سوال: اکثر رمضان میں وتر با جماعت ادا کیا جاتا ہے ،کیا وتر جماعت کے ساتھ ادا کرنا حدیث سے ثابت ہے؟ عام طور پر وتر میں دعائے قنوت اور بہت سی مسنون دعائیں بھی پڑھی جاتی ہیں اور مقتدی پیچھے آمین کہتے ہیں کیا یہ عمل بھی ثابت ہے؟ اور اگر یہ ٹھیک ہے تو بھی بتا دیں کہ جو دعائیں پڑھی جا رہی ہیں وہ امام ویسے ہی پڑھے گا جیسے حدیث میں آئیں یا جمع کی ضمائر کے ساتھ پڑھے گا مثلا ایک دعا ہے اللھم انی ظلمت نفسی ظلما کثیرا تو اس میں جمع کا صیغہ استعمال کرے گا؟
جواب: وتر کی حقیقت یہ ہے کہ تہجد کی نماز کا آخری حصہ ہے کیونکہ اللہ تعالی ایک ہے، اس کی علامت کے طور پر یہ حکم دیا ہے کہ آپ آخری ایک رکعت ادا کریں۔ تہجد کی تمام رکعتوں میں اجازت ہے کہ وہ اکیلے پڑھ لیں یا باجماعت پڑھ لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت اعتکاف کے لیے مسجد نبوی میں ہوتے اور آپ تہجد ادا کرتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے ساتھ ہی کھڑے ہو جاتے، جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں منع نہیں فرمایا تھا۔ یہ نفل نماز ہے اور اسے اکیلے پڑھ لیں یا باجماعت کر لیں، یہ دونوں آپشن آپ کے لیے ہے۔
کسی بھی نماز میں جو دعائیں ہم کر سکتے ہیں۔ اس میں دعائے قنوت بھی بہت عمدہ دعا ہے جس میں آخرت کی کامیابی کی دعا ہے اور احادیث میں ہیں۔ جب باجماعت نماز ادا کریں تو امام صاحب جو بھی دعائیں کہیں، اس میں آمین ہی کہنا چاہیے تاکہ مقتدی بھی اس دعا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ احادیث میں جمع کے صیغے میں دعائیں اس لیے کی ہیں کہ اپنے لیے اور دوسرے اہل ایمان کو ساتھ کر لیا جاتا ہے۔ یہ چاہیں تو ہم اکیلے ہی سب اہل ایمان کے لیے دعا کر دیں اور باجماعت ہوں تو تب زیادہ معقول درخواست بن جاتی ہے۔
سوال: کیا امام کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے جہری رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھی جاسکےگی؟ پلیز اس کےمتعلق دلائل سے جواب درکار ہے۔
جواب: جہری رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور قرآن مجید کے حصے کو سننا ہی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ امام صاحب قرآن مجید کی بلند آواز میں تلاوت کر رہے ہیں تو اسے سننا ہی چاہیے۔ سری نماز میں سورۃ الفاتحہ اور قرآن مجید کے حصے کو ضرور پڑھ لینا چاہیے کیونکہ امام صاحب کی تلاوت کو ہم نہیں سن رہے تو پھر ہمیں تلاوت کرنی چاہیے۔
Send questions at mubashirnazir100@gmail.com.