زکوۃ اور خمس میں کیا فرق ہے؟

السلام علیکم و رحمتہ الله و برکاتہ 

گزارش ہے کہ باقاعدہ تحریری حکم (فتویٰ) لکھ دیں جزاک اللہ الخیر۔ کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و  مفتیان شرع متین درج ذیل مسائل میں

المستفتی سید علی الاحسن راولپنڈی 

وعلیکم  السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ علی بھائی
کیا حال ہے اور خیریت سے ہیں؟ پلیز اپنا تعارف عنایت فرمائیں۔ آپ کے سوال کا جواب حاضر خدمت ہے۔ یہ عرض کرتا ہوں کہ فتوی یا حکم کی بجائے یہ ریسرچ کی تحقیق کی حیثیت ہے۔

اس میں سے یہ فرق کر لیجیے کہ شریعت کے احکامات صرف وہی ہوتے ہیں جو قرآن مجید میں موجود ہیں اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پریکٹیکل طریقے سے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سکھا دیا ہے جسے سنت کہا جاتا ہے۔ 

علماء جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں، وہ شریعت کا حصہ نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ ان کی وضاحت کی کوشش ہوتی ہے۔ پھر دین سے ہٹ کر دنیاوی معاملات میں بھی کوئی فتوی دیتے ہیں تو ان کے ارشاد کو ان کا آئیڈیا ہی کہہ سکتے ہیں۔ ہاں اگر وہ دلیل کے ساتھ قرآن و سنت کی بنیاد پر کچھ ارشاد فرما رہے ہوں تو پھر اس میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا ہے۔ اگر اپنے اجتہاد میں انہوں نے کچھ ارشاد فرمایا ہو تو اسے ان کا نقطہ نظر ہی کہہ سکتے ہیں۔

سوال جواب حاضر خدمت ہیں۔

محمد مبشر نذیر

              Web: www.mubashirnazir.org 

Institute of Intellectual Studies & Islamic Studies (ISP)

Learn Islam to make your career in the afterlife

سوال ۔۔۔ زید نے اپنی رقم کسی ادارے کو سونپ دی کہ وه ادارہ جو حلال شرعی کاروبار کرے اسمیں سے زید کو ھر ماہ شرعی  اصولوں کے مطابق منافع ادا کرتا رھے ۔اب زید پریشان ہے کہ جب زید زکاۃ کی ادائیگی کرے گا تب زید اپنی کل سرمایہ کاری کو بھی شامل کرے گا یا کل سرمایہ کاری سے جو منافع كماتا رھا صرف اسی منافع کو شامل کر کے زکاۃ ادا کرے گا؟

جواب ۔۔۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے۔ زکوۃ ہماری آمدنی پر لازم ہوتی ہے۔ بزنس کریں تو جو بھی پرافٹ ہے، اسی پر ہمیں زکوۃ ادا کرنی ہے۔ اب کئی پارٹنرز ہیں تو ہر پارٹنر کو اپنے حصے پر زکوۃ ادا کرنی ہو گی۔ آمدنی پر زکوۃ کا حکم یہی ہے کہ اگر ہم نے کوئی خرچ نہ کیا ہو تو 10% زکوۃ ادا کرنی ہے۔ اگر اخراجات کر کے یہ رقم کمائی ہے تو پرافٹ کا 5% حصہ زکوۃ دینا ہو گا۔ ہر منافع پر زکوۃ ادا کرنا ہی قرآن مجید میں حکم ہے اور سنت نبوی میں اسی کا فارمولا بھی ارشاد فرما دیا گیا ہے جو میں نے عرض کیا ہے۔ 

سوال ۔۔۔ بکر نے ایک گھر تعمیر کیا ۔اس گھر کو بکر  نے ماہانہ کرایہ پر دے دیا ۔خود بکر اب اپنے گھر میں نہیں بلکہ اپنے والد محترم کے گھر پر رھتا ہے ۔اب بکر پریشان ہے کہ زکاۃ دیتے وقت بکر صرف کرایہ کی ایک سال کی کل رقوم کو جمع کرے گا یا پھر کرایہ کی ایک سال کی آمدن کے ساتھ ساتھ زکاۃ دیتے وقت اس گھر کی مارکیٹ میں اندازا کل قیمت لگوا کر اس مکمل قیمت کو بھی کرایہ کی سالانہ رقم میں جمع کرنا ہوگا اور زکات اس مکمل رقم پر بنے گی؟

جواب ۔۔۔ سال کے حساب سے جو زکوۃ ہے، وہ ہمارے فکسڈ ایسٹس پر زکوۃ ہے۔ آمدنی کی زکوۃ تو اسی وقت لازم ہو جاتی ہے جب اس کی رقم مل جاتی ہے۔ کرائے کی نوعیت یہی ہے کہ وہ آمدنی پر زکوۃ ہے۔ اس لیے جو کرایہ ملا جاتا ہے، اس میں  ظاہر ہے کہ اخراجات تو مالک کرتا ہے جیسے بلڈنگ کی مینٹی ننس وغیرہ۔ اس لیے اسے کرایہ کا 5% حصہ اسی وقت زکوۃ ادا کر دینا  چاہیے اور باقی رقم 95% والد صاحب کو پہنچا دیں۔ اگر ہر مہینے میں مشکل لگتا ہے تو پھر وہ چاہیں تو پورے سال میں ٹوٹل کرایہ کو دیکھ کر اس کا 5% زکوۃ ادا کر لیں۔ فرض کیجیے کہ اگر ٹوٹل آمدنی 100,000 ہے تو پھر ہمیں 5,000 زکوۃ ادا کرنی ہو گی۔

سوال ۔۔۔ زکاۃ اور خمس میں کیا فرق ہے؟ کیا دور رسالت و خلافت میں زکاۃ کے ساتھ ساتھ خمس بھی ھر صاحب نصاب پر فرض  ھوا کرتا تھا ؟خمس کیا آج کے دور میں بھی ہر صاحب نصاب پر دینا فرض ہے ؟خمس کا نصاب بھی کیا زکاۃ ھی والا  نصاب ہے؟

جواب ۔۔۔ زکوۃ کی دو شکلیں ہیں۔ ایک تو آمدنی پر زکوۃ اور دوسرے ہمارے پاس جو فکسڈ ایسٹس ہیں، ان پر زکوۃ۔ یہی ہم پر فرض ہے۔ یہ یاد رہے کہ ہمارے فکسڈ ایسٹس پر جو بھی قیمت ہے تو اس پر 2.5% پر زکوۃ ادا کرنی ہو گی۔ فرض کیجیے کہ اگر سونا، چاندی زیورات، کیش وغیرہ جو موجود ہے اور اس کی کل قیمت 1,000,000 ہے تو زکوۃ 25,000 زکوۃ ادا کرنی ہو گی۔  

خمس کا تعلق  آمدنی سے نہیں ہے بلکہ جہاد کی مال غنیمت سے نکلتا ہے۔ قرآن مجید میں آپ سورۃ الانفال میں پڑھ لیجیے کہ مال غنیمت کو 20% حصہ ہی خمس تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ تھا۔ اسی میں آپ اپنی فیملی کے اخراجات پورے کرتے اور  اسی میں غریب اور مسکین حضرات کو ادا کرتے تھے۔ آپ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہی کرتے تھے کہ جہاد کے بعد مال غنیمت کا 20% حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فیملی کو دے دیتے تھے۔ پھر امہات المومنین رضی اللہ عنہن اور دیگر فیملی ممبرز سے خود ہی غریب و مسکین کو ادا کرتے تھے اور ان کی خدمت کرتے تھے۔ 

موجودہ زمانے میں اب وہ سلسلہ نہیں رہا ہے تو خمس کا حصہ بھی ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ ہاں اگر حکومت نے جہاد کی اور اس میں فتح ہوئی  تو پھر خمس کا سلسلہ شروع ہو گا جس کی تفصیل آگے ہے۔ قرآن مجید میں آپ پڑھ لیجیے۔ 

وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ. 41

(اہل  ایمان! آپ نے پوچھا ہی  تھا تو) سن  لیجیے  کہ جو کچھ مال غنیمت آپ  نے حاصل کیا تھا، اُس کا پانچواں حصہ (20%) اللہ تعالی  کےلیے، اُس کے رسول،(رسول کی) فیملی، یتیم، مسکین  اور مسافروں کے لیے خاص رہے گا۔

اگر آپ  اللہ تعالی  پر ایمان رکھتے ہیں  اور اُس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلے کے دن اتاری تھی۔ جس دن دونوں گروہوں میں جنگ  ہوئی تھی، اور(جان رکھیے کہ) اللہ تعالی  ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ (سورۃ الانفال 8:41)

سورۃ الانفال اس وقت نازل ہوئی جب پہلی مرتبہ ہی جنگ بدر ہوئی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جہاد کیا تھا۔ اسی آیت میں حکم دے دیا کہ جنگ کے خاتمہ میں جو کچھ بڑے ایسٹس مل گئے تو انہیں اس طرح تقسیم کرنا ہے۔ اس سے پہلے جاہلیت کا کلچر یہی تھا کہ جس فوجی کو جو چیز مل جاتی تو وہی اس پر قبضہ کر لیتا تھا لیکن اللہ تعالی اب فتح کے نتیجے میں طریقہ کار ارشاد فرما دیا ہے۔

خمس کے لیے حکم تو اس وقت ہو گا جب موجودہ زمانے میں بھی جہاد ہو گا تو اسے حکومت ہی جنگ کرے گی اور فتح ہو گی تو خمس شروع ہو گا۔ پھر اس کا 20% حصہ خمس بنے گا ، لیکن اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فیملی تو نہیں ہے۔ اس کے لیے پھر فقہاء اجتہاد کرتے ہیں کہ اس کا کیا کریں۔ یہ تو کنفرم ہے کہ خمس میں  قرآن مجید کی بنیاد پر غریب اور مسکین کو دیں گے۔ شیعہ فقہاء کا اجتہاد ہے کہ اب بھی نسل در نسل سید حضرات کو خمس ادا کرنا ہے۔ اس میں بھی دینا ہو تو ان سید حضرات میں سے جو معاشی مشکلات میں ہوں، تو انہی کی خدمت ادا کرنی چاہیے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں تو خمس کا حکم اللہ تعالی نے اس لیے دیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پابندی لگا دی تھی کہ آپ بزنس نہیں کریں گے بلکہ فل ٹائم اللہ تعالی کے قرآن کو پڑھاتے جائیں گے اور تربیت دیتے جائیں گے۔ آپ کی فیملی میں تمام امہات المومنین اور بیٹیوں رضی اللہ عنہن پر یہی ذمہ داری تھی کہ وہ خواتین اور بچوں کی تربیت کریں۔ اب ان کے اخراجات کا حل اللہ تعالی نے یہی کر دیا کہ خمس کو دے دیا جو آپ کی تنخواہ ہی کی شکل بن گئی۔  

پھر جب زرخیز زمینیں فتح ہو گئیں تو اس میں سے اسی خمس کی بنیاد پر کچھ باغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے فیملی کے لیے خاص کر دیا ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ خیبر کی فتح کے بعد ہی ہماری معاشی مشکلات حل ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد پھر جب تک امہات المومنین رضی اللہ عنہن زندہ رہیں، تب تک حکومت اسی باغ کی آمدنی اور نئے جہاد میں سے خمس انہیں دیا جاتا۔ پھر امہات الومنین رضی اللہ عنہن بھی اکثر حصہ غریب لوگوں کو دے دیتی تھیں۔

اب آپ کے ذہن میں یہ ہو گا کہ فتح کے نتیجے میں جو کچھ بڑی رقم مل گئی تو باقی 80% کا کیا کریں؟ تو عہد رسالت میں یہی ہوتا تھا کہ باقی رقم انہی فوجیوں کو ادا کر دیتے تھے۔ اس زمانے میں کوئی تنخواہ فوجیوں کو نہیں ملتی تھی بلکہ جب بھی جنگ ہوتی تو تمام لوگ جہاد کے لیے فوج میں شامل ہو جاتے تھے۔ اس طرح فتح کے بعد جو باقی رقم مل جاتی تو وہی ان کی تنخواہ ہوتی تھی۔

پھر جب عمر رضی اللہ عنہ کی حکومت میں بہت سی زرخیز زمینیں مل گئیں تو یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ اس زمین کا کیا کریں کہ یہ رومن اور پرشین ایمپائر کی حکومت کی زمینیں تھیں۔ ظاہر ہے کہ کسی غیر مسلم انسان کی زمین پر قبضہ نہیں کر سکتے تھے۔ یہ وہی زمینیں حکومت کو ملیں جو بادشاہوں کی زمینیں تھیں۔ اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کئی دن تک ڈسکشن کی کہ ان زمینوں کا کیا کریں۔ کچھ حضرات کا خیال تھا کہ اسے فوجیوں کو زمین کا حصہ دے دیں لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کا یہ حکم سمجھایا۔

وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ. 6

مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ. 7

لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ. 8

جو اموال اللہ نے اِن یہودیوں کی طرف سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دیے تواُن پر تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے (کہ اُن پر تمہارا کوئی حق قائم ہو)، بلکہ اللہ ہے جو اپنے رسولوں کو جن پر چاہتا ہے، غلبہ عطا فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

اِن محل کے لوگوں سے اللہ جو کچھ اپنے رسول کی طرف پلٹائے، وہ اللہ ،  رسول ، قرابت مندوں، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے خاص رہے گا تاکہ وہ تمہارے دولت مندوں ہی میں گردش نہ کرتا رہے۔ اور رسول( کا منصب یہی ہے کہ) جو تمہیں دے، وہ لے لو اور جس چیز سے روکے، اُس سے رک جاؤ۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک، اللہ بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔

پھر یہ خاص کر اُن غریب مہاجروں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل اور اُس کی خوشنودی چاہتے ہوئے اور اللہ اور اُس کے رسول کی حمایت کرتے ہوئے آئے ہیں۔یہی راست باز ہیں۔ (سورۃ الحشر)

اس کا پھر فائنر رزلٹ یہی ہوا کہ ان تمام زمینوں کو حکومت ہی سنبھالنے لگی۔ اکثر زرخیز لوگ تو غیر مسلم حضرات تھے جو ایران، عراق، فلسطین، مصر میں رہتے تھے۔ انہی غیر مسلم حضرات کو کاشتکار کا کام دیا۔ جو بھی اگریکلچر نتیجہ آتا تو پھر آدھا حصہ 50% غیر مسلم حضرات کو دیتے۔ وہ خوش ہوتے کہ پہلے بادشاہ تو ہمیں صرف 5 یا 10% ہی دیتے تھے جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو آدھا حصہ ہمیں دے رہے ہیں۔

اب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہی کرتے کہ باقی آدھا حصہ بہت بڑی رقم بن جاتی۔ اسے پھر تمام ممالک میں مسلمان یا غیر مسلم حضرات کو ادا کرتے۔ اس میں تنخواہیں بھی ادا کر دیتے اور غریب حضرات کو زیادہ رقم دے دیتے تھے۔ ان فتوحات کو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کتنی بڑی فتح تھی۔

سوال ۔۔۔۔ کیا موجودہ کرنسی اور موجودہ بینک نوٹ نیز بینک اکاؤنٹ وغیرہ میں ڈپازٹ رقوم  پر بھی زکاۃ اور خمس دونوں فرض ہیں؟

جواب ۔۔۔ بینک اکاؤنٹ میں جو کچھ ہے یا اپنے ہاتھ میں کوئی کیش کسی بھی کرنسی میں ہو، تو اس پر ہمیں زکوۃ ادا کرنی ہے۔ اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیش پر زکوۃ 2.5% ہی کا حکم دیا ہے۔ اسے ہم نے ادا کرنا ہی ہے۔ عہد رسالت میں کیش کی شکل تو سونا چاندی کے سکے ہوتے تھے لیکن اب انٹربینکنگ کے ذریعے کاغذ کرنسی یا بینک اکاؤنٹ کے ویلیو کی شکل ہی ہوتی ہے۔ 

Your Question Answers in mubashirnazir100@gmail.com. 

Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس

زکوۃ اور خمس میں کیا فرق ہے؟
Scroll to top