سوال: حدیث کے حوالے سے میرا ایک سوال ہے کہ حجیتِ حدیث میں تقریر و تصویب ِ رسول ﷺ کیسے حکم کا ماخذ بن سکتی ہے ؟ کیا تقریری حدیث مشکوک و مبہم معلوم نہیں ہوتی؟ قول و فعلِ رسولﷺ بے شک دین میں حجت ہے ۔لیکن حکم کےاثبات و نفی کے حوالے سے تقریری حدیث غیر جانبداری کی طرٖ ف مائل نظر آتی ہے۔ یعنی حکم واضح معلوم نہیں ہوتا۔ اس حوالے آپ کی رہنمائی درکار ہے؟
طلحہ خضر، لاہور
جواب: آپ کے سوال کا تعلق علوم الحدیث کے متن کی ریسرچ سے متعلق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریر و تصویب سے حاصل کردہ قانون سازی پر تقریباً تمام علماء قائل ہیں۔ اس کی تفصیل آپ خود امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب الرسالہ میں اسی موضوع پر پڑھ سکتے ہیں۔
اس میں سوال یہاں سے پیدا ہوتا ہے کہ تقریر و تصویب حدیث کیا قابل اعتماد ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہے تو پھر بات ختم ہو گئی۔ لیکن اگر حدیث قابل اعتماد ہے تو پھر آپ کا سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشکوک و مبہم ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اگر حدیث قابل اعتماد ہے تو پھر وہ مشکوک نہیں ہو سکتی ہے لیکن مبہم ہو سکتی ہے کیونکہ اس میں متن مکمل نہیں ہو سکتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں لوگوں کا طریقہ یہی ہوتا تھا کہ وہ حدیث میں پوری بات بیان نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے شاگرد اس پورے سیاق و سباق کو جانتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ وہ عالم اس طرح حدیث بیان کرتے کہ انہیں اندازہ ہوتا کہ ہزار سال بعد انسان اس حدیث کو سمجھ سکیں گے یا نہیں تو پھر وہ مبہم نہ کرتے بلکہ پوری بات کر دیتے۔ اب اس کا حل یہی ہے کہ اس ٹاپک پر جتنی احادیث ہیں، ان سب کو پڑھیں تو پھر سیاق و سباق سامنے آ جاتا ہے۔ اسی موضوع پر دوسری کسی حدیث میں سیاق و سباق کی بات سامنے آ جاتی ہے۔
حکم واضح نہیں ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ریسرچر نے اس موضوع کی دیگر احادیث کو دیکھا ہی نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال عرض کرتا ہوں۔ ایک حدیث میں ہے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ وہ اپنی پوری رقم کو صرف دینی خدمت پر لگانا چاہتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ وصیت کر دوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کی فیملی کی ضرورت زیادہ اہم ہے۔ اس لیے آپ دینی خدمت پر وصیت کرنا چاہتے ہیں تو اسے 33% کی حد تک ہی رکھیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’عادني رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم وأنا مريض فقال أوصيت قلت نعم قال بكم قلت بمالي كله في سبيل اللہ قال فما تركت لولدك قلت هم أغنياء بخير قال أوص بالعشر فما زلت أناقصه حتى قال أوص بالثلث والثلث كثير‘‘ ترجمہ : میں بیمار تھا کہ نبی پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام میری عیادت کے لیے تشریف لائے ، تو ارشاد فرمایا : کیا تم نے وصیت کر دی ہے ؟ میں نے عرض کیا:جی ہاں ! آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:کتنے مال کی وصیّت کی؟ میں نے عرض کیا:راہ خدا میں اپنے تمام مال کی وصیت کی ہے ۔ آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:اپنی اولاد کے لیے کیا چھوڑا؟ میں نے عرض کیا: وہ لوگ اغنیا یعنی صاحب مال ہیں، آپ نے فرمایا:دسویں حصہ کی وصیت کرو۔ تو میں مسلسل کمی کرتا رہا ( یعنی بار بار پوچھتا رہا کہ اتنے مال کی وصیت کر دوں ۔۔۔ ؟ ) یہاں تک کہ آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:ثلث مال کی وصیت کرو اور ثلث مال بہت ہے۔ ( سنن الترمذی ، کتاب الجنائز ، باب ماجاء فی الوصیۃ بالثلث ، جلد 1 ، صفحہ 316 ، مطبوعہ لاہور )
اب اس میں فقہاء میں خیال یہی آیا کہ وصیت کی لمٹ بس 33% ہونی چاہیے۔ انہوں نے قانون سازی بھی کر دی۔ لیکن جن فقہاء میں اختلاف ہوا تو انہوں نے کہا کہ اگر یہ دین کا حکم ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بتا بھی دیتے اور انہیں بتا بھی دیتے کہ اس سے زیادہ بڑی وصیت کر بیٹھیں گے تو اپنی اولاد اور بیگم پر زیادتی ہو گی۔ لیکن یہ ارشاد صرف ایک صحابی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تک ہی ہوا ہے جب واقعہ ہوا تھا۔ اس لیے اس حدیث کی بنیاد پر تمام انسانوں پر 33% پر حکم نہیں ہے۔ بلکہ اس حدیث کی بنیاد پر ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی فیملی کی مستقبل میں ضرورتوں کو چیک کر کے ہی پھر آپ باقی رقم پر وصیت کریں۔
اب آپ دونوں طرح فقہاء میں خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس حدیث کی تحقیق میں کونسا نقطہ نظر زیادہ درست ہے۔ میرا نقطہ نظر یہی ہے کہ اس حدیث کی بنیاد پر ہر انسان کی فیملی کی صورتحال اور مستقبل کی ضروریات پر وصیت کی لمٹ ہونی چاہیے۔ یعنی یہاں اس حدیث میں سعد رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی بنیاد پر مشورہ فرمایا تھا۔ اصول یہی ہیں کہ اپنی فیملی پر مشکلات نہیں آنی چاہییں۔
مثلاً ایک صاحب کے تین چار چھوٹے بچے ہیں جن کی تعلیم، تربیت اور بزنس یا جاب کی ضرورت ہے۔ ایسی صورتحال میں پھر ان صاحب کو وصیت میں 10% تک ہی کرنا چاہیے۔ دوسرے صاحب کے تمام بچے جوان ہیں اور ان کا بزنس اچھا چل رہا ہے لیکن ان کی بیگم بڑھاپے میں ہیں۔ ان صاحب کو وصیت میں 33% کی لمٹ کافی ہے۔ تیسرے صاحب کی کوئی بیگم زندہ نہیں ہے اور تمام اولاد امیر ہو چکے ہیں اور ان کا بزنس بہت عمدہ ہے۔ ایسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ان صاحب کو 50% تک وصیت کر سکتے ہیں۔ چوتھے صاحب کے تمام اولاد امیر ہیں لیکن ایک بیٹی بیوہ ہے یا ایک بیٹا بہت مستقل بیمار ہے۔ ایسی صورت میں ان کی وصیت کی لمٹ کم ہونی چاہیے اور شاید 5% ہی کافی ہو تاکہ اس بیوہ بیٹی یا بیمار بیٹے کو باقی زندگی میں اتنا مال ہو کہ ان پر مشکلات نہ ہوں۔
Send your questions through email at mubashirnazir100@gmail.com.