ترجمہ قرآن کی حدود اور قواعد و ضوابط

مبشر بھائی۔

عام طور پر لفظ البر کا ترجمہ ہم اردو میں نیکی کرتے ہیں۔ ایک مفسر کے ترجمے میں دیکھا کہ انہوں نے  آیت  لیس البر ان تولوا وجوھکم میں ترجمے میں اس کا ترجمہ وفاداری کیا ہے۔  ہم ترجمہ کرتے ہیں: “نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق و مغرب کی طرف کر لو لیکن انہوں نے ترجمہ کیا ہے کہ خدا سے وفاداری یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق و مغرب کی جانب کر لو۔ مجھے لگتا ہے کہ مولانا نے اپنے بات کے تسلسل کو قائم کرنے کے لئے اور وزن پیدا کرنے کے لئے ترجمہ اور طرح کر لیا ہے جس سے مطلب اور بن گیا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ با ت تو پھر بھی اچھی ہے لیکن وہ تو نہیں عربی میں کہی گئ ہے۔ اسی طرح کی مثالیں اب مجھے یاد تو نہیں لیکن کئی دفعہ اور لوگوں سے اس طرح کی پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔میرا سوال یہ کہ  کیا یہ صحیح ہے ؟ اور اگر ہے تو کس حد تک ؟

وعلیکم اسلام

 محمد جاوید اختر

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

میں نے فاضل مصنف کی کتاب میں دیکھا ہے۔ انہوں نے ترجمے کو محض اپنی پسند سے فٹ نہیں کیا بلکہ لفظ البر کے مفہوم پر زبان سے دلائل پیش کیے ہیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق اردو میں نیکی کا لفظ، عربی کے لفظ بر کے مفہوم کو صحیح طور پر ادا نہیں کرتا بلکہ وفاداری کا لفظ صحیح مفہوم کو ادا کرتا ہے۔ میں ان کی اس تحقیق کو ویریفائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں کیونکہ جاہلی عربی پر میری کمانڈ ان کے درجے کی نہیں ہے البتہ اصولی طور پر یہ بات درست ہے کہ اگر آپ کے خیال میں عام استعمال ہونے والے لفظ کی بجائے کوئی اور لفظ مفہوم کو ٹھیک ٹھیک ادا کرتا ہے تو اسے ہی اختیار کرنا چاہیے۔

بامحاورہ ترجمہ اسی اصول پر کیا جاتا ہے تاکہ اصل کلام کے صحیح مفہوم کو پوری قوت اور سٹریس کے ساتھ دوسری زبان میں منتقل کیا جائے۔ محض لفظی ترجمے سے بات کبھی درست طریقے سے منتقل نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں ایک مکتب فکر ہے جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ لفظی ہی کرنا چاہیے مگر ان کی رائے اس وجہ سے درست نہیں ہے کہ اس طرح تو قرآن کا مفہوم ہی درست طریقے سے دوسری زبان میں منتقل نہ ہو سکے گا۔

ہمارے ہاں بعض تقلید پرست لوگ اس پر بھی زور دیتے ہیں کہ شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین نے جو ترجمے کر دیے، اس کی حدود سے باہر نہ نکلا جائے اور وہی الفاظ یا ان کا متبادل ہی استعمال کیا جائے۔ یہ نقطہ نظر بھی میرے خیال میں درست نہیں ہے۔ زبان کا ماہر اس پر اپنی تحقیق کرے گا اور اپنے نقطہ نظر کے مطابق ترجمہ کرے گا۔ اسی طرح زبان تبدیل ہو جانے سے  نئے الفاظ بھی استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔ شاہ صاحبان نے اب سے دو سو برس پہلے جو ترجمہ کیا، اب دو سو سال بعد اردو بہت مختلف ہو چکی ہے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

جواب دینے کا بہت شکریہ۔ میرا سوال سیکھنے کے نقطہ نظر سے ہے۔ میں اس لیے تذبذب کا شکار ہو گیا تھا کہ کافی عرصہ پہلے میرا خیال ہے پنجاب یونیورسٹی کے دور میں میں نے ایک اور مصنف کو پڑھا تھا تو انہوں نے صلوٰۃ کا ترجمہ کرنے کے ضمن میں لکھا تھا کہ اس کا مطلب نماز کے علاوہ معاشرہ بھی ہے اور جہاں پر صلوٰۃ قائم کرنے کا کہا گیا ہے تو وباں پر اچھا معاشرہ قائم کرنے کو کہا گیا ہے نہ کہ نماز پڑھنے کو۔  اور ایک جگہ انہوں نے ہی لکھا تھا کہ عربی کے ہر ہر لفظ کہ قریبا 25 مطالب ہوتے  ہیں اب ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے جب دو مختلف تراجم ایک عربی کے ایک لفظ البر کے پہلے بیان کی گئی آیت میں گزرے تو میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ میں پوچھوں ایک عام انسان جو کہ عجمی بھی ہو اصولی طور پر اس کی لمٹس کہاں تک ہیں کہ وہ حالات کہ مطابق ان 25 مطالب میں سے کوئی ایک استمال کر لے؟

میں اس لیے بھی اس سوال کے لئے زیادہ انڑسٹڈڈ تھا کیونکہ میرے کچھ دوست ہیں جو اس معاملے میں اتنے کٹر ہیں کہ ان کے خیال میں تو ترجمہ پڑھنا ہی نہیں چاہیے کیونکہ ان کہ خیال میں بندہ گمراہ ہو جاتا اور وہ مثال بیان کرتے ہین فلاں نے یہ کام کیا اور وہ کامریڈ ہو گیا اور یہ ہو گیا اور وہ ہو گیا میں ان لوگو ں سے اتفاق نہیں کرتا اس بات پر لیکن مین محتاط رویہ اختیار کرنا چاہتا ہوں  تاکہ میں کہیں  اللہ نہ کرے کوئی کوتاہی کر بیٹھوں اس لے سوال کیا ہے۔ امید ہے میں وضاحت کر پایا ہوں۔

والسلام

جاوید

ڈئیر جاوید بھائی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بھی علمی انداز میں چیزیں شیئر کرتا ہوں اور اس کا مقصد اپنا تجربہ آپ سے شیئرکرنا ہوتا ہے۔ اس پر آپ کو قائل کرنا مقصد نہیں ہوتا۔ آپ نے جن مصنف کا ذکر کیا ہے، ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ الفاظ کو ان معنوں میں اس اسٹرکچر میں استعمال کر جاتے ہیں جن کا کبھی خواب و خیال میں بھی کسی عرب کے ذہن میں تصور نہیں آیا ہو گا۔ جیسے یہی صلوۃ کا استعمال ہے جو عہد صحابہ کے کسی عرب نے نہیں کیا۔ وہ ڈکشنری سے ایک لفظ اٹھاتے ہیں اور اسے ایسے سیاق میں استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں، جن کا معنی بالکل ہی مختلف ہوتا ہے۔

جو لوگ کامریڈ ہوئے، وہ اگر قرآن کا ترجمہ نہ بھی پڑھتے، تو بھی انہیں ایسا ہونا ہی تھا۔ عام طور پر یہ لوگ انقلابی طرز فکر کے حامل ہوتے ہیں اور اسی نوعیت کی چیزیں انہیں اپیل کرتی ہیں۔ اگر قرآن انہیں بطور انقلابی تحریک کے نظر آتا تو وہ اسی سے وابستہ ہو جاتے۔ اگر وہ مولانا مودودی کا ترجمہ و تفسیر پڑھ لیتے تو شاید اس طرف نہ جاتے کیونکہ انقلابیت کا یہ عنصر مولانا کی تحریروں میں بھی موجود ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ قرآن مجید کا جب بامحاورہ ترجمہ کیا جائے گا تو اس کی اصل حدود یہ ہیں کہ وہ لفظ عربی زبان میں عرب بھی اسی طرح استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر عربوں کے کبھی وہم و گمان میں بھی وہ مطلب نہ گزرا ہو اور ہم وہ ترجمہ کر دیں تو یہ غلط ہو گا۔ جیسے صلوۃ کا ایک معنی و مفہوم عربی میں معلوم ہے کہ یہ نماز اور دعا کے معنی میں آتا ہے۔ زندگی کے نظام کو اللہ تعالی کی منشاء کے مطابق چلانا، اچھی بات ہے لیکن یہ لفظ صلوۃ کا مفہوم نہیں ہو سکتا ہے۔ پہلے مصنف کی رائے میں لفظ البر میں وفاداری کا مفہوم شامل ہے اور اس کے لیے وہ کلام عرب سے دلائل پیش کرتے ہیں، اس وجہ سے ان کی بات ویلڈ  ہے لیکن دوسرے مصنف صلوۃ کے جو معانی بتا رہے ہیں، اس کے لیے کلام عرب میں کوئی مثال وہ پیش نہیں کر سکے۔

ترجمے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب عربی میں یہ بات طے ہو کہ عرب اسی مفہوم میں  اور اسی سیاق و سباق میں اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں  تو پھر اردو میں مناسب ترین اسلوب اختیار کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ترجمہ کرنے کا ہل وہ ہے جو قرآن مجید کے نزول کے زمانے کی زبان کے ساتھ ساتھ اس جدید زبان سے بھی  پوری طرح واقف ہو ، جس میں وہ ترجمہ کر رہا ہے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

ترجمہ قرآن کی حدود اور قواعد و ضوابط
Scroll to top