مستقبل کے واقعے کا قرآن میں فعل ماضی میں بیان کیوں؟

اسلام علیکم مبشر بھائی

میرا یہ سوال قرآن پاک کے متعلق ہے۔ کافی دنوں سے سوچ رہا تھا۔ اس متعلق لیکن مجھ کوئی مناسب جواب بن نہیں پایا۔ سوال اصل میں قرآن پاک کو پڑھتے ہوئے ذہن میں پیدا ہوا۔ کہ جب قیامت کے بعد کا ذکر ہو رہا ہوتا ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ جب جنت دوزخ یا پھر ان کے مقیموں کا تذکرہ ہورہا  ہوتا ہے تو یہ ذکر زمانہ حال  یا ماضی میں ہوتا ہے بجائےاسکہ کہ زمانہ مستقبل کا استمال کیا جائے۔ جنتیوں اور دوزخیوں کی اس طرح تصویر کشی ہوتی ہے کہ یہ موجودہ ذمانہ میں وقوع پذیر ہے۔جبکہ قیامت ابھی آنی ہے۔ اور یہ سب کچھ بعد میں ہوگا۔

اب مجھے شاید اردو ترجمے پڑھنے کی وجہ سے ایسالگا ہےکیونکہ ابھی تک تو میں ڈارٔیکٹ عربی تو نہیں پڑھ سکتا۔ یا پھر یہ قرآن کا اسلوبٔ ہو سکتا ہے۔ لیکن مجھے اس کی سمجھ نہیں آ رہی۔ آپ اگر اس کے متعلق سمجھادیں تو؟

 والسلام

محمد جاوید اختر

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

یہ تفصیل آپ قرآنی عربی پروگرام کے لیول 5  کی ٹیکسٹ بک میں پڑھیں گے۔ عربی میں یہ اسلوب عام ہے کہ جب مستقبل کی کوئی بات قطعی اور یقینی ہو تو اس کی قطعیت کو بیان کرنے کے لیے ماضی یا حال کا اسلوب اختیار کیا جاتا ہے۔ عربی میں یہ کہنا کہ “قیامت برپا ہو گئی” کا مطلب یہ ہو گا کہ مستقبل میں قیامت کا ہونا بالکل قطعی اور یقینی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے انگریزی میں مستقبل کی یقینی بات کے لیے حال کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔ 

I am going to school tomorrow.

دنیا کی دیگر زبانوں میں بھی اس سے ملتے جلتے اسالیب موجود ہیں۔ مستقبل کے واقعے کو ماضی یا حال میں بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ واقعہ اتنا قطعی اور یقینی ہے کہ گویا کہ وہ واقعہ حقیقت بن چکا ہے۔ اس سے جملے میں ایک قسم کا زور  پیدا ہو جاتا ہے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

مستقبل کے واقعے کا قرآن میں فعل ماضی میں بیان کیوں؟
Scroll to top