سوال: ہمارا ایک رشتہ دار ہے وہ غیر اللہ کو پکارتا ہے، کبھی وہ یارسول مدد اور کبھی یاعلی مدد کہتا ہے اور قبروں سے فیض کی تلاش میں مختلف درباروں پر بھی حاضری دیتا ہے۔ اس کو ہم کئی سالوں سے قرآن کی آیتیں اور حدیثیں سنا سنا کر سمجھا چکے ہیں مگر وہ ان شرکیہ حرکتوں سے باز نہیں آرہا ۔ کل اگر وہ مرجائے تو کیا ہم اس کے شرک کو جانتے ہوئے بھی اس کاجنازہ پڑھ سکتے ہیں؟ ہمارے ایک مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ یہ مشرک ہے اور مشرک کے بارے میں اللہ کا فیصلہ ہے کہ مشرک جہنم میں جائے گا اور مشرک کے لئے استغفار کرنا حرام ہے۔ اب ایسی صورت میں درست طرز عمل کیا ہوگا؟
جواب: یہ توہم پرستی ہی مشرکانہ عمل ہے۔ اس میں مسلمانوں میں وحدت الوجود کے تصور کے ساتھ توہم پرستی پیدا ہو گئی ہے۔ اس میں دو طریقے پیدا ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بزرگ اللہ کا حصہ ہے، تو پھر اس کی قبر میں پوجا شروع کرتے ہیں۔ دوسرا آئیڈیا اکثر لوگوں کا ہے کہ یہ بزرگ، اللہ تعالی کے ولی ہیں۔ چنانچہ ان سے ہم صرف درخواست کر رہے ہیں کہ وہ اللہ تعالی سے ہمارے بارے میں دعا کریں۔ ظاہر ہے کہ درخواست کرنا شرک نہیں ہے بلکہ غلط تصور پیدا کیا گیا ہے۔
مشرک اس شخص کو کہا جا سکتا ہے جو خود اپنے آپ کو مشرک کہے۔ وہ خود کو مشرک نہیں کہتا ہے بلکہ توحید پر ایمان رکھتا ہے۔ بس صوفی آئیڈیاز کے تحت غلط فہمیوں کی وجہ سے انہیں یہ بیماری پیدا ہو گئی ہے۔ قرآن مجید میں آپ خود دیکھیے کہ اللہ تعالی نے اہل کتاب کو مشرک قرار نہیں دیا ہے، لیکن یہ بتایا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالی کے بیٹے کا تصور پیدا کر لیا تھا ،جو ان کی غلطی ہے۔ وہ ہرگز خود کو مشرک نہیں کہتے تھے۔ بالکل وہی صورتحال مسلمانوں کی ہے۔ اس کے لیے آپ تصوف کی میری کتاب میں ان کے آئیڈیاز کو دیکھ سکتے ہیں۔
اس لیے ہمیں یہی کرنا چاہیے کہ اپنے بھائیوں بہنوں کی غلط فہمی کو درست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان کی وفات آ جائے تو اللہ تعالی سے یہی دعا کرنی چاہیے کہ ان بھائیوں بہنوں کی غلط فہمیوں پر انہیں معاف فرما دے۔ اللہ تعالی نے سورۃ توبہ میں یہی وضاحت کر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں عرب کے مشرکین پر قتل عام کا حکم دیا لیکن اہل کتاب میں قتل کا حکم نہیں دیا بلکہ انہیں مغلوبیت کی سزا دی۔ اسی سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ آخرت میں مشرکین اور غلط فہمی کرنے والے لوگوں کا رزلٹ ایسا ہو گا۔
إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ. فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ۔
وہ مشرکین، البتہ اِس اعلان براءت سے مستثنیٰ ہیں جن سے (اے رسول!) آپ نے معاہدہ کر لیا تھا۔ پھر اُس کو پورا کرنے میں انہوں نے آپ کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ آپ کے خلاف کسی کی مدد کی ہے۔ سو اُن کا معاہدہ اُن سے معاہدے کے ٹائم تک پورا کر لیجیے، اِس لیے کہ اللہ تعالی اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو بد عہدی سے بچنے والے ہوں۔(بڑے حج کے دن) اِس (اعلان)کے بعد جب حرام مہینے (ذوالقعدہ، ذو الحج اور محرم) گزر جائیں تو اِن مشرکوں کو جہاں پائیں، قتل کر دیجیے گا اور اِس مقصد کے لیے اِن کو پکڑیں، اِن کو گھیریں اور ہر گھات کی جگہ اِن کی تاک میں بیٹھیے گا۔ پھر اگر یہ توبہ کر لیں، نمازکا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اِن کی راہ چھوڑ دیجیے گا۔ یقینا اللہ تعالی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ہمیشہ کے لیے ہے۔ (سورۃ التوبہ 5)
وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ۔
اگر (اِس پولیس ایکشن کے موقع پر) اِن مشرکوں میں سے کوئی شخص آپ سے امان چاہے (کہ وہ آپ کی دعوت سننا چاہتا ہے) تو اُس کو امان دے دیجیے گا۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالی کا کلام سن لے۔ پھر اُس کو اُس کے علاقے تک پہنچا دیجیے گا۔ یہ اِس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو (اللہ تعالی کی باتوں کوزیادہ) نہیں جانتے۔ (التوبۃ:6)
قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ۔ وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ذَٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ۔
(اِن مشرکین کے علاوہ) اُن اہل کتاب سے بھی کر لیجیے جو اللہ تعالی اور روز آخر پر (سچا) ایمان نہیں رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اُس کے رسول کے حرام احکامات کو حرام نہیں سمجھتے ہیں اور نہ ہی دین حق کو اپنا دین بناتے ہیں۔ (اُن سے جنگ کر لیجیے) یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور ماتحت بن کر رہیں۔(اُن کا دین اب یہی ہے کہ) یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔یہ اُن کے اپنے منہ کی باتیں ہیں۔ وہ انہی (قدیم لیڈرز) منکروں کی سی بات کہہ رہے ہیں جو اُن سے پہلے ہو گزرے ہیں۔اُن پر خدا کی مار، وہ کہاں سے پھرے جاتے ہیں۔ (التوبۃ: 29،30)
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ. يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ۔ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون۔
اللہ تعالی کے سوا انہوں نے اپنے فقہ کے علماء اور راہبوں کو (نفسیاتی غلامی کے طور پر) رب بنا ڈالا ہے اور مسیح ابن مریم کو بھی۔جبکہ انہیں ایک ہی خدا کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا، اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ، وہ پاک ہے اُن چیزوں سے جنہیں وہ شریک ٹھیراتے ہیں۔چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے اِس نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں جبکہ اللہ تعالی نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا، خواہ اِن منکروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ (اِس سرزمین کے) تمام مذاہب پر اُس کو غالب کر دے، خواہ مشرکین بھی اِسے کتنا ہی نا پسند کریں۔ (التوبۃ: 31-33)
ظاہر ہے کہ وہاں پر اتمام حجت ، اللہ تعالی نے کر دی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتا دیا کہ کس کس انسان میں اتمام حجت ہو گئی ہے اور کس کس انسان پر اتمام حجت ابھی نہیں ہوئی ہے۔ اتمام حجت یہی ہے کہ ہر انسان کو اپنی غلطی واضح ہو گئی ہے۔ اب ہمارے لیے ممکن نہیں ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی بتا دیتا رہا ہے۔
سوال: اگر بچہ پیدا ہی مردہ ہوا ہو تو اس کو غسل دینا، نماز جنازہ پڑھنا اور قبر میں دفنایا جانا اور نام رکھنا کیا ضروری ہے؟ ایک مولانا کہہ رہے تھے کہ غسل دینا اور نام رکھنا شرط نہیں ہے، برائے مہربانی وضاحت فرمادیجئے؟
جواب: یہ سب اجتہادی معاملہ ہے۔ نام رکھنے کا دین میں کوئی حکم نہیں ہے۔ اب والدین اس کا نام کہنا چاہیں تو کہہ لیں کہ مستقبل میں وہ آپس میں اس بچے کے بارے میں کوئی بات ہو گی۔ دفن تو اس مردہ بچے کو ضرور کرنا ہے اور نماز جنازہ بھی کرنا چاہیے جو اللہ تعالی سے دعا ہے۔ اس دعا میں اس بچے کی والدہ اور والد کے بارے میں بھی دعا کریں کہ ان کے غم پر اللہ تعالی ان کی مدد کرے کیونکہ والدہ ہی کو زیادہ دکھ ہوتا ہے۔
غسل دینا ہی چاہیے۔ اس کے لیے کسی مولانا صاحب کی بجائے ڈاکٹرزسے پوچھ لینا چاہیے کہ مردہ بچے کے کوئی کیمیکلز اور جراثیم سے آزاد لوگوں پر اثر کیا ہو سکتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس میں جراثیم کا خطرہ تو کسی بھی مردہ انسان سے لے کر نارمل انسانوں تک ہو سکتا ہے، اس لیے اسے غسل کر کے ہی دفن کرنا چاہیے۔
Ask your questions through email at mubashirnazir100@gmail.com.
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com