سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛ محترم بھائی مبشر نذیر صاحب
گذشتہ ماہ کے میگزین میں آپ کا مؤقف نظر سے گزرا جس میں آپ نے بیان کیا کہ ایک رسول قتل نہیں ہو سکتا ۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ متعدد آیات ایسی ہیں جو قتلِ رسول پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ رسول ﷺ کے شہید (قتل) ہونے کے امکان کا ثبوت سورۃ آلِ عمران میں موجود ہے۔اگر آپ کہتے ہیں کہ جن آیات میں لفظ ِ رسول آیا ہے ان سے مراد نبی ہے تو اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے تمام رسولوں کا ذکر نہیں کیا ۔ لہذا ہو سکتا ہے کہ قتل ہونے والے رسل غیر مذکور رسل ہی ہوں۔ آیات ملاحظہ ہوں۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ۔
ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی، اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے، آخر کار عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم علیہا السلام کو روشن نشانیاں دے کر بھیجا اور روح پاک سے اس کی مدد کی پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا۔ (البقرۃ: 87)
طلحہ خضر
جواب: رسول کے دو معنی ہیں۔ اصل معنی یہ ہے کہ سادہ الفاظ میں امب سیڈر یعنی جو پیغام پہنچا دیتے ہیں۔ دوسرا معنی ایک ٹرمینالوجی کے طور پر ہے کہ وہ رسول جنہوں نے اللہ تعالی کے حکم پر پوری قوم میں جزا و سزا کا سلسلہ کر کے دکھایا ہے۔
میں نے جو عرض کیا ہے، وہ ٹرمینالوجی یعنی اصطلاحی معنی میں ہے لہذا کوئی بھی رسول قتل نہیں ہو سکا ہے۔ حضرت نوح، ابراہیم، ھود، صالح، لوط، شعیب، موسی، عیسیٰ، محمد علیہم الصلوۃ والسلام کا قرآن مجید میں ذکر ہے۔ ان سب کو شہید کرنے کی کوشش تو کی گئی لیکن لوگ ناکام رہے۔
اصل معنی میں اس آیت میں ذکر ہے جس میں تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا اصل معنی میں رسول کے طور پر فرمایا گیا ہے یعنی اللہ تعالی کے ایمبسیڈر جو تمام انبیاء کرام ایسے ہی تھے۔ ان میں سے کئی انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو شہید کر بھی دیا۔ جیسا کہ بنی اسرائیل نے حضرت ذکریا اور یحیی علیہما الصلوۃ والسلام کو شہید کر دیا۔
جبکہ جزا و سزا والے اصطلاحی رسول کو شہید کرنے کی کوشش تو ان کی قوم نے کی لیکن ناکام رہے۔ جیسےاس کی مثال آپ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کو شہید کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالی نے انہیں پہلے ہی اٹھا لیا۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو آگ میں لگا دیا لیکن اللہ تعالی نے بچا دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کی کئی مرتبہ کوشش کی گئی جو ناکام رہیں۔
اس لیے کسی بھی زبان میں اصطلاحی اور حقیقی معنی میں فرق ضرور کر لینا چاہیے تاکہ پوری بات سمجھ سکیں۔ اس کے لیے پورے سیاق و سباق میں جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں اصطلاحی یا مجازی معنی مراد ہے یا پھر حقیقی معنی مراد ہے۔ اس کی مثال آپ اردو میں دیکھ لیجیے کہ آپ اپنے دوست کو کہتے ہیں کہ تم تو شیر ہو۔ اب یہاں مجازی معنی مراد ہوتا ہے اور حقیقی معنی مراد نہیں ہوتا ہے۔ اب حقیقی معنی میں اپنے دوست کو شیر کہیں جو چڑیا گھر میں ہے تو پھر وہ آپ سے لڑنا شروع کر دے گا کہ تم جانور کہہ رہے ہو۔
سوال: رسول کے قتل کا امکان سورۃ آل عمران اس آیت میں ذکر ہوا ہے ؛ اس آیت کا مطلب آپ کیا سمجھتے ہیں؟
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ۔
محمدﷺ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو۔ جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا۔ (آلِ عمران: 144)
جواب: سورۃ آل عمران اس وقت نازل ہوئی جب جنگ احد ختم ہوئی تھی۔ اس وقت پراپیگنڈا کیا گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کر دیا گیا ہے۔ اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مورال میں دکھ اور غم تھا اور بہت سے لوگ تو اس جنگ کے لشکر سے دور چلے گئے تھے۔ ان سب کی تربیت میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں۔ یہاں پر بھی الرسل کا حقیقی معنی میں ارشاد فرمایا ہے اور تربیت کی ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کر دیا ہوتا تو تب بھی آپ کا ایمان باقی رہنا چاہیے تھا۔ اس تربیت کا یہ بھی فائدہ ہوا کہ مستقبل میں وفات تو ہونا ہی تھی لیکن یہ وفات غلبہ کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہوا تو اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دکھ بھی ہوا اور مورال گرنے لگا تھا۔ اس وقت عمر رضی اللہ عنہ تو تلوار پکڑ کر نکلے اور کہا کہ کسی نے یہ بات کی تو اس کی گردن کاٹ دوں گا۔ اس وقت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں روک کر یہی آیت سنائی۔ اس میں پھر عمر رضی اللہ عنہ کو شعور بھی آ گیا اور انہیں سمجھ آگئی کہ اس آیت کا مطلب کیا ہے۔ وہی فرماتے ہیں کہ مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ آیت اب نازل ہوئی ہے۔ اصطلاحی معنی میں یہ آیت آپ دیکھ لیجیے تو اصطلاحی اور حقیقی معنی کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔
کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔
اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑے زور والا اور بڑا زبردست ہے۔ (المجادلہ ۵۸: ۲۱)
سوال: درج ذیل آیات سے بھی رسول کے قتل کا امکان ظاہر ہوتا؛
الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہم کو ہدایت کر دی ہے کہ ہم کسی کو رسول تسلیم نہ کریں جب تک وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ کرے جسے (غیب سے آکر) آگ کھا لے “، اُن سے کہو، ”تمہارے پاس مجھ سے پہلے بہت سے رسول آ چکے ہیں جو بہت سی روشن نشانیاں لائے تھے اور وہ نشانی بھی لائے تھے جس کا تم ذکر کرتے ہو، پھر اگر (ایمان لانے کے لیے یہ شرط پیش کرنے میں) تم سچے ہو تو اُن رسولوں کو تم نے کیوں قتل کیا؟ (آلِ عمران: 183)
لَقَدْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَأَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ رُسُلًا كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُهُمْ فَرِيقًا كَذَّبُوا وَفَرِيقًا يَقْتُلُونَ۔
ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور اُن کی طرف بہت سے رسول بھیجے، مگر جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول اُن کی خواہشات نفس کے خلاف کچھ لے کر آیا تو کسی کو انہوں نے جھٹلایا اور کسی کو قتل کر دیا۔ (المائدۃ: 70)
وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ۔
ہم نے اُن رسولوں پر بھی وحی نازل کی جن کا ذکر ہم اِس سے پہلے تم سے کر چکے ہیں اور اُن رسولوں پر بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا۔ (النساء: 164)
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ۔
اے نبیﷺ، تم سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے حالات ہم نے تم کو بتائے ہیں اور بعض کے نہیں بتائے۔ غافر: 78)
ان آیات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک رسول قتل ہو سکتا ہے ۔آپ کا اس حوالے سے کیا کہنا ہے ؟
جواب: ان سب آیات میں رسول کا معنی وہی لغوی معنی میں ہے۔ جبکہ میں نے اصطلاحی معنی میں یہ بتایاہے کہ جن رسولوں پر جزا و سزا کی ذمہ داری ڈالی گئی تو انہیں کوئی شہید نہیں کر سکا۔ انہیں آیات کے ساتھ آپ اس آیت کو بھی دیکھ لیجیے جس سے یہ کنفرم ہوتا ہے کہ رسول کا اصطلاحی معنی میں کیا مراد ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب رسول کا غلبہ ہو جائے تو پھر رسول نارمل فوت ہو سکتے ہیں اور اپنے مشن کے بعد شہید بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن جب تک جزا و سزا کا غلبہ نہ کر سکیں، اس وقت تک یہ معاملہ نہیں ہو سکتا ہے۔ آل عمران والی آیت میں یہی معاملہ ہے۔
کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔
اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑے زور والا اور بڑا زبردست ہے۔ (المجادلہ ۵۸: ۲۱)
اس کے علاوہ درج ذیل آیات میں بھی اصطلاحی معانی مذکور ہیں؛
مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَکْتُمُوْنَ۔
پیغمبر پر تو صرف پہنچا دینے کی ذ مہ داری ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ چھپاتے ہو۔ (المائدہ ۵: ۹۹)
فَھَلْ عَلَی الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ۔
’سو رسولوں پر تو صاف صاف پہنچا دینے ہی کی ذمہ داری ہے۔ (النحل ۱۶: ۳۵)
سوال: اس آیت کی روشنی میں اس بات کا بھی امکان ہو سکتا ہے کہ قتل ہونے والے رسل حضرات موسی و عیسیٰ علیہا السلام کی نوعیت و مقام والے ہوں کیونکہ اس آیت میں دونوں کا ذکر بطور مثال آیا ہے۔ مزید برآں یہ کہ ، ایسے رسل واضح نشانیاں( معجزات) لے کر آئے یعنی پورا پروٹوکول لے کر آئے پھر بھی ان کو قتل کر دیا گیا؛
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ۔
ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی، اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے، آخر کار عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم علیہا السلام کو روشن نشانیاں دے کر بھیجا اور روح پاک سے اس کی مدد کی پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا۔(البقرۃ: 87)
اس کی وضاحت بھی فرمادیجئے؟
جواب: یہاں پر حضرت موسی اور عیسی علیہما الصلوۃ والسلام کو شہید کرنے کی کوشش تو انہوں نے کی اور اپنی طرف سے انہوں نے قتل ہی کر دیا لیکن اللہ تعالی نے بچا دیا۔ اس کی تفصیل سورۃ النساء اور سورۃ لمائدہ میں پڑھ لیجیے ۔ خاص طور پر حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو بنی اسرائیل نے شہید کرنے کی کوشش کی تھی اور اللہ تعالی نے بچا دیا لیکن ان کے منافق کی شکل ایسی بنا دی کہ سزا اسی کو ملی ۔ یہودی اور عیسائی یہی سمجھتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو سولی لگوا دی ہے لیکن اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح کر دیا ہے کہ اسے نہیں کرنے دیا۔
اب منافق پر سولی لگ گئی تو یہودی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں کہ ہم نے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو سولی کروا دی۔ عیسائی اسی پر ماتم کرتے ہیں اور اسی وجہ سے یہود و نصاری میں آپس میں دشمنی رہی اور جنگیں کرتے رہے۔ یورپ کے یہودی خود اپنی تاریخی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ یورپ میں سب سے بڑا سکون ہمیں اسپین میں ملا جب تک مسلمانوں کی حکومت تھی۔ باقی تو آپ جانتے ہیں کہ ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام کر دیا تھا۔
لہذا سورۃ مجادلہ کی آیت 21(کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ)کی موجودگی میں قرین ِ قیاس یہی بات ہو سکتی ہے کہ ایسے رسل اپنا مقصد پورا کرنے کے بعد قتل کر دیئے گئے۔
آپ کے ارشاد میں بس ممکن ہی کہہ سکتے ہیں۔ البتہ تمام رسل جن کا ذکر ہے، ان میں سے کسی کو قتل نہیں کر سکے۔ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو شہید کرنے میں کامیاب ہوئے۔ خاص طور پر حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ہی حضرت یحیی علیہ الصلوۃ والسلام کو شہید کر دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہودی اپنے گناہ کو سمجھتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں۔ انہی کا عراقی یہودی فرقہ صابی ہیں جو خود کو حضرت یحیی علیہ الصلوۃ والسلاام کی امت کہلاتے ہیں۔
انہوں نے حضرت الیاس علیہ الصلوۃ والسلام کو لبنان میں شہید کرنے کی کوشش کی تھی جو نبی تھے۔ اللہ تعالی نے انہیں بھی بچا دیا تھا اور انہیں حکم دیا کہ وہ ہجرت کر کے یروشلم چلے جائیں۔ اس کی تفصیل بائبل میں ملتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ حضرت الیاس علیہ الصلوۃ والسلام بھی رسول ہوں اس لیے انہیں بھی بچا لیا ہو یا ہو سکتا ہے کہ وہ نبی ہوں اور اللہ تعالی نے بہرحال انہیں بچا دیا۔ اس کے بعد پھر لبنانی حکومت پر سزا جاری کردی گئی اور عراق کے ذریعے ہی انہیں غلام بنا لیا گیا۔ پھر کافی عرصے بعد یروشلم حکومت پر بھی سزا آئی اور ان پر بھی مغلوبیت کی سزا نافذ ہوئی۔
ان کی تاریخ کو تو آپ مودودی صاحب کی تفسیر میں سورۃ بنی اسرائیل میں پڑھ سکتے ہیں جوکہ بائبل ہی کی بنیاد پر انہوں نے لکھی ہے۔ میں نے بھی بنی اسرائیل کی تاریخ لکھ دی ہے جو پہلی کتاب میں ہے۔ اس کا لنک یہ ہے؛
Your Questions should come to mubashirnazir100@gmail.com.
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com