سوال: میرا آج کا سوال یہ ہے کہ دین اسلام میں کوئی مزاح پر مبنی ایکٹیویٹی کیوں دیکھنے کو ملتی، اسلام اتنا سنجیدہ مذہب کیوں ہے؟ ہم انسانوں کو مزے کرنا اچھا لگتا ہے تو اسلام میں کوئی مزے والی ایکٹیویٹی کیوں نہیں ہے؟ مطلب اگر ہم دل کھول کر ہنسنا بھی چاہیں تو اس میں بھی ہمیں کوئی حدیث یا حضرت علی کا کوئی قول سنا دیا جاتا ہے کہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہوجاتا ہے”۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں شکریہ
حسنین شیخ
جواب: دین سے متعلق جو بھی ارشادات ہیں، وہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بیان کر دیے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمل کر کے دکھایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت کی ہے۔ آپ پورے قرآن اور احادیث کا مطالعہ کریں تو آپ کو کہیں ایسی بات نہیں نظر آئے گی جس میں ہنسنا یا مذاق سے کہیں پر روکا گیا ہو۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا کچھ نہیں فرمایا ہے۔ آپ نے کسی سے سنا ہے تو ان سے پوچھ لیجیے کہ یہ حدیث یا علی رضی اللہ عنہ کا قول کس کتاب میں لکھا ہوا ہے؟ قرآن مجید میں آپ کے سوال کا جواب اللہ تعالی نے کر دیا ہے۔
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ. قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ، قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ، وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ۔
آدم کی اولاد! ہر مسجد کی حاضری کے وقت اپنی زینت کے ساتھ آئیے، کھائیں پئیں، مگر حد سے آگے نہ بڑھیے گا کیونکہ اللہ تعالی حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (اے رسول!) آپ اِن سے پوچھ لیجیے کہ اللہ تعالی کی اُس زینت کو کس نے حرام کر دیا جو اُس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی تھی اور کھانے کی پاکیزہ چیزوں کو کس نے حرام قرار دیاہے؟
آپ اِن سے فرما دیجیے کہ وہ انجوائے منٹ دنیا کی زندگی میں بھی اہل ایمان کے لیے ہیں، (لیکن اللہ تعالی نے منکروں کو بھی اُن میں فائدہ دے دیا ہے) اور قیامت کے دن تو خاص انہی اہل ایمان کے لیے ہوں گی (جبکہ منکروں کا اُن میں کوئی حصہ نہ ہو گا۔) ہم اُن لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں، اپنی آیات کی اِسی طرح تفصیل کر دیتے ہیں۔
آپ فرما دیجیے کہ میرے رب نے تو صرف یہی حرام فرمایا ہے۔
۔۔۔۔۔ فحاشی خواہ وہ کھلے ہوں یا چھپے۔
۔۔۔۔۔ حق تلفی
۔۔۔۔۔ ناحق زیادتی کو حرام کیا ہے
۔۔۔۔۔ اِسے بھی کہ آپ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک ایجاد کریں، جس کے لیے اُس رب نے کوئی ثبوت نازل نہیں کیا ہے۔
۔۔۔۔۔ یہ بھی کہ آپ اللہ تعالی کے نام پر اپنی طرف سے ایجاد کی ہوئی بدعت کہ دیں جسے آپ خود بھی نہیں جانتے ہیں۔
(اِس وقت بے پرواہ ہو رہے ہیں، لیکن اِن سب حرمتوں کے معاملے میں آپ کی سرکشی کی وجہ وہ آپ کو بھی ایک دن لازماً پکڑے گا، اِس لیے کہ) ہر قوم کے لیے ایک ٹائم مقرر ہے، پھر جب اُن کی ٹائم لائن پوری ہو جاتی ہے تو نہ وہ ایک سیکنڈ پیچھے ہٹ سکتے ہیں، نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ (سورۃ الاعراف 31-34)
جو بات آنے بیان فرمائی ہے،آپ کو احادیث اور آثار صحابہ کی کسی کتاب میں بھی نہیں ملے گا۔ بس کسی مولوی صاحب نے یہ بات کہہ دی ہو گی جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر آپ کو کسی حدیث یا قول میں ایسی بات ملی ہے تو ضرور فرما دیں تاکہ واضح کر سکوں۔ اس قسم کی اگر کوئی بات ہوئی تو اس کا تعلق کسی خاص صورت حال سے ہو گا۔ مثلاً کسی وقت دیکھا کہ آخرت کی کامیابی کی بات ہو رہی ہو تو اسے سننے کی بجائے اپنے کسی مذاق میں کوئی ہنسا ہو تو تب انہیں سمجھایا گیا ہو کہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہو سکتا ہے۔ یعنی اس بات کو سمجھنے کی بجائے وہ کسی اور مذاق میں شروع ہو گیا ہو گا۔
احادیث کے مطالعے میں ہمیشہ یہ دیکھنا چاہیے کہ اصل موقع کیا ہے جس میں ایسی بات ہوئی ہو گی۔ ورنہ آپ کو ایسی احادیث بھی ملیں گی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہنسی بھی آئی ۔ مثلاً ایک حدیث یاد آئی ہے جس میں عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید میں روزہ شروع کرنے کے متعلق پڑھا اور عمل کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ہنسی آ گئی۔ حدیث کچھ یوں ہے۔
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب یہ آیت اتری
حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ
(البقرۃ: 187)
یعنی ”کھاتے پیتے رہو جب تک کہ ظاہر ہو جائے سفید دھاگہ کالے دھاگے سے صبح کے۔“ تو سیدنا عدی رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! میں اپنے تکیہ کے نیچے دو رسیاں رکھتا ہوں ایک سفید ایک کالی اسی سے میں پہچان لیتا ہوں رات کو دن سے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ کا تکیہ تو بہت چوڑا ہے (مزاح کی راہ سے فرمایا کہ اتنا چوڑا ہے کہ صبح اسی کے نیچے سے ہوتی ہے) اس آیت میں تو سیاہی رات کی اور سفیدی دن کی مراد ہے۔ (صحیح مسلم 2533)
سوال: آج ہم نے برتھ ڈے بھی حرام کہہ دی، میوزک بھی حرام اور ہر وہ چیز جو انٹریٹینمنٹ سے جڑی ہے اسے اسلام سے باہر نکال دیا۔ تو کیا واقعی اسلام اتنا سیریس مذہب ہے؟ اگر ایسا ہے تو کوئی غیر مسلم کیوں اسلام میں آئے گا، جب کہ ان کے اپنے مذہب میں کرسمس،ہولی، دیوالی اور ایسٹرڈے وغیرہ سب میں کوئی نہ کوئی مزاحیہ سرگرمی ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم مسلمان ان کے کو تہواروں کو کسی نہ کسی شکل میں مناتے ہیں لیکن وہ ہماری عید نہیں مناتے، کیونکہ ہمارے پاس اپنے تہواروں میں انجوائے کرنے کے لئے کچھ ہے ہی نہیں۔ کیا واقعی اسلام ایک بورنگ مذہب ہے؟ اگر ہاں تو پھر ی ایسا کیوں ہے؟
جواب: اس میں ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ فنکشن کا مقصد کیا ہے؟ اگر کوئی مذہبی تہوار ہے جیسا کہ کرسمس ، ہولی وغیرہ تو یہ مذہبی تہوار ہے۔ اس میں ہمیں بچنا ہی چاہیے کیونکہ اس تہوار میں کوئی نہ کوئی مشرکانہ آئیڈیا لگا ہوا ہوتا ہے یا اس میں کوئی برا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ مثلاً کرسمس کے موقع پر فحاشی جیسی حرکتیں شروع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ہولی، دیوالی وغیرہ میں کوئی مشرکانہ عمل یا آئیڈیا چل رہا ہوتا ہے۔
ایسٹر میں ایک غلط تصور ہے کہ عیسائی حضرات نے سمجھا کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو شہید کر دیا گیا لیکن تین دن بعد آپ دوبارہ زندہ ہو گئے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بتا دیا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے بلکہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو کسی نے بھی قتل نہیں کیا۔ ایسٹر فنکشن میں اس نوعیت کے تصور پر بات چلتی ہے۔
اگر شرک، فحاشی یا کوئی ایسی حرکت نہ ہو رہی ہو تو پھر کسی دوست کے ساتھ بیٹھا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے آفس میں کرسمس میں عیسائی کولیگ کیک وغیرہ لے آتے ہیں اور ہمیں دیتے ہیں تو اس میں کوئی ایسی حرکت نہیں ہوتی ہے۔
مذہب سے ہٹ کر کوئی اور تہوار ہے جیسے جشن بہار کا میلہ وغیرہ اس میں دین سے متعلق کچھ نہیں ہوتا۔ اب اس میں بھی اگر کوئی غلط حرکت نہ ہو رہی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر کوئی فحاشی یا کوئی اور حرکت ہو رہی ہو تو پھر اس سے بھی بچنا چاہیے۔اسی طرح بسنت کا تعلق بھی محض موسم سے ہوتا ہے۔ اس میں اگر پتنگ وغیرہ کریں تو اس میں حرج نہیں ہے لیکن اگر ایسی ڈور ایسی ہو ں جو کسی انسان کو زخمی کر سکے یا قتل کر دے تو یہ بھی برا عمل ہے۔ دین میں بنیادی حکم یہی ہے کہ غیر اخلاقی کوئی بھی حرکت ہو تو وہ حرام ہے۔
اب آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کسی بھی تہوار میں شرک، برائی یا غیراخلاقی حرکت ہو تو اس سےہمیں دور رہنا چاہیے۔ اگر ایسا کچھ بھی نہ ہو تو دین میں کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔ اس کے لیے آپ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 33 میں پڑھ کر خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کسی تہوار یا کسی عمل میں کیا حرام ہے اور کیا حلال؟
Ask your questions through email at mubashirnazir100@gmail.com.