سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی کردار کشی پر مبنی غلط روایات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

محترم مبشر نذیر بھائی

ایک فائل بھیج رہا ہوں۔ 42 چھوٹے سائز کے صفحات کا مضمون ہے۔

صحیح بخاری کے ایک راوی سے متعلق قصہ ہے۔

اصل قصہ مجھے کسی حد تک یوں سمجھ میں آیا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔

حضرت عمر رضی اللہ کے زمانے میں ایک صحابی مغیرہ بن شعبہ نے چوری چھپے متعہ کیا۔ اس متعہ کا علم دوسرے صحابی ابوبکرۃ کو نہ ہوا۔ البتہ ان کو یہ علم ہوا کہ مغیرۃ ایک خاتون سے بلا نکاح صحبت کرتے ہیں۔ انہوں نے مغیرۃ کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ زانی کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے۔ زنا کے اس الزام پر حضرت عمر رضی اللہ نے ابوبکرۃ سے 4 گواہ لانے کو کہا۔ ابوبکرۃ نے 3 مزید گواہ پیش کئے مگر ان میں سے ایک گواہ کو کچھ شک رہا تو حضرت عمر رضی اللہ نے زنا کی اس گواہی کو قبول نہیں کیا اور ان کو 80 کوڑے لگائے مگر پھر بھی ابوبکرۃ نے آخر وقت تک توبہ نہیں کی۔

جتنی روایات بیان کی گئی ہیں ۔۔۔۔ اس میں اصل حقیقت کیا ہے ؟

اور اس واقعہ پر علماء کے جو جوابات ہیں ۔۔۔۔۔ وہ کچھ یوں ہے۔

قال الشنقيطي رحمه الله في أضواء البيان (127) : يظهر لنا في هذه القصة التي رأوا المغيرة رضي الله عنه مخالطا لها عندما فتحت الريح الباب عنهما أنما هي زوجته ولا يعرفونها وهي تشبه امرأة أخرى أجنبية كانوا يعرفونها تدخل على المغيرة وغيره من الأمراء فظنوا أنها هي , فهم لم يقصدوا باطلا ولكن ظنهم أخطأ وهو لم يقترف إن شاء الله فاحشة لأن أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يعظم فيهم الوازع الديني الزاجر عما لا ينبغي في أغلب الأحوال والعلم عند الله تعالى .

وقال ابن حجر في التلخيص (4|63) : وقيل إن المغيرة كان تزوج بها سرا وكان عمر لا يجيز نكاح السر ويوجب الحد على فاعله فلهذا سكت المغيرة وهذا لم أره منقولا بإسناد وإن صح كان عذرا حسنا لهذا الصحابي

قلت : وهذا على فرض ثبوت أنها أم جميل ولم يثبت ولله الحمد۔

آپ کی رائے کا انتظار ہے ۔ اور ان جملوں کا ترجمہ بھی ضرور دیجئے گا۔

مشکور رہوں گا۔

والسلام

باذوق، ریاض، سعودی عرب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ واقعہ مودودی صاحب نے بھی خلافت و ملوکیت میں نقل کیا ہے۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ایک مخصوص  متعصب گروہ  کا  (جس میں سنی  اور شیعہ دونوں کے افراد شامل ہیں) خاص ہدف رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ طویل عرصے تک کوفہ کے گورنر رہے جو کہ اس فتنہ پرداز گروہ کا گڑھ تھا۔ انہوں نے ان کی کردار کشی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ اس قصے کے لفظ لفظ سے اس گروہ کے افراد کا تعصب چھلک رہا ہے۔  بدقسمتی سے ایسے بہت سے متعصب لوگ چھپے رہے اور صحابہ کے خلاف اپنا بغض روایتوں میں ظاہر کرتے رہے مگر آخری دم تک انہوں نے خود کو ظاہر نہ ہونے دیا۔  عبارات کا ترجمہ یہ ہے۔

  قال الشنقيطي رحمه الله في أضواء البيان (127) : يظهر لنا في هذه القصة التي رأوا المغيرة رضي الله عنه مخالطا لها عندما فتحت الريح الباب عنهما أنما هي زوجته ولا يعرفونها وهي تشبه امرأة أخرى أجنبية كانوا يعرفونها تدخل على المغيرة وغيره من الأمراء فظنوا أنها هي , فهم لم يقصدوا باطلا ولكن ظنهم أخطأ وهو لم يقترف إن شاء الله فاحشة لأن أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يعظم فيهم الوازع الديني الزاجر عما لا ينبغي في أغلب الأحوال والعلم عند الله تعالى .

 شنقیطی نے اضواء البیان میں کہا: اس قصے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب ہوا سے دروازہ کھلا تو جن لوگوں نے مغیرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا انہیں مخالطہ ہوا کہ وہ خاتون ان کی زوجہ ہیں۔ وہ انہیں نہ جانتے تھے اور ان کی مشابہت کسی دوسری اجنبی خاتون سے تھی جسے وہ جانتے تھے اور وہ مغیرہ اور دیگر امراء کے پاس (کسی کام وغیرہ سے) آیا کرتی تھی۔ وہ سمجھے کہ یہ وہی ہے۔ وہ باطل کا قصد نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن ان ان کا گمان غلطی تھی۔ انہوں نے ہرگز فحش کام کا ارتکاب نہیں کیا کیونکہ اصحاب النبی غالب احوال میں دینی حدود کا خیال رکھتے تھے۔

 وقال ابن حجر في التلخيص (4|63) : وقيل إن المغيرة كان تزوج بها سرا وكان عمر لا يجيز نكاح السر ويوجب الحد على فاعله فلهذا سكت المغيرة وهذا لم أره منقولا بإسناد وإن صح كان عذرا حسنا لهذا الصحابي

قلت : وهذا على فرض ثبوت أنها أم جميل ولم يثبت ولله الحمد

 ابن حجر نے تلخیص میں کہا: کہا گیا ہے کہ مغیرہ نے خفیہ شادی کی اور عمر رضی اللہ عنہ خفیہ شادی کو جائز نہ سمجھتے تھے۔ ایسا کرنے والے پر حد واجب ہو جایا کرتی تھی۔ اس وجہ سے مغیرہ خاموش رہے۔ میں نے اسے سند سے منقول نہیں دیکھا۔ اگر یہ صحیح بھی ہو تو ان صحابی سے حسن ظن رکھنا چاہیے۔ یہ میں اس بنیاد پر کہتا ہوں کہ وہ ام جمیل تھیں مگر یہ الحمد للہ ثابت شدہ نہیں ہے۔

ان بزرگوں نے خواہ مخواہ روایت کی توجیہ کی کوشش کی ہے۔ خفیہ شادی بھی بہرحال ایک غلط کام ہے جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اجتناب کیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ کوفہ کے لوگ ہر گورنر کے خلاف کردار کشی کی مہم چلا کر اسے ہٹوانے کی کوشش کرتے تھے۔ سیدنا ابو موسی اشعری، عبداللہ بن عامر، اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم جیسے  جلیل القدر صحابہ کے ساتھ انہوں نے یہی کیا۔ ایسا ہی معاملہ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا۔ عین ممکن ہے کہ بعض مخلص صحابہ بھی ان کے پراپیگنڈے کی زد میں آ گئے ہوں۔

میں نے کتاب دیکھ لی ہے۔ فاضل مصنف نے اچھی تحقیق کی ہے لیکن انہوں نے ایسا اس روایت کو قبول کرتے ہوئے کیا ہے۔ اس میں دو نکات کا اضافہ کرنا چاہوں گا۔

۔۔۔۔۔۔۔ اس واقعے کی ہر سند کا آغاز واقدی سے ہو رہا ہے۔ یہ صاحب جھوٹے قصے کہانیوں کے شائق تھے اور قطعی قابل اعتماد نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔ ہر سند میں ابن شہاب زہری موجود ہیں۔ یہ اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کے ہاں حدیث میں بلند مقام کے حامل ہیں۔ امام بخاری، مسلم اور مالک ان سے روایتیں قبول کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں ایک طبقہ جس میں تمنا عمادی وغیرہ شامل ہیں، زہری پر اسی متعصب گروہ سے تعلق رکھنے کا الزام لگاتا ہے۔ مجھے ان کی بات سے سخت اختلاف ہے۔ لیکن اگر زہری کی بیان کردہ روایتوں کا جائزہ لیا جائے تو ایسا ضرور محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک سادہ دل بزرگ تھے اور نادانستہ طور پر  متعصب لوگوں کے مقاصد کے لئے استعمال ہو گئے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کی کتابوں (جیسے صحاح ستہ اور موطا) سے وہ تمام روایات جس میں بعض صحابہ پر طعن و تشنیع پایا جاتا ہے، ان کی سند میں زہری ضرور موجود ہوتے ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ زہری کے زمانے (پہلی صدی ہجری کے اواخر) تک  مذہبی فرقے  نمایاں نہ ہوئے تھے۔ متعصب لوگ بھی عام مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں اور ان کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔  ان میں بھی ائمہ اہل بیت کے تربیت یافتہ  لوگوں میں بڑے عالم، نیک، پرہیز گار  اور صحابہ کرام سے محبت کرنے والے لوگ موجود تھے۔ اس وجہ سے ایسا بالکل ممکن تھا کہ کوئی غالی اور متعصب شخص تقوی کے لبادے میں کچھ الٹی سیدھی روایتیں بیان کرے اور اہل سنت کے نیک دل اور حسن ظن رکھنے والے بزرگ اسے قبول کر لیں۔ اس زمانے میں جرح و تعدیل کا فن بھی ابھی اپنی بالکل ابتدائی شکل میں تھا جس کی وجہ سے ہر ہر شخص کی چھان بین ایک مشکل کام تھا۔

اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے نزدیک یہ روایت ہی موضوع  (جعلی) ہے۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہما اس واقعے سے بری الذمہ ہیں۔ یہ محض اہل کوفہ کے متعصب اور شریر لوگوں کی سازش ہے۔ انہوں نے نہ صرف سیدنا مغیرہ بلکہ اپنے ہر گورنر کو تنگ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑ رکھی تھی۔ یہی وہ فتنہ پرداز لوگ تھے جنہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف سیدہ عائشہ، طلحہ وزبیر اور معاویہ رضی اللہ عنہم کو بھڑکایا۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی تو ان پر طعن و تشنیع کی بارش کر دی  اور پھر  بالآخر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ بلوا کر شہید کروا دیا۔  ہمیں تمام صحابہ کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہیے اور چند جھوٹوں جیسے واقدی وغیرہ کی روایات کی بنیاد پر ان کی کردار کشی سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی کردار کشی پر مبنی غلط روایات
Scroll to top