سوال: کچھ علماء زندگی میں چھوٹی ہوئی نمازوں کے متعلق قضائے عمری کا تصور پیش کرتے ہیں،احادیث میں تو میں نے یہ تصور نہیں پایا، قضائے عمری کی کیا حقیقت ہے ؟
جواب: جی بھائی آپ کی بات درست ہے کہ قضائے عمری کے بارے میں قرآن و حدیث میں کوئی حکم نہیں ہے بلکہ اس میں فقہاء نے اجتہاد ہی کیا ہے۔ احادیث میں یہ ملتا ہے کہ جب کبھی غفلت یا کسی وجہ سے نماز کا ٹائم گزر گیا اور انسان کو پھر یاد آیا تو اسے چاہیے کہ وہ قضاء نماز ادا کر دے۔ حدیث کی مثال یہ ہے جو صحیح مسلم میں ہے۔
إِذَا رَقَدَ أَحَدُكُمْ عَنِ الصَّلَاةِ، أَوْ غَفَلَ عَنْهَا، فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، فَإِنَّ اللهَ يَقُولُ أَقِمِ الصَّلَاةِ لِذِكْرِي۔
[طه: 14]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر آپ میں سے کوئی نماز چھوڑ کر سو جائے یا اس سے غافل ہو تو جب یاد آئے پڑھ لیا کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {میری یاد کے لیے نماز قائم کرو} ۔ (صحيح مسلم – كتاب المساجد ومواضع الصلاة - باب قضاء الصلاة الفائتة)
اس حدیث میں نارمل حالات میں ارشاد فرمایا ہے کہ جب غفلت کی وجہ سے نماز چھوڑ دیا تو غفلت ختم ہوتے ہی نماز پڑھ لینی چاہیے۔ فقہاء نے اجتہاد پھر اس صورتحال میں کیا کہ ساری عمر نماز نہیں پڑھی اور غفلت 40-50 سال بعد ختم ہوئی تو پھر کیا کریں؟ انہوں نے اسی بنیاد پر اجتہاد کیا کہ پھر ساری عمر کی فرض نماز پڑھ لیں۔
کچھ فقہاء نے یہ اجتہاد کیا کہ اس میں اتنے سالوں کے حساب سے نمازوں کا حساب کر لیں، پھر یہی کر لیں کہ اب جتنے نفل نمازیں پڑھنی ہیں، تو اس میں نیت اس فرض نماز ہی کی نیت کر لیا کریں کہ جو پرانی نماز ادا کر لیں۔ ہاں جو موجودہ فرض نماز ہے، تو وہ فرض ادا کرتے رہیں۔ بس نفل کی بجائے پرانی فرض نماز کی نیت کر لیا کریں۔
میں بھی اس دوسرے اجتہاد کو درست سمجھتا ہوں اور اس پر عمل بھی اس طرح کر لیا کہ میں جب ایکسیڈنٹ کے بعد 40 دن تک کوما میں رہا تھا۔ جب کوما سے نکلا تو اللہ تعالی نے نماز کی یادداشت بحال کر دی تو اس وقت سے شروع کیا۔
کئی مہینوں بعد جب یادداشت آنی شروع ہوئی تو میں نے اپنی فیملی سے پوچھا کہ میری نمازیں کتنی رہ گئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ کوما کے فورا بعد نماز شروع کر دی تھی اور اس کے الفاظ بھی سب سے پہلے ہی یاد آئے تھے۔ اب میں نے حساب کر کے اتنے 40 دن تک کی نمازوں کو نفل نماز کی بجائے اس کی نیت کر دی۔ اس طرح مہینے کے اندر پوری مکمل ہو گئی تھیں الحمد للہ یعنی فجر کی نماز کے ساتھ پرانی فجر پڑھ لی، ظہر میں پرانی ظہر وغیرہ ۔
اب یہ اجتہاد ہی ہے اور ہر انسان کو اپنے حساب سے سوچنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ جس انسان نے ساری عمر نہیں پڑھی تو واقعی 40-50-60 سال کی نمازیں پریکٹیکل نہیں بنتی ہیں کہ عموماً اتنی لمبی عمر مزید تو کم ہی لوگوں کو ملتی ہے۔ اس میں پھر یہی ہے کہ انہیں پہلے توبہ کر لینی چاہئے اور پھر جتنا بھی ممکن ہو، ادا کرنے کی کوشش کر لیں۔ پھر جو بھی باقی رہ گئے تو امید ہے کہ اللہ تعالی اس کی توبہ کے لحاظ سے ختم فرمادے گا۔
سوال: مطلب یہ سارا معاملہ اجتہاد پرمنحصر ہے۔ کچھ علماء کہتے ہیں کہ فجر کی قضا 2 رکعات فرض ہی پڑنی ہوگی جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ ٢ رکعات سنت کے ساتھ 4 رکعات قضا پڑنی ہوگی۔ اس بارے میں آپ کا کیا موقف ہے؟
جواب: یہ بھی اجتہاد ہی کی مثال ہے۔ فرض نماز ہی ہر اہل ایمان پر لازم ہے اور اس کی قضا کرنی ہے جو صحیح ٹائم نہ کر سکیں۔ اس میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جسے سنت کہا جاتا ہے، ان کی حقیقت یہ ہے کہ یہ نفل نماز ہی ہے، اسے قضا کرنا چاہیں تو کر لیں اور نہ کرنا چاہیں تو دین میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ نفل نماز اسی کو کہتے ہیں کہ یہ ہماری اپنی کاوش ہے اور قضا کر لینا بہتر ہے۔ اس میں کوئی قضا نہیں ہے بلکہ یہ نارمل نفل ہی ہو گی۔ پاکستان انڈیا کے حنفی فقہاء میں جو لفظ سنت استعمال کرتے ہیں، اس کی حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے نفل نماز کی کلاسی فی کشن کی ہے۔ انہوں نے کیٹگری اس طرح بنائی ہے۔
نفل ۔۔۔ وہ نماز جس میں انسان پر پابندی نہیں ہے بلکہ وہ اپنی مرضی سے نماز ادا کرے۔ ادا کرے تو اجر ہے اور نہ پڑھیں تو کوئی گناہ نہیں ہے۔
سنت موکدہ ۔۔۔ وہ نفل جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ ادا کرتے تھے۔ مثلاً فجر فرض نماز سے پہلے دو رکعت نفل، ظہر کے فرض سے پہلے چار رکعت اور بعد میں دو رکعت، مغرب میں فرض کے بعد دو رکعت۔
سنت غیر موکدہ ۔۔۔ وہ نفل جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی ادا کیے ہیں اور کبھی نہیں کیے۔ جیسے عصر سے پہلے چار رکعت، عشا سے پہلے اور بعد میں نفل۔
واجب ۔۔۔ وہ نفل جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی نہیں چھوڑا اور امت کو بھی اس میں بہت شدت سے فرمایا ہے کہ اسے ضرور پڑھیں۔ مثلاً وتر جو تہجد کی آخری رکعت ہے۔
یہ کیٹگری حنفی فقہاء نے کی ہیں، دیگر فقہاء مالکی، شافعی، حنبلی فقہاء میں کوئی زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں بلکہ ان سب کو نفل ہی سمجھتے ہیں۔ اس میں آپ جن فقہاء کا اجتہاد درست محسوس ہو تو پھر اسی پر عمل کر لیا کریں۔
سوال: کیا نوافل نماز کے لیے ایسی کوئی شرط ہے کہ یہ دو دو رکعات سے ہی پڑھی جائیں، چار رکعات ایک سلام سے نہیں پڑھی جائیں گی؟
جواب :نفل نماز میں بنیادی اصول یہی ہے کہ دو رکعت سے سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کرنا چاہیں تو اس میں کوئی لمٹ نہیں ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظہر کےفرض سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے تھے۔ اسی طرح تہجد میں ایک ہی سلام میں 3, 5, 7, 9, 11 رکعتیں بھی پڑھ لیتے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہے کہ نفل نمازوں میں آپ پر معاملہ کو چھوڑ دیا ہے کہ جتنی خواہش اور محبت ہو اور جتنا مزا آ رہا ہوں، اسی طرح آپ کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی قانون نہیں ہے۔
Send questions at mubashirnazir100@gmail.com.