سوال: سورۃ تحریم میں امہات المومنین کے لئے اللہ نے بہت سخت استعمال فرمایا ہے،ان کی کیا غلطی تھی جس بنا پر ان کے ساتھ اس انداز میں گفتگو فرمائی گئی ہے۔کیا روایات سے ہٹ کربھی ان کی کوئی تشریح ہے، اگر ہے بیان فرمادیجئے؟
جواب: سورۃ التحریم کے بارے میں نامعقول قسم کی روایات لوگوں نے فلسفے سے ایجاد کر دی تھیں ورنہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سورۃ التحریم کا صرف ترجمہ ہی پڑھ لیں تو اصل صورتحال سامنے آ جاتی ہے۔ بات صرف اتنی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اہلیہ سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا کی مٹھائی کو پسند فرماتے تھے اور روزانہ عصر کے بعد کچھ منٹ کے سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا سے مٹھائی لے کر کھا لیتے تھے۔
اب ہماری دیگر والدہ خواتین نے احتجاج کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کھا لی کہ میں اب مٹھائی نہیں کھاؤں گا۔ اب اگر عام انسان کا معاملہ ہوتا تو ایسا عمل جاری رہتا لیکن یہاں تو اللہ تعالی کے رسول کا معاملہ تھا۔ اس لیے اس پر اللہ تعالی نے ایکشن کیا اور قرآن مجید میں یہ سورۃ التحریم نازل فرمائی کہ آپ اس قسم کو ختم کریں اور شوق سے کھائیں۔
اس کے ساتھ امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی تربیت بھی کر دی کہ خواتین آپس میں سوکن کے رویہ کو ٹھیک کر لیں اور شوہر کو تنگ نہ کریں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس کے بعد امہات المومنین رضی اللہ عنہن نے توبہ بھی کر لی اور باقی پوری عمر انہوں نے آپس میں سوکن کا مسئلہ پیدا نہیں ہونے دیا، بلکہ وہ آپس میں بہنیں اور دوست بن کر ہی رہیں۔ باقی تمام عمر تک امہات المومنین رضی اللہ عنہن دیگر خواتین اور اگلی جنریشن کی تربیت ہی کرتی رہیں۔
سورۃ 66 التحریم ۔۔۔ ایمان اور تعمیر شخصیت ۔۔۔۔ اہل ایمان خواتین کی اصلاح
آیات 1-12: اہل ایمان خواتین کی اصلاح، احتساب کے نتائج اور مخلصانہ رجوع ۔۔۔ غیر مخلص اور مخلص قدیم خواتین کی مثالیں
سورۃ الاحزاب آیات 27-37: امہات المومنین رضی اللہ عنہن اور اہل ایمان خواتین کی ذمہ داریاں
سورۃ الاحزاب آیات 51-62: منافقین سے بچاؤ کے لیے امہات المومنین ، صحابیات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ کار ۔۔۔ درود شریف کا حکم
سوال: اللہ تعالی سورۃ جمعہ میں فرماتا ہے: {قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ} [الجمعة: 8] اس آیت میں فِرار مِن کے صلے کے ساتھ آرہا ہے کہ تم اس سے بھاگ رہے ہو یعنی ہم آگے آگے بھاگ رہے ہیں ، پھر آگے آرہا ہے “مُلَاقِيكُمْ ” تو “لِقاء” تو فیس ٹو فیس ملاقات کے لئے بولا جاتا ہے، جبکہ ہم تو اس سے آگے بھاگ رہے ہیں، موت تو پیچھے ہے ، پھر موت سے ملاقات کیسے ہوجائے گی؟ جبکہ لِقاء تو فیس ٹو فیس ہوتی ہے۔ اس آیت کی ذرا وضاحت فرمادیجئے۔
جواب: اس میں صرف اتنی بات ہے کہ کچھ بنی اسرائیل اور منافقین موت سے جان چھڑانا چاہتے تھے ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معاہدہ کیا ہوا تھا کہ اگر مدینہ منورہ پر کوئی حملہ ہوا تو ہم سب مل کر جنگ کریں گے اور سیکورٹی کر لیں گے۔ یہ معاہدے کے باوجود، جب بھی مدینہ پر حملہ ہوا تو وہ پھر بھی موت سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالی نے اس پرتبصرہ فرما دیا اور ان کی نفسیات پر تبصرہ فرمایا۔ اس کے لیے آپ سورۃ الجمعہ اس پوری آیت کا مطالعہ کر لیجیے جو اٹیچ ہے۔ آیت 8 میں ارشاد یہ ہے۔
قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْأ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ. 8
انہیں بتا دیجیے کہ جس موت سے آپ بھاگ رہے ہیں، وہ آپ کو آ کر ہی رہے گی، پھر آپ اُس کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ جو غائب و حاضر کا جاننے والا (اللہ تعالی) ہے اور وہ آپ کو بتا دے گا جو کچھ آپ کرتے رہے ہیں۔
سورۃ الجمعہ 62 ۔۔۔ اہل ایمان کی اصلاح ۔۔۔ اہل کتاب پر فائنل وارننگ
1-11: رسالت نبوی کا اعلان ، اہل کتاب پر فائنل وارننگ اور اہل ایمان کی نماز جمعہ کے لیے اصلاح
Ask questions through email at mubashirnazir100@gmail.com.