کیا سیلاب اللہ تعالی کا عذاب ہے؟  

سوال:  سلام مسنون

میں پاکستان کے ان دو کروڑ سیلاب زدگان کے ایک نمائندے کی حیثیت میں آپ کو مخاطب کرکے یہ خط لکھ رہا ہوں۔اللہ کے واسطے میرے اس خط کو شائع کردیں۔ میں ان مظلوموں کا نمائندہ ہوں جن پر ایک طرف قدرتی آفت ٹوٹی جس سے ان کے گھر، فصلیں اور زندگیاں اجڑ گئیں اور دوسری طرف بعض نفسیاتی مریض ان کے زخموں پر یہ کہہ کر نمک پاشی کررہے ہیں کہ یہ اللہ کا عذاب ہے۔

یہ نفسیاتی مریض اپنی بیمار ذہنیت میں یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس سیلاب سے بیشتر نقصان غریبوں کا ہوا ہے۔ کاش اس  طرح کی باتیں کرنے والے لوگوں کا گھر اجڑے، ان کے پیارے مارے جائیں، ان کا مال برباد ہوجائے اور پھر ہم بھی ان سے یہ کہیں کہ یہ تم پر خدا کا عذاب نازل ہوا ہے۔

اگر یہ عذاب ہے تو کمزوروں پر کیوں آرہا ہے، وڈیروں اور جاگیرداروں، بے حس حکمرانوں، خود کش حملہ آوروں اوران کے حمایتیوں، امریکہ اور یہودیوں پر کیوں نہیں آرہا۔ معصوم لوگ اس کی زد میں کیوں ہیں؟

اللہ ہمیں ان ظالم لوگوں سے بھی نجات دے اور ان نفسیاتی مریضوں سے بھی نجات عطا کرے اور ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے۔

آمین

مخلص

عبد الستار

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

پاکستان میں سیلاب کی موجودہ صورتحال عذاب ہے یا آزمائش، یہ بحث اِس وقت پاکستان کے طول و عرض اور دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں کے درمیان چھڑ ی ہوئی ہے ۔ یہ بحث نئی نہیں ہے ۔ 2005 کے زلزلے کے بعد بھی یہ بحث چھڑ گئی تھی۔ اس زمانے میں بھی میں نے ایک مضمون زلزلۂ قیامت لکھ کر یہ واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ اس طرح کے واقعات کو دیکھنے کا درست زاویہ کیا ہوتا ہے ۔ اب اس موقع پر بھی سیلاب: چیلنج یا عذاب کے عنوان سے ایک مضمون لکھ کر ایک اور پہلو سے لوگوں کا زاویۂ نظر درست کرنے کی کوشش کی ہے جو سائٹ اور رسالے میں شائع ہو چکا ہے ۔

زندگی بھر کے قرآن و حدیث کے مطالعے سے جو کچھ میں نے سمجھا ہے ، اس کی روشنی میں میں پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال کا اُس عذاب سے کوئی تعلق نہیں جس کے تذکرے سے قرآنِ کریم بھرا ہوا ہے ۔ قرآنِ کریم میں جس عذاب کا تذکرہ ہے وہ رسولوں کی اقوام کے حوالے سے ہے ۔ رسول کوئی عام داعی نہیں ہوتا بلکہ اپنی قوم کی زندگی اور موت کا فیصلہ لے کر آتا ہے ۔ قرآنِ کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک رسول اپنی قوم کو توحید و آخرت کی دعوت ہی نہیں دیتا بلکہ صاف صاف تنبیہ کرتا ہے کہ قوم نے اگر اس کی بات نہیں مانی تو وہ اسی دنیا میں عذابِ الہٰی کے لیے تیار ہوجائے ۔ قوم اس کا مذاق اڑ اتی اور عذاب کا مطالبہ کرتی رہتی ہے ، مگر وہ انتہائی ہمدردی اور خیر خواہی سے اسے سمجھاتا رہتا ہے ۔ قوم جب ضد میں آ کر انفس و آفاق کے دلائل، رسول کے معجزات اور عقل و فطرت کے عین مطابق دعوتِ ایمان و اخلاق کو جھٹلادیتی ہے ، اور جب یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کفر و انکار کی وجہ سوائے ضد اور ہٹ دھرمی کے کچھ اور نہیں تو رسول اور اس کے ماننے والوں کو ہجرت کا حکم ہوجاتا ہے ۔ پھر عذابِ الہٰی آتا ہے ۔ رسول اور ان کے پیروکار بچالیے جاتے ہیں اور نہ ماننے والوں میں سے ایک شخص کو بھی زندہ نہیں چھوڑ ا جاتا۔

بھائی مجھے یہ بتائیں کہ اس عذاب کا پاکستان سے کیا تعلق ہے ۔ یہاں کون سا رسول آیا ہے جو عذابِ الہٰی آئے گا؟ پھر یہ دیکھیں کہ مرنے والوں اور نقصان اٹھانے والوں میں زیادہ تعداد میں معصوم، کمزور اور غریب لوگ شامل ہیں ۔ طاقتور اور ظالم لوگوں نے تو اس موقع پر بھی اپنے علاقے بچالیے اور جگہ جگہ بند توڑ کر سیلاب کا رُخ کمزوروں اور غریبوں کے علاقوں کی طرف کر دیا۔ کیا قرآنِ مجید میں عذابِ الہٰی کا یہی تصور ملتا ہے کہ غریب اور کمزور مارے جائیں اور طاقتور اور حکمران طبقات اس عذاب کی زد سے بچ جائیں ۔ ہمارے نا اہل فکری رہنما دنیا کو اپنے رب کا کیسا برا تعارف کرا رہے ہیں ۔ کیا کوئی ایسے خدا سے محبت کرسکتا ہے جس کے عذاب سے طاقتور لوگوں کے ایوانوں کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچتا البتہ غریبوں کی زندگی برباد ہوجاتی ہے ۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ایسے جذباتی لوگ جنھیں لکھنے اور بولنے کا بہت شوق ہے اور لکھنا ان کا پیشہ ہے ، مگر انھیں تفقہ فی الدین حاصل نہیں ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گستاخی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔

پھر ایک اور پہلو سے دیکھیے کہ اس طرح کے سانحات ہر جگہ دنیا میں پیش آ رہے ہیں ۔ جنوب مشرقی ایشیا کا سونامی، قطرینہ کا طوفان، ہیٹی کا زلزلہ، چین کا سیلاب، روس میں گرمی اور یورپ میں سردی کی شدید لہر اور متعدد دیگر قدرتی آفات حالیہ برسوں میں دنیا میں آئیں ۔ یہ قدرتی آفاقت بلا تخصیص مذہب، رنگ اور نسل کے آئیں ۔ جو قومیں زیادہ تیار تھیں ، ان کے ہاں بہت کم نقصان ہوا اور جو قومیں تیار نہ تھیں ان کو زیادہ نقصان ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ان قوموں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو عذاب کیوں نہیں کہا جاتا۔ اور اگر وہ عذاب تھے تو کس وجہ سے آئے تھے ۔ کسی کو کم کسی کو زیادہ نقصان کیوں ہوا۔ کیوں پوری قوم تباہ نہیں کر دی گئی، بلکہ ترقی کی راہ پر ان کا سفر اور تیزی سے جاری ہے ۔ ان سوالوں کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ۔

قرآنِ مجید جس عذاب کا ذکر کرتا ہے اس کی وجوہات، اس میں اللہ تعالیٰ کا طریقہ، اس میں مرنے اور بچنے کا ضابطہ، ہر چیز بالکل واضح ہوتی ہے ۔ آپ نے جس جذباتی صحافی کا مضمون بھیجا ہے اس میں انہوں نے سورۂ انعام کی آیت 65 کو ہمارے ملک اور اس کے حالات سے متعلق کر کے اور کچھ نہیں کیا صرف اپنے متعلق یہ بتایا ہے کہ وہ قرآن فہمی کے الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں ۔ یہ قرآن کی آیت کو اس کے سیاق و سباق اور موقع و محل سے ہٹا کر پیش کرنے کی ایک بدترین مثال ہے ۔

میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس موقع پر قرآنِ مجید کا اصل مدعا واضح کر دوں ۔ اس سلسلۂ کلام میں کفار کا وہ رویہ زیر بحث ہے جس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑا رہے تھے کہ تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لے آؤ۔ جواب میں ان پر واضح کیا جا رہا ہے کہ عذاب تمھارے مطالبے پر نہیں بلکہ اللہ کے اپنے قانون کے مطابق اپنے وقت پر آئے گا۔ اسی پس منظر میں آیت 65 میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کی بالکل قدرت رکھتا ہے کہ تمھیں کسی بھی طرح عذاب دے ۔ اس سے اگلی آیت میں حضور کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تمھاری قوم نے اس قرآن کو جھٹلادیا ہے ، حالانکہ یہ حق ہے ۔ کہہ دو کہ میں تم پر کوئی داروغہ نہیں ۔ ہر بات کے لیے ایک وقت مقرر ہے اور تم عنقریب جان لو گے (کہ میرا عذاب کیسا ہوتا ہے)، (انعام66-67)۔

اس تجزیے سے صاف واضح ہے کہ سورۂ انعام کی ان آیات میں زیر بحث لوگ کفار مکہ ہیں اور عذابِ الہٰی وہ مراد ہے جو رسولوں کی تکذیب کر دینے والی اقوام پر آیا کرتا ہے نہ کہ ان کے ماننے والے امتیوں پر۔ اس عذاب کا عام مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ۔ جہاں تک عام مسلمانوں کا تعلق ہے تو ان پر گرفت کے حوالے سے قرآنِ مجید اپنا قانون یوں بیان کرتا ہے :

اور ڈرو اس ’فتنے ‘سے جو مخصوص طور انہی لوگوں کو لاحق نہیں ہو گا، جنھوں نے جرم کا ارتکاب کیا ہو گا۔ (انفال25:8)

 یہ ہے مسلمانوں سے متعلق اصل ضابطہ جس میں بتایا جا رہا ہے کہ جب اہل ایمان اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہوجاتے ہیں تو پھر وہ ’فتنہ‘ پھیلتا ہے جس کی لپیٹ میں آخرکار بے گناہ اور حالات کے خیر و شر سے بے نیاز رہ کر اپنی دنیا میں مگن رہنے والے لوگ بھی آ جاتے ہیں ۔ آپ زمانۂ طالبعلمی میں میرے جونئیر رہے ہیں ، آپ تفسیر سے بھی واقف ہیں اور عربی سے بھی۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس طرح کی صورتحال کو ’فتنے ‘ سے تعبیر کر کے اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ یہ اصل میں آزمائش کی صورتحال ہوتی ہے نہ کہ عذاب کی۔ میرے نزدیک پاکستان کے حالات کے متعلق زیادہ سے زیادہ اگر کچھ کہا جا سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ موجودہ صورتحال خد اکے اس قانون کا ایک حصہ ہے ، جس کے تحت وہ مختلف اقوام پر مختلف قدرتی آفات بطور ایک چیلنج کے بھیجتا رہتا ہے (ان میں حکمت کے کئی پہلو ہوتے ہیں جن کی طرف میں نے اپنے مذکورہ بالا مضامین یعنی زلزلۂ قیامت اور سیلاب: چیلنج یا عذاب میں توجہ دلائی ہے )۔ تاہم اخلاقی طور پر پست قوموں کے لیے یہ آفات اپنے نتائج کے اعتبار سے ایک آزمائش اور فتنہ بھی بن جاتی ہیں جس کی طرف سورۂ انفال کی مذکورہ بالا آیت میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ میری رائے میں ہمارے معاملے میں یہی ہورہا ہے کہ بیک وقت یہ ایک چیلنج بھی ہے اور آزمائش اور فتنہ کی وہ صورتحال بھی جس میں بے گناہ لوگ بھی زد میں آ رہے ہیں۔ ’’سیلاب: چیلنج یا عذاب‘‘ نامی مضمون میں ابن خلدون کا حوالہ میں نے اسی پس منظر میں دیا تھا کہ ہم اخلاقی طور پر بے حد پست ہو چکے ہیں ۔ حقیقی ایمان اور اس کے تقاضے اور اخلاقِ عالیہ اور اس کے مطالبات، ہمارے ہاں سے ان کا شعور ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ اس صورتحال پر ضروری ہے کہ اہلِ پاکستان کو تنبیہ کی جائے ۔ خاص کر ان لوگوں کو جو معاشرے کے ہرخیر و شر سے بے نیازہوکر زندگی گزارتے ہیں ۔ ان لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اجتماعی معاملات میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور ایمان و اخلاق کی دعوت کو معاشرے کے ہر شخص تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔

 مجھے امید ہے کہ اس طویل خط سے آپ کی کنفیوژن دور ہوگئی ہو گی۔ نیز آپ کو آپ کے اس سوال کا جواب بھی مل گیا ہو گا کہ کیا متأثرین کی مدد کرنا اللہ کے عذاب میں مبتلا لوگوں کی مدد کر کے اللہ سے لڑ نے کے مترادف ہے ۔ ہرگز ایسا نہیں ہے ۔ بلکہ ان کی مدد کر کے آپ دنیا اور آخرت کی بھلائی سمیٹیں گے ۔ ہم سب کو نہ صرف اس موجودہ مسئلے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے بلکہ مجموعی طور پر قوم کی ایمانی اور اخلاقی تربیت کو اپنی زندگی کا ایک مقصد بنانا چاہیے ۔ تاکہ نا اہل اور سطحی قسم کے لوگ ہمارے پروردگار اور اس کے دین کا غلط تعارف انسانیت تک نہ پہنچائیں ۔

 امید ہے کہ جب کبھی حرمِ پاک اور مسجدِ نبوی (علی صاحبھا الصلوۃ والسلام) کی زیارت کے لیے جائیں گے تو مجھے اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں گے ۔

ریحان احمد یوسفی

سیلاب: چیلنج یا عذاب

فلسفۂ تاریخ علم کی وہ شاخ ہے جو یہ متعین کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ تاریخ کا دھارا کسی خاص سمت میں کیوں مڑ تا ہے ؟ یہ علم تاریخ میں پیش آنے والے تاریخی واقعات کی تہہ میں کارفرما عوامل کی کھوج کرتا ہے کیونکہ یہی وہ عوامل ہوتے ہیں جو قوموں کے عروج و زوال کا سبب بن جاتے ہیں ۔ اس طرح ہم ماضی سے سیکھ کر مستقبل کی پیش گوئی کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں ۔ تاریخ کو واقعات سے بلند ہوکر عوامل کی سطح پر پرکھنے کا کام سب سے پہلے عظیم مسلمان ماہرِ عمرانیات ابن خلدون (1332-1406) نے کیا تھا اور اس سلسلے کا آخری بڑ ا نام عظیم برطانوی مورخ ٹوائن بی کا ہے ۔

Arnold J. Toynbee (1889-1975)

ابنِ خلدون نے مقدمہ ابنِ خلدون میں یہ بیان کیا ہے کہ اخلاقی امور قوموں کی زندگی میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں ۔ وہ اس بات کی تفصیل کرنے کے بعد خلاصۂ کلام کے طور پر کہتے ہیں۔

جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ملک و سلطنت دینا چاہتا ہے تو پہلے اس کے اخلاق و اطوار کی تہذیب کرتا ہے اور بخلاف اس کے جب کسی قوم سے دولت و سلطنت سلب کرنا چاہتا ہے تو پہلے وہ قوم مرتکبِ مذام (مذموم اوصاف) ہوتی ہے اور فضائلِ پسندیدہ اس سے مفقود ہوجاتے ہیں ۔ اور برائیاں بڑ ھنے سے ملک اس کے ہاتھوں سے نکل کر دوسروں کے قبضہ میں آ جاتا ہے ۔ (مقدمہ: باب دوم فصل بیس)

ٹوائن بی نے اپنی معرکۃالآرا تصنیف تقریباً 27 برس میں مکمل کی۔ مصنف نے اس کتاب میں دنیا کی تاریخ میں اپنی جگہ بنانے والی تقریباً تمام اہم تہذیبوں کا مطالعہ کیا ہے ۔ تہذیبوں کے عروج و زوال کے ضمن میں انھوں نے ایک بنیادی اصول  کے عنوان کے تحت اس طرح بیان کیا ہے کہ تہذیبوں کو اپنی زندگی میں پے در پے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ تا ہے اور ہر مشکل وہ چیلنج پیدا کرتی ہے جس کے درست جواب ہی میں قوم کے عروج کا راست پوشیدہ ہوتا ہے ۔

Challenge and Response in A Study of History

ان دو عظیم اہلِ علم کی آرا کو پیشِ نظر رکھیے اور یہ دیکھیے کہ ہماری قوم آج کن حالات سے دوچار ہے اور اس صورتحال سے نکلنے کا راستہ کیا ہے ۔ پاکستان یوں تو اپنے قیام کے بعد ہی سے پے در پے مشکل حالات سے گزرتا رہا ہے ، مگر غالباً اب یہ ملک اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے ۔ بدترین دہشت گردی اور معاشی عدمِ استحکام سے گھری اس قوم پر سیلاب کی وہ آفت نازل ہو چکی ہے جس کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ بظاہر مرنے والوں کی تعداد 1500 سے 2000 بیان کی جا رہی ہے مگر درحقیقت مرنے والوں کی حقیقی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ لاکھوں نہیں کروڑ وں لوگ اس سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں ، جن کے پیارے ہی نہیں بلکہ ان کے گھر، فصلیں ، باغات اور زندگی بھر کی جمع پونجی سیلاب کی نذر ہو چکی ہے ۔ ملک کے ایک بڑ ے حصے کی زرعی پیداوار تباہ اور انفرا اسٹرکچر صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہے ۔ مجموعی طور پر اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ۔ جب سیلاب کا منظر نامہ صاف ہو گا تو واضح ہوجائے گا کہ ترقی کے اعتبار سے ملک کئی عشرے پیچھے جا چکا ہے ۔

اس صورتحال کو دیکھنے کا ایک زاویہ وہ ہے جو ہمارے ہاں کے بعض حلقے پیش کر رہے ہیں کہ یہ عذابِ الٰہی ہے اور لوگوں کو چاہیے کہ مسجدوں میں آ کر استغفار کریں ۔ اللہ سے استغفار کرنا تو اپنی جگہ بہت محبوب عمل ہے مگر موجودہ صورتحال کو عذاب قرار دینا اللہ تعالیٰ کی سنن کا بہت غلط اندازہ ہے ۔ اس نوعیت کی قدرتی آفات عذاب نہیں ہوا کرتیں ۔ ان آفات میں بیشتر نقصان غریبوں اور کمزوروں کا ہوتا ہے اور اس طرح کی آفات دنیا بھر میں بلاتخصیص رنگ و نسل و مذہب آتی رہتی ہیں ۔ ان دونوں حقائق کی موجودگی میں ایسی آفات کو عذابِ الٰہی سمجھنا درست نہیں ہو سکتا۔ ان کو دیکھنے کا درست زاویہ یہی ہے کہ یہ آفات ایک چیلنج ہوتی ہیں ۔ ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور ان سے سبق سیکھنا چاہیے ۔ زندہ قومیں یہی رویہ اختیار کرتی ہیں اور نتیجتاً ایسی عظیم تباہی بھی درحقیقت ان کی ترقی کا سبب بن جاتی ہے ۔

اس پہلو سے جب اس عظیم المیے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ ہماری اپنی نا اہلی اور حماقتوں کی سزا ہے ۔ ملک میں آج اگر پانی کے بڑ ے ذخیرے بنانے کا اہتمام ہوتا تو یہی سیلاب نہ صرف شدت میں کم ہوتا بلکہ اگلے کئی خشک برسوں میں بہترین زرعی پیداوار کے حصول اور لوڈ شیڈنگ کے مسئلے سے نجات کا باعث بن جاتا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ خیبر پختونخواہ کے قوم پرست لیڈر کالا باغ ڈیم کی یہ کہہ کر مخالفت کرتے تھے کہ نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ مگر اب تو ہر پختون و غیرپختون کو معلوم ہو چکا ہے کہ نوشہرہ ڈوب چکا ہے ۔ کاش پختونوں میں اتنا شعور ہوتا کہ وہ اپنے قوم پرست لیڈروں کا گریبان پکڑ کر ان سے جواب طلب کرسکتے ۔

سیلاب کی اس شدت کا ایک اور سبب پہاڑ ی جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہے ۔ جنگلات سیلاب کی راہ میں قدرتی رکاوٹ ہوتے ہیں ۔ مگر کرپشن کے زہر نے یہ کام اتنا آسان کر دیا ہے کہ جنگلات کی ناجائز کٹائی جیسا کام انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے اعلانیہ جاری رہتا ہے ۔ کرپشن ہی کے ناسور کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا مواصلاتی ڈھانچہ یعنی سڑ ک، پل وغیرہ اتنا ناقص اورکمزور تھے کہ سیلاب کے ساتھ سب کچھ بہہ گیا اور نتیجتاً امدادی کام بہت مشکل ہو گیا۔ یہی معاملہ کمزور دریائی پشتوں کا تھا۔ ان کو مضبوط کر کے اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی بہتر تیاری کر کے نقصان کہیں کم کیا جا سکتا تھا۔ مگر اس طرح کی چیزیں ہمارے قومی ایجنڈے میں کبھی جگہ نہ پا سکیں ۔

ہمارے ملک کا سانحہ یہ ہے کہ ہماری حکمران کلاس اور بیوروکریسی کرپٹ ہے اور موجودہ دور میں حکمران کلاس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ نا اہل بھی ہے اور بے حس بھی۔ عالمی برادری سے بھیک مانگنے کے بجائے اگر ذاتی ایثار اور بہتر کورڈینیشن اور انتظامی اقدامات کیے جاتے اور عوام میں سیاسی قیادت کا اعتبار قائم ہوتا تو صورتحال اتنی سنگین نہیں ہوتی۔

اس تجزیے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف عذاب کی نسبت کرنے کے بجائے اس آفت کو قدرت کے ایک چیلنج کے طور پر لینا چاہیے اور ہونے والے نقصان کو اپنی سیاسی قیادت کی نا اہلی اور اجتماعی بے بصیرتی کا ایک ثبوت سمجھ کر اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے ۔ ہمیں اپنے سیاسی لیڈروں کا احتساب کرنا ہو گا۔ قوم پرستوں کے پھیلائے ہوئے تعصبات کے بجائے اجتماعی فائدے کی راہ اپنانا ہو گی۔ کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہو گا۔ ہم نے اگر اس عظیم ترین سانحے کے بعد بھی خوداحتسابی اور اصلاح کی راہ اختیار نہ کی اور گزرے ہوئے واقعات کو بھول جانے کی اپنی روش جاری رکھی تو جلد ہی ہمارا وجود بھی ایک بھولی بسری داستان بن جائے گا۔ یہ قدرت کا قانون ہے ، اسے کوئی نہیں بدل سکتا۔

جہاں تک اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے تو ان کی ہستی بہت حلیم اور کریم ہے ۔ انھیں عذاب دینے سے زیادہ اس سے دلچسپی ہوتی ہے کہ وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو سمجھانے کے لیے اپنے بہترین بندوں کو مقرر کریں جو لوگوں میں ایمان و اخلاق کا صور پھونکیں ۔ جیسا کہ ہم نے ابنِ خلدون کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ جس قوم میں اخلاقیات کا جنازہ اٹھ جائے ، اس کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹ جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ اخلاقی طور پر پست ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ ہمارے ہر مسئلے کی تہہ میں جو اہم ترین سبب نظر آئے گا وہ اخلاقیات کی پامالی ہے ۔ کرپشن کرنے والے سرکاری ملازمین اور حکمران، مہنگائی کے ذمہ دار تاجر، قومی مسائل کو حل نہ ہونے دینے والے قوم پرست لیڈر، خودکش حملوں میں معصوموں کی جان لینے والے فدائی اور ان کے حامی علما، سب کے سب اصل میں مسلمہ انسانی اقدار کو ذبح کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں ۔

اس سیلاب سے سیکھنے کی اگر کوئی چیز ہے تو وہ یہی ہے کہ ہمیں مشکلات کے سامنے ڈھہ جانے کے بجائے انھیں چیلنج سمجھ کر ان کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ سیاسی قیادت کو اپنی غلطیوں کی اصلاح کر کے نیا لائحۂ عمل بنانا ہو گا۔ فکری قیادت کو ہر سانحے پر قوم کو عذابِ الٰہی کی نوید سنانے کے بجائے لوگوں میں ایمان و اخلاق کی شمع کو روشن کرنا ہو گا۔ عوام الناس کو بھول جانے کے مرض سے نکل کر احتساب کے اصول پر جینا ہو گا۔ ہم نے اگر یہ کر لیا تو ہم جلد ہی ایک عظیم ملک کے طور پر دنیا کے سامنے ابھر آئیں گے ۔

مصنف: ریحان احمد یوسفی

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

کیا سیلاب اللہ تعالی کا عذاب ہے؟  
Scroll to top