قرآن مجید میں کچھ آیات منسوخ کیوں ہیں؟

سوال: پیارے بھائی! السلام علیکم۔ میں نے غلامی سے متعلق آپ کی کتاب کا مطالعہ کر لیا ہے۔

الحمد للہ اب یہ بالکل واضح ہے۔ پہلے میرا خیال یہ تھا کہ غلامی صرف عربوں ہی کے ہاں تھی۔ ایک اور سوال میرے ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔

قرآن میں کچھ آیات منسوخ ہو گئی ہیں۔ جبکہ اللہ سبحانہ و تعالی کہتا ہے: لا تبدیل لکلمۃ اللہ۔ کیا آپ اس پر کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں؟

میں سمجھتا ہوں کہ میرے گرد لوگ اور دوستوں کے ذہن میں ایسے وہم پیدا نہیں ہوتے۔ بعض اوقات، میں سوچتا ہوں کہ شاید انہوں نے عربی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہیں کی ہوتی اور ان کا علم زیادہ نہیں ہے یا پھر انہیں پڑھنے کی عادت نہیں ہے۔ یہ سوچ کر میں پریشان ہوتا ہوں کہ میں شیطان کے مقابلے میں کمزور ہوں یا میرا ایمان کمزور ہے۔ کیا یہ ایمان کے کمزور ہونے کی دلیل ہے؟

آپ کے جواب کا منتظر، شکریہ

جواب: السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرے لئے یہ خوشی کا باعث ہے کہ اتنی تفصیلی کتاب آپ نے پڑھ لی۔ اللہ تعالی آپ کے جذبے اور کوشش کو قبول فرمائے۔ ذہن میں سوال پیدا ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ ہرگز وساوس نہیں بلکہ ایسے سوالات ہیں جو کسی بھی طالب حق اور سوچنے سمجھنے والے شخص کے دماغ میں  پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ان سے گھبرائیے نہیں بلکہ انہیں حل کرنے کی کوشش کیجیے۔ جن لوگوں کے ذہن میں سوال پیدا نہیں ہوتے، وہ درمیانے یا کم درجے کے ذہین ہوتے ہیں یا پھر  ان کے نزدیک ان باتوں کی اہمیت نہیں ہوتی۔ آپ کے ذہن میں سوالات کا پیدا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ سوچنے سمجھنے والا ذہن رکھتے ہیں اور ایک ذہین انسان ہیں۔

قرآن مجید میں نسخ کے بارے میں یہ سمجھ لیجیے کہ نسخ کا معاملہ احکام میں تبدیلی کا نہیں ہے۔ ہماری زندگی میں ایسا ہوتا ہے کہ ہم ایک معاملے میں ایک فیصلہ کرتے ہیں اور جب صورتحال تبدیل ہوتی ہے تو اس کے مطابق اپنے فیصلے میں بھی مناسب تبدیلی کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالی کی شریعتوں میں بھی یہی معاملہ رہا ہے کہ حالات تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے احکام دیے گئے جو نئی صورتحال کے مطابق تھے۔ شاہ ولی اللہ کی تحقیق کے مطابق قرآن مجید کی صرف چار آیات ہی منسوخ ہیں اور یہ ناسخ و منسوخ آیات ایک ہی جگہ پر اکٹھی ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ اس موضوع پر آپ امین احسن اصلاحی صاحب کی مبادی تدبر قرآن کا مطالعہ کر لیجیے۔

سورہ یونس جس آیت کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہاں ایک بالکل ہی مختلف بات زیر بحث ہے۔ پورا سیاق و سباق یہ ہے۔

أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (63) لَهُمْ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ لا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (64)

“یاد رکھو کہ اللہ کے دوستوں کے لئے نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی غم۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور متقی رہے۔ ان کے لئے دنیا کی زندگی اور آخرت میں خوشخبری ہے۔ اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ وہی بڑی کامیابی ہے۔”

ان آیات میں قرآن مجید کی عمومی آیات کی بات نہیں ہے بلکہ اس بات کا ذکر ہے جو اللہ کے نیک بندوں کے انجام سے متعلق ہے۔ اس معاملے میں واقعی اللہ کے طے شدہ فیصلے میں کوئی تبدیلی نہ ہو گی۔

امید ہے کہ بات واضح ہو گئی ہو گی۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

قرآن مجید میں کچھ آیات منسوخ کیوں ہیں؟
Scroll to top