے تو اس کا جواب اصل جملے سے خاصا مختلف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں تواتر سے حاصل ہونے والی معلومات سو فیصدقطعی اور یقینی کنفرم ہوتی ہیں اور ان میں کسی قسم کے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس خبر واحد سے حاصل ہونے والی معلومات سو فیصد یقین کے درجے پر نہیں پہنچتیں بلکہ ان کے درست ہونے میں کسی نہ کسی حد تک شک و شبہ پایا جاتا ہے۔
احادیث میں اختلاف کی صورت میں دین کے علماء قرآن مجید، سنت، اوراحادیث کے پورے ذخیرے کا جائزہ لینے کے بعد ان اختلافات میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس معاملے میں بعض اوقات ایسی احادیث مل جاتی ہیں جن میں صورت حال کی پوری وضاحت ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں اختلاف حل ہو جاتا ہے۔ اگر یہ مطابقت پیدا نہ ہو سکے تو پھر اس حدیث کو قبول لیا جاتا ہے جو قرآن ، سنت اور دیگر صحیح احادیث سے مطابقت رکھتی ہو اور اس کے بیان کرنے والے راوی قابل اعتماد ہوں، جبکہ اس کی مخالف حدیث کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس کے بارے میں یہ متعین کر لیا جاتا ہے کہ یا تو یہ حدیث محض جعلی (موضوع) ہے یا پھر اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو صحیح طریقے سے منتقل نہیں کیا گیا۔
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.