سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، میرا علوم القرآن کے متعلق ایک سوال ہے کیا شانِ نزول کوئی اسلامی اصطلاح ہے یعنی کیا قران و سنت یا حدیث سے وجود میں آئی ہےیا یہ بعد کی کوئی علمی و فقہی اصطلاح ہے؟
ثوبان انور، فیصل آباد
جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بھائی آپ نے دلچسپ سوال بھیجا ہے۔ دراصل امین احمد اصلاحی صاحب نے علوم تفسیر پر اس اپروچ میں اختلاف کیا ہے۔ انڈیا کے اسکالرز نے جب تفاسیر لکھی ہیں تو انہوں نے شان نزول پر زیادہ فوکس کیا کہ کونسی آیت کس ٹائم نازل ہوئی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ایک تو اس آیت کو سمجھ سکیں، پھر یہ بھی معلوم ہو جائے کہ کوئی آیت منسوخ ہو گئی ہے یا نہیں؟ اکثر مفسر اسکالرز کی اپروچ یہی گزری ہے۔
اصلاحی صاحب نے اس اپروچ سے اختلاف کیا اور انہوں نے کہا ہےکہ پوری سورۃ ایک ہی خطبہ یعنی اللہ تعالی کا لیکچر ہے۔ اس میں ایک ایک آیت کو الگ نہیں سمجھنا چاہیے، یہ محض کوئی ایک جملہ نہیں ہے بلکہ پوری سورۃ کا مطالعہ کر کے ہر جملے کا معنی واضح ہو جائے گا۔ اس لیے شان نزول کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو بس اس پوری سورت کا شان نزول آپ دیکھ لیں جو محض تاریخی انفارمیشن ہی ہے۔ رہی ناسخ و منسوخ تو خود اسی سورۃ میں ایک جملے کے ساتھ اگلے جملے میں ناسخ آیت آ جاتی ہے اور یہ صرف چار آیات ہی ہیں جو منسوخ ہوئی ہیں۔
یہ منسوخ آیات صرف وہی ہیں جس میں ایک خاص ٹائم کے لیے کوئی ذمہ داری دی گئی تھی، بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میچور ہو گئے تو ان پر حکم کی تبدیلی کر دی گئی تھی۔ یہ چند آیات ہیں اور اس میں تبدیلی میں اگلی آیت میں موجود ہے۔ مثلاً روزے کی جگہ اجازت دی کہ وہ روزہ رکھنے کی بجائے کچھ رقم غریب لوگوں کو دے سکتے ہیں۔ بعد میں اگلی آیت میں ہی بتا دیا گیاہے کہ اب اس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آپ روزہ ہی رکھیں۔
أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ ۚ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ ۚ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ. 184
یہ گنتی کے چند دن ہیں ۔اِس پر بھی جو آپ میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں یہ ٹائم پوری کر لے ۔ اور جو اِس کی طاقت رکھتے ہوں کہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں تو اُن پر ہر روزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھانا ہے۔ پھر جو شوق سے کوئی نیکی کرے تو یہ اُس کے لیے بہتر ہے ، اور روزہ رکھ لیجیے تو یہ آپ کے لیے اور بھی اچھا ہے ، اگر آپ سمجھ رکھتے ہیں۔
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ. 185
رمضان کا مہینا ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا تھا، لوگوں کے لیے سراسر ہدایت بنا کر اور نہایت واضح دلائل کی صورت میں جو (اپنی نوعیت کے لحاظ سے) رہنمائی بھی ہیں اور حق و باطل کا فیصلہ بھی ۔ سو آپ میں سے جو شخص اِس مہینے میں موجود ہو ، اُسے چاہیے کہ اِس کے روزے رکھے۔ (سورۃ البقرۃ 2)
جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کر لے ۔ (یہ رخصت اِس لیے دی گئی ہے کہ) اللہ آپ کے لیے آسانی چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ آپ کے ساتھ سختی کرے ۔ (فدیے کی اجازت) اِس لیے (ختم کر دی گئی ہے) کہ آپ روزوں کی تعداد پوری کریں، (اور جو خیرو برکت اُس میں چھپی ہوئی ہے ، اُس سے محروم نہ رہیں۔) (اِس مقصدکے لیے رمضان کا مہینا) اِس لیے (خاص کیا گیا ہے) کہ (قرآن کی صورت میں) اللہ تعالی نے جو ہدایت آپ پر بخشی ہے ، اُس پر اُس اللہ تعالی کی تکبیر کریں اور اِس لیے کہ آپ اُس کےشکرگزار بن جائیں۔
اسی طرح سورۃانفال میں جنگ بدر تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ذمہ داری تھی کہ وہ جہاد میں جب آپ کی طاقت مجرمین کی نسبت صرف 10فی صد بھی ہو تو ، تب بھی آپ پر جہاد کی ذمہ داری ہے۔ پھر جنگ بدر کے بعد بہت سے لوگ ایمان لائے تو اللہ تعالی نے بتایا کہ اب آپ میں کمزوری آ گئی ہے کیونکہ نئے ایمان لانے والے ابھی میچور نہیں ہیں۔ اس لیے جہاد کی ذمہ داری یہی کر دی کہ اگر آپ مجرمین سے 50% تک طاقتور ہو تو آپ جہاد کریں۔ یعنی یہاں پر ذمہ داری کم ہو گئی کہ وہ صرف ڈبل دشمن تک جہاد کرنے کے لیے ذمہ دار ہیں ورنہ پہلے دس گنا زیادہ دشمن سے جہاد کرنے کی ذمہ داری تھی۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ. 65
اے نبی ! اِن اہل ایمان کو جنگ پر ابھاریے (جس کا حکم پیچھے دیا گیا ہے۔ اب آپ پر میں جنگ بدر تک ذمہ داری یہ ہے کہ) اگر آپ کے لوگوں میں ب20 آدمی ثابت قدم ہوں گے تو 200 پر غالب آئیں گے اور اگر آپ کے 100 سپاہی ہوں گے تو 1000 منکروں پر بھاری رہیں گے، اِس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو بصیرت نہیں رکھتے۔
الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ. 66
اِس وقت، البتہ اللہ تعالی نے آپ کا بوجھ ہلکا کر دیا ہے، اِس لیے کہ اُس نے جان لیا کہ (نئے اہل ایمان کی تربیت ابھی نہیں ہوئی ہے اور) آپ میں کچھ کمزوری آ گئی ہے۔ سو (اب ذمہ داری کے بعد یہ ہو گی کہ) آپ 100 ثابت قدم ہوں گے تو 200 پر غالب آئیں گے اور اگر آپ 1000 ایسے ہوں گے تو اللہ تعالی کے حکم سے 2000 پر بھاری رہیں گے۔ اللہ تعالی اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو (اُس کی راہ میں) ثابت قدم رہیں۔ (سورۃ الانفال 8)
تفسیر کی یہ اپروچ اصلاحی صاحب کی زیادہ اہم ہے کہ پوری سورۃ ہی کا مطالعہ کرنا چاہیے اور جملے کو الگ الگ نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں تاریخی اعتبار سے شان نزول اہم ہے لیکن اسی سورت کے اندر جو ڈسکشن چل رہی ہوتی ہے، وہیں سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ سورت کس ٹائم نازل ہو ئی تھی مثلاً سورۃ الانفال میں واضح ہے کہ جنگ بدر کے ساتھ نازل ہوئی ہے۔ اسی طرح سورۃ توبہ میں واضح ہے کہ یہ آخری سورت نازل ہوئی ہے۔
منسوخ آیات صرف 4 ہی ہیں۔ دو تو آپ اوپر دیکھ چکے ہیں۔ مزید آپ دیکھ لیجیے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ میں حکومت بن گئی تو اس وقت پرانی عادت تھی کہ منافقین طوائف عورتوں کے ساتھ بدکاری کرواتے تھے اور رقم بھی حاصل کرتے تھے۔ ابھی حکومت منظم نہیں ہوئی تھی تو اللہ تعالی نے سورۃ النساء میں حکم دیا کہ ان بدکار عورتوں کو انہی کے گھروں میں بند کر دیں۔
وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا. 15
آپ کے پاس (طوائف) عورتوں میں سے جو بدکاری کرتی ہیں، اُن پر اپنے اندر سے چار گواہ طلب کریں۔ پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو (حکومت کی پولیس) انہیں گھروں میں بند کر دیں، یہاں تک کہ اُن کی موت آجائے یا اللہ تعالی اُن کے لیے کوئی (مزید سورۃ النور قانون کا) راستہ نکال دے۔ (سورۃ النساء 4)
پھر جب حکومت کسی حد تک مضبوط ہوئی تو اس وقت اگلی آیت میں حکم دیا کہ تمام مرد و خواتین بدکاری کریں تو انہیں چھوٹی سی سزا دیں تاکہ جو بھی مخلص ہیں، وہ توبہ کر لیں۔
وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنْكُمْ فَآذُوهُمَا ۖ فَإِنْ تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ تَوَّابًا رَحِيمًا. 16
جو مرد و عورت آپ کے لوگوں میں سے اِس جرم کا ارتکاب کریں، (تو حکومتی عدالت) انہیں ایذا کرے۔ پھر اگر وہ توبہ کریں اور اصلاح کر لیں تو اُن سے درگذر کر دیجیے۔ بے شک، اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے، اُس کی شفقت ہمیشہ کے لیے ہے۔ (سورۃ النساء 4)
پھر جب حکومت بالکل صحیح طرح مضبوط ہو گئی تو اللہ تعالی نے سورۃ النور میں فائنل حکم دے دیا کہ بدکار مرد و عورت پر یہ سزا ہو گی اور یہی حکم قیامت تک کے لیے مسلمان حکومت پر ذمہ داری بن گئی۔
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ. 24:2
بدکار عورت ہو یا بدکار مرد، چنانچہ (اِن کا جرم عدالت میں ثابت ہو جائے تو) دونوں میں سے ہر ایک کوسو کوڑے ماریں اور اللہ کے اِس قانون (کو نافذ کرنے) میں اُن کے ساتھ کسی نرمی کا جذبہ آپ کے دامن گیر نہ ہونے پائے، اگر آپ اللہ تعالی پر اور آخرت کے دن پر فی الواقع ایمان رکھتے ہیں۔ اور اُن کو سزا دیتے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ بھی وہاں موجود ہونا چاہیے (تاکہ انہیں بھی عبرت محسوس ہو۔)
الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ. 24:3
(اِس سزا کے بعد) یہ بدکار مرد کسی بدکار عورت یا مشرکہ ہی سے نکاح کرے گااور اِس طوائف کو بھی کوئی بدکار یا مشرک مرد ہی اپنے نکاح میں لائے گا۔ ایمان والوں پر اِسے حرام کر دیا گیا ہے۔
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ. 24:4
اور جو لوگ پاک دامن خواتین پر (زنا کی) تہمت لگائیں، پھر (اُس کے ثبوت میں عدالت تک) چار گواہ نہ لا سکیں، اُن کو اسی کوڑے ماریں اور اُن کی گواہی پھر کبھی قبول نہ کریں، اور یہی لوگ فاسق ہیں۔
إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ. 24:5
ہاں جو اِس کے بعد توبہ اور اصلاح کر لیں، وہ اللہ تعای کے نزدیک فاسق نہ رہیں گے، اِس لیے کہ اللہ تعالی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ہمیشہ کے لیے ہے۔ (سورۃ النور 24)
اس کے ساتھ اللہ تعالی نے یہ بھی حکم دیا کہ جب سزا دی جائے گی تو غلام خواتین کی سزا نصف ہو گی کیونکہ ان کی تربیت بھی اتنی نہیں ہوئی جو آزاد خواتین کی ہو چکی تھی۔ انہیں غلام خواتین کی آزادی کا حکم بھی کر دیا تاکہ انہیں آزادانہ طریقے سے زندگی گزر سکے۔
وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۚ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ ۚ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ ۚ فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ۚ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ ۚ وَأَنْ تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ. 25
آپ میں سے جو آزاد مسلمان خواتین کے ساتھ نکاح کی طاقت نہ رکھتے ہوں، انہیں چاہیے کہ آپ اُن مسلمان لونڈیوں سے نکاح کر لیں جو آپ کے بس میں ہوں۔ (یہ حقیقت پیش نظر رکھیں کہ) اللہ تعالی آپ کے ایمان سے خوب واقف ہے۔ آپ سب انسان ایک ہی جنس سے ہیں۔
چنانچہ اُن (لونڈیوں) کے مالکوں کی اجازت سے اُن کے ساتھ نکاح کر لیں اور صحیح قانون کے مطابق اُن کے مہر بھی اس خاتون کو ادا کریں۔ اِس شرط کے ساتھ (نکاح کریں) کہ وہ خاتون پاک دامن رہی ہوں، بدکاری کرنے والی اور چوری چھپے آشنائی کرنے والی نہ ہوں۔
پھر جب وہ پاک دامن (لونڈی) رکھی جائیں اور اِس کے بعد اگر کسی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو اُن پر اُس سزا کی آدھی سزا ہے جو آزاد خواتین کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ نکاح کی یہ اجازت آپ میں سے اُن لوگوں کے لیے ہے جنہیں گناہ میں پڑ جانے کا اندیشہ ہو۔ ورنہ صبر کریں تو یہ آپ کے لیے بہتر ہے اور (مطمئن رہیے کہ احتیاط کے باوجودکوئی غلطی ہو جاتی ہے تو)اللہ تعالی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ہمیشہ کے لیے ہے۔ (سورۃ النساء 4)
اس کے علاوہ ایک حکم سورۃ المجادلہ میں دیا کہ کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خفیہ گفتگو نہیں کریں گے۔ اگر خفیہ گفتگو کرنی ہے تو پھر پہلے صدقہ ادا کریں جو غریبوں کی خدمت ہو سکے۔ یہ حکم منافقین کو روکنے کے لیے کیا گیا تھا۔ جب مسئلہ حل ہوا تو پھر پابندی ختم ہو گئی۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ. 12
اہل ایمان! (اب یہ پابندی ہے کہ ) جب رسول سے ذاتی گفتگو میں بات کریں تو اپنی اِس تخلیے کی بات سے پہلے کچھ صدقہ کر لیں۔ یہ آپ کے لیے بہتر بھی ہے اور پاکیزہ تر بھی۔ البتہ، استطاعت نہ ہو تو اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ہمیشہ کے لیے ہے۔
أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ. 13
کیا آپ ڈر گئے کہ اپنی تخلیے کی گفتگو سے پہلے آپ کو صدقات پیش کرنا ہوں گے؟سو جب آپ نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے آپ پر رحم فرمایا (کہ حکم اٹھا لیا) تو اب نماز کا اہتمام رکھیں، زکوٰۃ دیتے رہیں اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت پر قائم رہیں، اور (یاد رکھیں کہ) اللہ آپ کے ہر عمل سے واقف ہے۔ (سورۃ المجادلۃ 58)
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے۔