سوال: بھائی میرا سوال یہ ہے کہ انسان کے لئے اللہ کی عبادت کیوں ضروری ہے، جب کہ اللہ کے پاس تو اس کی عبادت کرنے کے لئے لاکھوں کروڑوں فرشتے موجود ہیں، تو اللہ کو ہماری عبادت کی کیا ضرورت ہے جبکہ ہماری عبادت تو اتنی اثر انداز بھی نہیں ہوتی؟
جواب: آپ کے اس سوال کا جواب قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ہی دے دیا ہے۔ آپ سورۃ البقرۃ کی آیات 31-39 پڑھ لیجیے اور پھر سورۃ الاعراف کے شروع میں بھی پڑھ لیجیے۔ اس کی سمری یہ ہے کہ فرشتے تو روبوٹ قسم کی مخلوق ہے جو اللہ تعالی کی پروگرامنگ سے عبادت کرتے رہتے ہیں اور ساری مخلوق اسی طرح عبادت کرتی ہیں۔ اللہ تعالی نے ایک مخلوق انسان ایسی پیدا کی ہے جو اپنے فیصلے اور اپنی مرضی کی بنیاد پر عبادت کرتا ہے۔ اس مخلوق کو پیدا کرنے کی وجہ بھی بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالی ایسی مخلوق چاہتا تھا جو اپنی مرضی سے اس کی عبادت کریں۔ اس کے لیے اس کے رزلٹ میں اجر دے کر اسے جنت میں سیٹل کر دے گا۔
دارصل اللہ کی اطاعت ہی اس کی عبادت ہے، جسے ہم خود انتخاب کر کے اللہ تعالی کے حضور سرنڈر کر دیتے ہیں اور یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے۔ اس امتحان کے لیے یہ آپشن ہر مخلوق کے سامنے رکھا گیا تھا،لیکن سب نے معذرت کر دی۔ صرف انسان ہی تھا جس نے اس امتحان کا انتخاب کر لیا۔ اس کا جواب سورۃ الاحزاب 33 کے آخر میں فرمایا گیا ہے۔
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا. لِيُعَذِّبَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ وَيَتُوبَ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا. (الاحزاب: 72،73)
(اطاعت کا یہ تقاضا اُس ارادہ و اختیارکی بنا پر کیا جاتا ہے جو ہم نے انسان کو عطا فرمایا ہے۔) ہم نے یہ امانت (کہ وہ آزادی سے اپنے فیصلے کے ساتھ نیکی کر کے جنت حاصل کی کوشش کرے) زمین، آسمانوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تھی تو اُنہوں نے اُس کو اٹھانے سے انکار کر دیا تھا اور اُس سے ڈر گئے تھے، مگرانسان نے اُس کو اٹھا لیا حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی ظالم اور جذبات سے مغلوب ہو جانے والا ہے۔یہ اِس لیے پیش کی گئی تھی کہ اللہ (اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر) منافق مردوں، منافق عورتوں، مشرک مردوں اورمشرک عورتوں کو سزا دے، اور مسلمان مردوں اور مسلمان خواتین کو اللہ تعالی اپنی عنایتوں سے نوازے ، کیونکہ اللہ تعالی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ہمیشہ کے لیے ہے۔
سوال: انسان کسی بھی عبادت سے سبق سیکھتا ہے جو اسے اپنی عملی زندگی میں لاگو کرنا ہوتا ہے مثال کے طور پرنماز ہمیں وقت کی پابندی سکھاتی ہے او ر ہر وقت پاک صاف رہنا اور دین اسلام میں سب برابر ہیں وغیرہ۔ اس کے علاوہ روزہ ہمیں صبر کرنا، بھوکے پیاسے لوگوں کا درد محسوس کرنا اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا سکھاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر دوسری عبادت ہمیں کچھ نہ کچھ سکھارہی ہوتی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ اگرکوئی انسان ان سب چیزوں کو بنا عبادت کے سیکھ لے اور ان پر عمل کرے تو اس کے لئے پھر بھی عبادت کیوں ضروری ہے؟
جواب: عبادت کا اصل مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالی کے بندے بن کر رہیں۔ اس کا طریقہ کار اللہ تعالی نے اپنی کتابوں میں لکھ دیا اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے اس پر عمل کر کے دکھا دیا۔ ان پابندیوں میں ایک تو ثابت ہو جاتا ہے کہ ہم اللہ تعالی کے بندے ہیں۔ دوسرا افیکٹ یہ ہے کہ اس سے ہماری تربیت بھی ہو جاتی ہے۔ مثلاً نماز کا ہم جب سجدہ کرتے ہیں تو اس میں اللہ تعالی سے ڈائرکٹ تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ روزہ کی پابندی کچھ گھنٹوں کے لیے کر لیں تو اس میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی مرضی سے اللہ تعالی کے حضور کنٹرول کر لیتے ہیں۔ اس میں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں دیگر انسانوں کی خدمت بھی کرنی چاہیے جو مشکلا ت میں ہوں۔
زکوۃ کا مقصد ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے جو کچھ ہمیں عنایت فرمایا ہے، اسے علامت کے طور پر اللہ تعالی کے حضور سرنڈر رکھ دیتے ہیں۔ پھر اس کا طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ کتنے فیصد آپ نے زکوۃ کو اللہ تعالی کے حضور کر دینا ہے اور یہ حکومت کو دیں تاکہ وہ غریب لوگوں تک پہنچا دیں۔
قربانی عبادت ہے اور اس کا مقصد یہ ہے ہم اپنے جسم کو اللہ تعالی کے حضور سرنڈر کر دیں۔ اب اس میں اجازت نہیں دی کہ ہم اپنے جسم کو قربان کر دیں بلکہ یہ حکم دیا کہ اپنی جگہ علامت کے طور پر جانور کو قربان کر دیں۔ اسی طرح اللہ تعالی نے برائیوں کو ختم کرنے کے لیے شیطان کے خلاف جہاد کا حکم دیا تو اس کی علامت کے طور پر حج اور عمرہ کرتے ہیں جو عبادت کا حصہ ہے۔ اس میں یہ تربیت ہوتی ہے کہ ہم اللہ تعالی کے حضور اپنے جسم، مال، طاقت سب کو اللہ تعالی کے حضور سرنڈر کر دیں۔ قرآن مجید میں اس کا رزلٹ بتا دیا کہ اس طرح انسان جنت کے لیے مستحق ہو جائیں گے انشاء اللہ۔
اب ظاہر ہے کہ اگر ہم ربورٹ کی طرح عبادت کرتے اور برائی ہوتی ہی نہیں تو پھر امتحان کیا ہوتا اور پھر اس زندگی میں مزا بھی کیا آتا؟ اسی وجہ سے یہ زندگی امتحان ہی کے لیے ہے۔ آخرت میں ہم دیکھیں گے کہ ہماری موجودہ زندگی بس کچھ منٹ کے لیے ہی تھی جس میں ہم جنت کو جیت کر حاصل کر چکے ہیں۔ ابھی آپ دیکھیے کہ ہر انسان کو جیتنے پر خوشی زیادہ ہوتی ہے۔ اگر آپ امتحان میں اعلی رزلٹ ملے اور پھر پروموشن کر کے اعلی جاب مل جائے تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ لیکن آٹومیٹک طریقے سے اچھا رزلٹ مل جائے اور پروموشن مل جائے تو خوشی پیدا نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے ہم لوگوں کو کھیل میں بھی جیت کر مزا آتا ہے ورنہ نہیں آتا ہے۔
Question Answers at mubashirnazir100@gmail.com.
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com