سوال: اکثر اوقات دینی لٹریچر میں یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’تواتر ‘‘سے ثابت ہے اور فلاں بات ’’خبر واحد ‘‘ہے۔ تواتر اور خبر واحد میں کیا فرق ہے اور ان دونوں اصطلاحات کا کیا مطلب ہے؟
جواب: یہ دونوں اصطلاحات دین کی نہیں بلکہ علم تاریخ کی ہیں۔ تاریخ میں کسی بھی قسم کی معلومات کو دوسرے لوگوں اور اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کے بنیادی طور پر دو طریقے استعمال ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقے کو تواتر اور دوسرے کو خبر واحد کہا جاتا ہے۔تواتر سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے مطابق کسی خبرکو ہر دور میں اتنے زیادہ افراد بیان کرتے ہوں کہ اس کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ اس کے برعکس خبر واحد وہ طریقہ ہے جس کے مطابق کسی خبر کو ایک دو یا چند افراد بیان کرتے ہوں اور ان کے بیان میں غلطی یا شک و شبہ کی گنجائش باقی رہ جائے۔
تواتر کی مثال یوں پیش کی جاسکتی ہے کہ امریکہ میں گیارہ ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر تباہ ہوگیا۔ یہ واقعہ رونما ہوتے ہی اس کی خبر دنیا بھر کے ٹی وی چینلز، اخبارات اور انٹر نیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل گئی۔ اس واقعے کو ہزاروں افراد نے دیکھا اور بیان کردیا۔ اس معاملے میں دنیا بھر میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ واقعہ رونما ہوا تھا کیونکہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اب سے پندرہ بیس برس کے بعداس واقعے کو دنیا بھر کے اربوں افراد اپنی آنے والی نسل کو سنائیں گے، اس واقعے کے بارے مضامین لکھے جاتے رہیں گے، ویڈیو فلمیں دیکھی جاتی رہیں گی اور اس کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔ ہمارے بعد والی نسل کے افراد انہی طریقوں سے ان معلومات کو اپنے سے اگلی نسل میں منتقل کریں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اب سے کئی صدیاں بعد بھی اس بات میں کوئی شک و شبہ موجود نہیں ہوگاکہ 11 ستمبر 2001 کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر جہازوں کے ٹکراؤ سے تباہ ہوگئے تھے۔ یہ پورا پراسیس تواتر کا عمل کہلاتا ہے۔
تواتر سے حاصل ہونے والی معلومات حتمی اور قطعی ہوتی ہیں اور ان کے بارے میں کسی شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ چنانچہ ہم لوگ پوری قطعیت کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب سے تقریباً ساٹھ سال پہلے پاکستان بنا تھا، ڈیڑھ سو سال پہلے برصغیرمیں جنگی آزادی ہوئی تھی، چار سو سال پہلے اکبر نام کا ایک بادشاہ ہندوستان پر حکومت کرتا تھا، پانچ سو سال پہلے کولمبس نے امریکہ دریافت کیا، آٹھ سو سال پہلے صلاح الدین ایوبی نے صلیبی جنگیں لڑی تھیں، ساڑھے تیرہ سو سال پہلے سانحہ کربلا وقوع پذیر ہوا تھا، ساڑھے چودہ سو سال قبل عرب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تھی اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس وقت کی مہذب دنیا کا بڑا حصہ فتح کر لیا تھا، دو ہزار سال پہلے فلسطین میں سیدنا مسیح علیہ الصلوۃ والسلام نے دین حق کا علم بلند کیا تھا، چار ہزار سال قبل سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلے پر آنے والافرعون سمندر میں غرق ہوگیا تھا، ساڑھے چار ہزار سال پہلے سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے کعبہ کی تعمیر کی تھی اور اس سے بھی کہیں پہلے سیدنا نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں زمین پر ایک بہت بڑا سیلاب آیا تھا۔ یہ وہ معلومات ہیں، جن کا کوئی ذی عقل اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے انکار نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی ان حقائق کا انکار کرتا ہو تو وہ سورج کے روشن ہونے ، چاند کے موجود ہونے اورزمین کے گول ہونے کا بھی انکار کر سکتا ہے۔
تاریخ میں بہت سی معلومات ہمیں خبر واحد (ایک دو اشخاص کی دی ہوئی خبر) کی صورت میں بھی ملتی ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کا منظر کسی عینی شاہد نے دیکھا۔ اس نے اپنے ذہن میں موجود تفصیلات کو کسی دوسرے تک منتقل کردیا۔ دوسرے شخص نے ان معلومات کو تیسرے تک ، تیسرے نے چوتھے تک اور چوتھے نے پانچویں شخص تک منتقل کردیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ان معلومات میں اس قسم کی باتیں ہو سکتی ہیں کہ اس نے جہازوں کے ٹکرانے سے پہلے کسی شخص کو مشکوک انداز میں اس عمارت سے نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھا تھا، سب سے پہلے 79 ویں منزل تباہ ہوئی تھی، پچاسویں منزل پر موجود میرا دوست کس طرح زندہ بچا وغیرہ وغیرہ ۔ ان خبروں کے بیان میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہو سکتا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا تباہ ہونا تو تواتر سے ثابت ہے لیکن اس کی جزوی تفصیلات خبر واحد سے معلوم ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی واقعے کے بارے میں مختلف اخبارات کی خبروں میں جزوی سا فرق پایا جاتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد ایک دو انسانوں کے مشاہدے اور یاد رکھنے پر ہوتی ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں پورے کا پورا دین تواتر سے منتقل ہوا ہے۔ یہ دین قرآن اور سنت میں محفوظ ہے۔ قرآن ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک امت مسلمہ کے قولی تواتر (یعنی زبانی اور تحریری بیان) سے اور سنت عملی تواتر (امت کے عمل) سے منتقل ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دین پر جو عمل کیا یا اس کے بارے میں کسی سوال کے جواب میں کوئی وضاحت فرمائی یا کسی معاملے میں اپنی رائے کا اظہار فرمایا، یہ سب امور ہمیں خبر واحد سے حاصل ہوتے ہیں جس کا مجموعہ حدیث کے عظیم ذخیرے کی شکل میں موجود ہیں۔
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.