آپ کا بنایا ہوا بلاگ بہت عمدہ ہے ۔ اس سے یقیناً لوگوں کو بہت فائدہ ہو گا اس کے علاوہ ان کے اندر روایتی چیزوں کو تنقیدی اور منفرد نظر سے دیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔ میری رائے میں آپ اس سلسلے کو جاری رکھیں۔جزا ک اللہ خیراً۔
سوال: میرا سوال فاریکس ٹریڈنگ کے حوالے سے ہے۔ آپ بخوبی جانتے ہونگے کہ آج کل بہت سے لوگ OctaFX, Exness وغیرہ پر آن لائن پلیٹ فوم جیسے MT4, MT5 پر کام کر رہے ہیں۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ آپ کم از کم 25 سے 100 ڈالرز کی رقم سے اکاؤنٹ کھولتے ہیں۔ لوگ MT4 اور MT5 کے ذریعے جو کہ بروکرز ہیں مختلف کرنسیس جیسے یورو، ڈالرز وغیرہ میں ٹریڈنگ کرتے ہیں یعنی مطلوبہ کرنسی کے اتار چڑھاؤ میں فرق کے ذریعے پیسے کماتے ہیں۔
طلحہ خضر، لاہور
جواب: ظاہر ہے کہ کسی بھی پراڈکٹ یا سروسز کو خریدنے یا بیچنے کے لیے کسی بھی کرنسی میں خریدنا بالکل جائز ہے۔ خواہ آپ یورو میں ٹرانزیکشن کریں یا ڈالرز یا ریال یا دینار کسی میں بھی کر سکتے ہیں۔
سوال: مثلاً اگر ڈالرکا ریٹ آن لائین مارکیٹ میں 10 ہے تو ہم کرنٹ مارکیٹ پرائس پر ڈالر خرید یا بیچ دیتے ہیں اس کے بعد ہم مارکیٹ پر نظر رکھتے ہیں اگر ڈالر کی قیمت 5 ڈالر اوپر جاتی ہے تو ہم ڈالر خرید لیتے ہیں اس طرح ہمارے بیلنس میں 5 ڈالر کا اضافہ ہو جاتا ہے جو ہمارا نفع ہوتا ہے۔
جواب: یہ شکل غرر یعنی فراڈ ہی کی ہے۔ ہاں یہ ضرور دیکھ لیجیے کہ کس کرنسی کے ساتھ معاملہ چل رہا ہے۔ مثلاً آپ پاکستانی روپے میں ڈالر خریدیں اور کئی دن بعد بیچیں تو یہی ہو گا کہ ڈالر کی قیمت بڑھ چکی ہو گی۔ ڈالر کی ویلیو پاکستانی روپے سے زیادہ ہی ہو رہی ہے۔ اس میں جو لوگ اپنی طرف پرافٹ کمانا چاہ رہے ہیں تو وہ کچھ نہیں ہو رہا ہے۔ اس لیے پاکستانی روپے کی قیمت گر رہی ہے اور اس میں ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے۔ اس میں کوئی پرافٹ نہیں ملا ہے۔
فرض کیجیے کہ ایک صاحب اگر 2017 میں کوئی گھر خرید لیتے تو 10,000,000 روپے ہوتے تو آج تک وہ گھر کی قیمت 20,000,000 روپے ہو چکی ہو گی۔ اب وہ صاحب بہت خوش ہوں گے کہ گھر میں بڑا پرافٹ مل گیا ہے۔ جبکہ حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ اس وقت 2017 میں ایک ڈالر، 110 روپے کے برابر تھا جبکہ اب 2023 میں ایک ڈالر 310 روپے کے برابر ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ نہیں ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھ گئی ہے بلکہ روپے کی ویلیو گر گئی ہے۔
جب 2017 میں گھر خریدا تھا تو اس کی ویلیو 90,909 ڈالر تھی۔ اب موجودہ زمانے میں اس گھر کی ویلیو صرف 64,516 ڈالر ہی رہ گئی ہے۔ یعنی حقیقت میں ان صاحب کو نقصان ہی ہوا ہے۔ اس کے لیے آپ کرنسی کی ویلیو کا فورکاسٹ دیکھ سکتے ہیں کہ مستقبل میں کیا ہوگا؟ ابھی دیکھ لیجیے کہ 2028 میں پاکستانی روپے کی حیثیت یہ رہ جائے گی کہ 1400 روپے ایک ڈالر جتنے ہو جائیں گے۔
https://gov.capital/forex/usd-pkr/
اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ سب غرر یعنی فراڈ کی شکل ہی ہے۔ ہاں ایک صاحب کے پاس امریکی ڈالرز ہیں اور انہوں نے یورو میں خریدا اور پھر بیچا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس میں غرر نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈالر اور یورو میں معمولی سی کمی یا زیادتی روزانہ ہوتی رہتی ہے۔
سوال: اس کے برعکس اگر ڈالر کی قیمت 5 ڈالر گر جاتی ہے تو ہم ڈالر بیچ دیتے ہیں جس سے ہمیں 5 ڈالر کا اضافہ ہوجاتا ہے جو ہمارا نفع ہوتا ہے۔ حلال ٹریڈنگ کے لیے مندرجہ ذیل چار شرائط بیان کی جاتی ہیں۔
1. سود سے پاک ہونا
2. غرر یعنی دھوکا دہی نہ ہونا
3. پروڈکٹ کا حلال ہونا
4. کاروبار کی نوعیت مبہم نہ ہونا
میرا سوال یہ ہے کہ اس طرح کا کاروبار کرنا جائز ہے یا نہیں؟ براہِ کرم اس معاملے پر تفصیل سے نظر ڈالیں۔ اگر میرا سوال واضح نہیں ہے تو مجھے مطلع کریں۔براہِ کرم اس معاملے پر تفصیل سے نظر ڈالیں۔ اگر میرا سوال واضح نہیں ہے تو مجھے مطلع کریں۔
جواب: آپ نے جو چار شرائط ارشاد فرمائی ہیں، انہیں دیکھ لیجیے۔
سود سے پاک ہونا
اس میں سود کچھ بھی نہیں ہے۔
غرر یعنی دھوکا دہی نہ ہونا
غرر ہی کی شکل موجود ہے۔ اس میں سچ مچ دھوکا دہی ہی ہو رہی ہے۔
پروڈکٹ کا حلال ہونا
پروڈکٹ تو حلال بھی ہو سکتی ہے اور حرام بھی۔ مثلاً کوئی صاحب شراب یا جوا یا سودی ٹرانزکشن کر رہے ہیں تو حرام پروڈکٹ ہو گئی۔ لیکن اگر وہ گندم، چاول وغیرہ خرید و فروخت کر رہے ہیں تو بالکل ٹھیک ہے لیکن اسے چیک ضرور کر لیجیے کہ گندم یا چاول آپ نے جتنے ڈالر یا یورو میں خریدے تھے، اب آپ سیل کر رہے ہیں تو اس کی قیمت کیا ہے؟ اس میں سچ مچ پرافٹ ہی مل رہا ہے یا نقصان؟
کاروبار کی نوعیت مبہم نہ ہونا
سب سے بڑا مبہم ہے کرنسی کی ویلیو۔ اس کے ساتھ ساتھ وغیرہ سے جو بیچا ہے تو کیا کنفرم ہے کہ وہ کیش بھی انہیں واپس مل جائے گا؟ اس کی کیا گرنٹی ہے؟ کیا کوئی گلوبل عدالت موجود ہے جس میں اختلاف کی صورت میں فیصلہ ہو سکے؟ مثلاً آپ کسی دکان میں کوئی چیز خرید رہے ہیں، پھر دیکھ کر کوئی کوالٹی کا مسئلہ گھر میں آپ کو نظر آیا۔ تب آپ اسی دکان میں واپس اسی چیز کو دے دیتے ہیں اور اچھی کوالٹی کی چیز لے لیتے ہیں۔ اب سوال ہے کہ کیا یہ سب کچھ آن لائن ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اختلاف اگر ہوا تو پھر اس کا حل کیا ہو گا اور کونسی عدالت ایک شخص کا نقصان بچا سکے گی؟ اس کا کوئی حل ابھی تک موجود نہیں ہے۔
پاکستانی حضرات کو اس کاروبار میں بچنا ہی چاہیے کہ مسلسل نقصان ہی ملنا ہے تو پھر اس بزنس کا کیا فائدہ ہے؟ ہاں اگر ان کے پاس یورو یا ڈالر موجود ہیں تو پھر وہ یہ خطرہ لے سکتے ہیں کہ وہ کوئی حلال چیز خریدیں اور بیچیں۔ پرافٹ ہوا تو بھی تھوڑا ہی ہو گا اور نقصان ہوا تو بھی قابل برداشت ہو گا۔
ہاں اگر آپ آن لائن کوئی چیز خرید رہے ہیں ہو تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن یہ ضرور چیک کر لینا چاہیے کہ جب چیز خریدی تھی تو اس کی ڈالر یا یورو میں اس کی ویلیو کیا تھی اور اس چیز کی کوالٹی کیا ہے؟ پھر جب آپ سیل کر رہے ہوں گے تو اس کی ویلیو کیا ہو گی؟ تب ہی معلوم ہو گا کہ فائدہ ہے یا نقصان۔ رہی حلال سروسز تو اسے بیچنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مثلاً آپ لیکچر یا گیم وڈیو بنا رہے ہیں۔ اس میں معمولی سا قابل بخرچ ہی ہوا ہے تو پھر سیل کریں تو امید ہے کہ کچھ رقم ہی مل جائے گی اور پرافٹ ہو گا۔
Ask further questions in email at mubashirnazir100@gmail.com.