سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، میرا علوم القرآن کے متعلق ایک سوال ہے ،سورۃ ابراھیم کی 22 آیت میں ہے کہ شیطان ہمیں صرف دعوت دے سکتا ہے اور ہم پر کوئی زور زبردستی نہیں کرسکتا۔ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 27میں ہے کہ شیطان اور اس کا قبیلہ ہمیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے ہم (انسان) انہیں نہیں دیکھتے۔کیا پہلی آیت سے یہ استدلال کرنا کہ جنات انسان پر جسمانی طور پر قابو نہیں پا سکتےیا ہمیں کچھ کا کچھ دکھانا ان کے لئے ممکن نہیں کیونکہ یہ بھی جبر میں ہی آئے گا کہ سامنے کچھ ہے اور وہ دکھا کچھ اور دیں، کیا یہ استدلال کرنا ٹھیک ہوگا؟ مزید یہ کہ اور دوسری آیت سے یہ استدلال ٹھیک ہوگا کہ جنات انسان کہ سامنے نہیں آتے تو جو لوگ جنات کو دیکھنے کا دعوی کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں؟
جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ نے بالکل صحیح استدلال کیا ہے۔ فرض کیجیے کہ اگر جنات اور شیطان کی پارٹی ہمیں زبردستی گناہوں پر لگا سکے تو پھر ہماراکیا جرم ہو گا؟ اللہ تعالی نے واضح کر دیا ہے کہ شیطان صرف آئیڈیا ہی دے سکتا ہے اور وہ برائیوں پر ہمیں صرف موٹیویٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ سورۃ ابراہیم میں مستقبل میں شیطان کی ڈسکشن ہمیں بتائی گئی ہے کہ اس وقت شیطان بتائے گا کہ میں تو برائی کی دعوت ہی دیتا تھا اور آپ لوگ لبیک کہہ بیٹھے۔ اس لیے مجھے ملامت نہ کریں بلکہ آپنے آپ کو لعنت دیں۔
اس میں بس تھوڑی سی پاور شیطان پارٹی کے انسانوں کو دی گئی ہے کہ وہ لوگوں پر جبر کر دیتے ہیں، جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سیاستدانوں اور مذہبی لیڈرز میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ہمیں گمراہ کر کے جبر بھی کروا لیتے ہیں۔ اس میں ہم ان کے جبر کو سمجھ لیں اور مجبوراً گناہ کرنا پڑے تو ہم پر کوئی جرم نہیں ہے ۔ ہاں اگر ہم ان لیڈرز کےہاتھوں گمراہ ہو کر ان کے مرید بن بیٹھیں ،حالانکہ اللہ تعالی نے ہمیں قرآن اور لاجک دی ہوئی ہے، تب بھی ہم مرید بن بیٹھے تو پھر ہم مجرم ہو جائیں گے اور سزا کے مستحق ہو جائیں گے۔
جہاں تک جنات کو دیکھنے کے دعوے کرنے کی بات ہے تواکثر ایسا ہی ہے کہ لوگ جھوٹ دعوی کر کے لوگوں کو جادو ٹونا کر دیتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد صرف رقم لینی ہوتی ہے۔ اگر سچ مچ کوئی انسان جادو ٹونا کا ماہر ہو تو وہ بھی محض جنات سے کچھ انفارمیشن لے لیتے ہیں اور پھر جنات سے صرف مشورہ یا درخواست ہی کر لیتے ہیں تاکہ وہ جن ان کے ٹارگٹ انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کر لیتے ہیں۔ اس سے زیادہ جنات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
سوال: تفسیر بالماثور اور تفسیر بالرائے سے کیا مراد ہے؟
جواب:تفسیر الماثور اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں اسکالر نے قرآن مجید کی تفسیر کرتے ہوئے حدیث، صحابہ و تابعین کے علماء کی وضاحت بیان کی ہے۔ تفسیر بالرائے اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں اسکالر نے پہلے علم اور تجربے کی بنیاد پر اپنی رائے یعنی وضاحت بیان کی ہے۔ اردو میں تقریباً تمام تفاسیر بالرائے ہی ہیں کیونکہ احادیث اور آثار صحابہ میں تمام وضاحتیں موجود نہیں ہیں۔ اکثر مفسرین یہ کوشش کرتے ہیں کہ ہر آیت میں اگر حدیث یا آثار صحابہ و تابعین میں کچھ مل جائے تو اسے اپنی تفسیر میں لکھ دیتے ہیں۔ ایسا نہ ہو تو پھر وہ اپنی رائے کو بیان کرتے ہیں۔
اس کی بہترین مثال آپ مودودی صاحب اور کرم شاہ صاحب کی تفاسیر کو دیکھ سکتے ہیں۔ اہل حدیث علماء کا فوکس بھی یہی ہے کہ وہ روایت ہی کو بیان کرتے ہیں۔ بریلوی اور دیوبندی علماء میں صحابہ و تابعین کے علاوہ بڑے فقہاء کی رائے کو شامل کرتے ہیں۔ شیعہ علماء اپنے ائمہ کی روایت کو بیان کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک امام کی بات بھی حدیث کے درجے کے برابر ہے۔
اصلاحی صاحب او رجاوید غامدی صاحب کی تفسیر بھی بالرائے ہی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ قدیم عربی زبان و بیان کی بنیاد پر آیات کا ترجمہ اور وضاحت کرتے ہیں۔
سوال: سر آیت سجدہ پر میرا سبق ہے۔ کیا میں اس کو یاد کر نے کے لئے جتنی دفعہ پڑھوں گی تو کیااتنی مرتبہ سجدہ کروں گی؟ اگرایک وقت میں میں ایک ہی آیتِ سجدہ 30 دفعہ پڑھوں تو سجدہ کتنی دفعہ کرنا ہے؟
جواب: اس میں سنت یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں سجدہ کا حکم ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ کر لیتے تھے۔ اس میں چاہیں تو ایک بار سجدہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اس کی تعداد زیادہ نہیں ہے کہ پورے قرآن مجید میں 24-25 ہی آیات ہیں ۔ پریکٹیکل تو یہی ہوتا ہے کہ آپ جب تلاوت کریں گی تو ایک آیت ہی آئے گی اور کوئی نہیں آئے گی۔ ان سجدہ والی آیات کو پڑھیں تو آپ کو یہی نظر آئے گا کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ اللہ تعالی سے سجدہ کرو۔ تو اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمل کر لیا کرتے تھے۔ ایسا ہی آپ نے کرنا ہے۔
خواتین کو کبھی ایسا ہو جاتا ہے کہ ان پر نماز منع ہوتی ہے۔ اس میں اگر آپ نے وہ آیت پڑھی ہو تو بس اسے نوٹ کر لیجیے گا۔ جب بھی نماز پڑھنے کے قابل ہوں تو اس وقت سجدہ کر لیجیے گا۔
سوال: اکثر کوئی نہ کوئی میسج آتے رہتے ہیں کہ کچھ لوگ قرآن پاک میں تبدیلی کر کے بیچتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ تو اللہ نے خود لیا ہے، پھر کیسے کوئی اس میں تبدیلی کر سکتا ہے؟
جواب: قرآن مجید کو اللہ تعالی نے قدیم عربی زبان میں نازل کیا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا ہے۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک قرآن پہنچتا تھا تو فرشتے اسے سنبھال کر لاتے تھے اور کوئی جن اس میں کوئی حرکت نہیں کر سکتا تھا۔ اگرکوئی کوشش کرتا تو شعلے اس جن پر لگتے اور وہ مر جاتا تھا۔ قرآن مجید میں سورۃ الجن میں یہی موضوع ہے۔
اب آپ کا سوال اگلے مرحلے پر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی عربی زبان محفوظ ہے اور اوریجنل قرآن تو اب تک ویسے ہی موجود ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے۔
ترجمہ کرنے میں انسان سے غلطی ہو سکتی ہے اور کوئی مفاد پرست انسان بھی جان بوجھ کر فراڈ کے طور پر ترجمہ کر سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالی نے اس کا اہتمام بھی کر دیا ہے کہ قرآن کے ہر زبان میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص فراڈ کرے تو آپ کسی بھی عالم دین کا قرآن کا ترجمہ آپ خود چیک کر سکتی ہیں۔ اگر ایک مخلص عالم نے ترجمے میں غلطی کی ہے تو تب بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ آپ اسی آیت کا ترجمہ آپ دوسرے اسکالر کے ترجمے میں میچ کر سکتی ہیں۔ میں نے جتنے ترجمے دیکھے ہیں، اس میں کوئی بڑی غلطی نظر نہیں آئی ہے۔ ترجموں میں صرف اتنا فرق ہے کہ ہر اسکالر نے اپنے علاقے کے لہجے میں اردو کا ترجمہ کیا ہے اور کوئی بڑا ایشو نہیں ہے۔ ایمان، شریعت اور اخلاقیات میں سب ترجموں میں ایک ہی بات ہے۔ اب آپ کو کسی ترجمے میں غلطی لگے تو آپ دوسرے ترجمے میں چیک کر کے کنفرم کر سکتی ہیں۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com