سوال: اچانک کچھ ہو جانے کی نفسیات سے کیسے نبٹا جا سکتا ہے۔ ہمارے دین میں جو سب سے بڑا اچانک ہونے والا حادثہ بیان کیا گیا ہے وہ موت ہے۔ جو کہ خوف پیدا کرتا ہے اَن سرٹینٹی پیدا کرتا ہے۔ ۔ اگر اس معاملے میں توکل پیدا نہ ہو تو ایک مسلم بندہ اس خوف کو کیسے کوپ کرے ۔ ڈر سے نجات کے لیے عملی طور پر کیا کیا جا سکتا ہے؟
جواب: یہ دیکھیے کہ یہی وہ سپارک ہے جو آپ کے ذہن میں آیا ہے۔ اس میں کامیابی حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اب جتنے سال، مہینے، دن یا گھنٹے بھی مل جائے تو ہمیں صرف اتنا ہی کرنا ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ تعلق کو قائم رکھنا ہے۔ یہی ذمہ داری ہمارے ہاں ہے۔ پھر اپنے ذہن میں دینی خدمت کا جو آئیڈیا بھی پیدا ہو، تو اس میں یہ کام کر لیں۔ اسی میں آپ کی مستقل مزاجی جاری ہو جائے گی۔ اپنے لائف کے لیے اپنا پلان بنا لیجیے۔ اس میں چاہے چند منٹ یا گھنٹوں میں فوت بھی ہو گئے، تب بھی آپ کامیاب ہو گئے ہیں۔ اگر اللہ تعالی نے ابھی آپ کی زیادہ سالوں کی زندگی رکھی ہے تو پھر تب تک ہم اسی پلان پر قائم رہیں۔
سوال: آج آفس سے واپسی پر ریڈیو پروگرام جمعہ کی مناسبت سے چل رہا تھا مولانا اسلام کی بنیادی چیزوں کے بارے میں بتا رہے تھے کہ جو اہم ہیں۔ عقائد، اعمال یعنی عبادات، اخلاق اورمعاشرت و سیاست۔
میرے دل میں خیال آیا کہ آپ سے گذارش کروں عقائد کی مد میں ایک لسٹ عنایت کر دیں جن پر ذہن کا اینکر پوائنٹ سیٹ کرنا ہے کہ ان پوائنٹس سےآگے پیچھے نہیں جانا۔ مطلب آپ کوئی ایک ایسی لسٹ دے دیں جن کو ماننے سے انسان مسلمان رہتا ہے یا ہوتا ہے انسان گمراہی سے بچا رہتا ہے ۔دوسرا ایک نماز کے فرائض و واجبات سنتوں کی۔ ایسے اعمال جن کے بغیر نماز باطل ہو جاتی ہے مطلب مینیم ریکوائرمنٹ۔جزاک اللہ خیر
جواب: آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ آپ کا سوال بہت دلچسپ ہے اور اس میں دو الگ پہلو ہیں۔ ایک ایمان سے متعلق اور دوسرا ہے شریعت۔ ایمان اور شریعت کی بنیاد کے لیے تو آپ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھ سکتے ہیں۔ اس کا جواب “حدیث جبرائیل” میں ہے۔
عن ابي هريرة، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم بارزا يوما للناس، فاتاه جبريل، فقال: ما الإيمان؟ قال:" الإيمان ان تؤمن بالله وملائكته وبلقائه ورسله وتؤمن بالبعث، قال: ما الإسلام؟ قال: الإسلام ان تعبد الله ولا تشرك به شيئا، وتقيم الصلاة، وتؤدي الزكاة المفروضة، وتصوم رمضان، قال: ما الإحسان؟ قال: ان تعبد الله كانك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك، قال: متى الساعة؟ قال: ما المسئول عنها باعلم من السائل، وساخبرك عن اشراطها إذا ولدت الامة ربها، وإذا تطاول رعاة الإبل البهم في البنيان في خمس لا يعلمهن إلا الله، ثم تلا النبي صلى الله عليه وسلم: إن الله عنده علم الساعة سورة لقمان آية 34، ثم ادبر، فقال: ردوه، فلم يروا شيئا، فقال: هذا جبريل، جاء يعلم الناس دينهم"، قال ابو عبد الله: جعل ذلك كله من الإيمان.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ ایمان کسے کہتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ آپ اللہ پاک کے وجود اور اس کی وحدانیت پر ایمان لائیے، اس کے فرشتوں کے وجود پر، اس (اللہ) کی ملاقات کے برحق ہونے پر، اس رب کے رسولوں کے برحق ہونے پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان لائیے۔
پھر اس شخص نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر جواب دیا کہ اسلام یہ ہے کہ آپ خالص اللہ کی عبادت کیجیے اور اس رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیے۔ نماز قائم کیجیے، زکوٰۃ فرض ادا کیجیے، اور رمضان کے روزے ادا کیجیے۔
پھر اس شخص نے احسان کے متعلق پوچھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احسان یہ کہ آپ اللہ تعالی کی عبادت اس طرح کیجیے کہ گویا آپ اب رب کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ ممکن نہ حاصل ہو سکے تو پھر اتنا تو سمجھ لیجیے کہ وہ رب آپ کو دیکھ رہا ہے۔
پھر اس شخص نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بارے میں جواب دینے والا پوچھنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا (البتہ) میں آپ کو اس کی نشانیاں بتلا سکتا ہوں۔ وہ یہ ہیں کہ جب لونڈی اپنے آقا کو جنے گی، جب سیاہ اونٹوں کے چرانے والے (دیہاتی لوگ ترقی کرتے کرتے) مکانات کی تعمیر میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے۔ (یاد رکھیے کہ) قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں ہے جن کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی کہ اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے کہ وہ کب ہو گی۔
پھر وہ شخص پوچھنے والا پیٹھ پھیر کر جانے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے واپس بلا کر لے آئیں۔ لوگ دوڑ پڑے مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جبرائیل تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام باتوں کو ایمان ہی قرار دیا ہے۔ (صحیح بخاری 50)
نماز اور سنتوں کی لسٹ آپ میری علم الفقہ کی پہلی کتاب میں دیکھ لیجیے۔ اس میں شریعت کے تمام بنیادی احکامات اسی کتاب میں موجود ہیں۔ اسی کے لیکچرز بھی اس پر موجود ہیں۔ پھر انہی احکامات سے متعلق جو سوالات پیدا ہوتے ہیں، تو ان پر علم الفقہ شروع ہو جاتا ہے جو اگلی کتابوں میں ہے۔ شریعت کے بنیادی احکامات میں نے پہلے 11 لیکچرز میں ہیں جو پہلی میں ہے۔ باقی پھر علم الفقہ آگے سے شروع ہوتا ہے۔
https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1AiWnZN0yBq-VGbYeJSZNjCZNB027ZxPd
دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز
قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز
(Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب ۔۔۔ سیاست
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر
سوال: سورۃ الحدید کی پہلی آیت میں ہے کہ زمین و آسمان میں سب چیزیں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں۔ اسکی تفسیر میں قران سے ہی ایک اور آیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ کہ زمین آسمان کے درمیان سب مخلوقات اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیں۔ گویا کہ سب مخلوقات چار و ناچار تسبیح کر رہی ہیں اگر ایسا ہے تو کیا ان سب مخلوقات میں انسان بھی شامل ہے جو ہر وقت تسبیح کر رہا ہے اگر ایسا ہے تو یہ کیسی تسبیح ہے جو ہم کر بھی رہے ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں؟
جواب: تسبیح کا تصور تو ہمارے ہاں عام یہ ہے کہ اللہ تعالی کے نام پر اپنے الفاظ میں کچھ کہیں جیسے بسم اللہ، الحمد للہ۔ تسبیح کے لفظ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی کے حضور سرنڈر کر دینا۔ تمام مخلوقات اللہ تعالی کے حضور سرنڈر کرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالی کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں جیسے گلیشئرز، گلیکسی، سورج، سمندر وغیرہ۔
یہ جس طرح عمل کرتے ہیں، یہی اللہ تعالی کی تسبیح کرتے ہیں۔ اب اندر سے جو کچھ وہ دل و دماغ سے کرتے ہوں گے تو اس کا ہمیں علم نہیں ہے۔ انسان میں یہ فرق ہے کہ انسان اپنے فیصلے کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں۔ جیسا کہ جب ہم اللہ تعالی سے محبت کرتے ہیں تو تسبیح کرتے ہیں اور اللہ تعالی کے حکم کے مطابق نماز پڑھتے ہیں، زکوۃ ادا کرتے ہیں اور شریعت پر عمل کرتے ہیں تو یہ سب تسبیح کے حصے ہوتے ہیں۔
فرق یہی ہے کہ انسان اپنے فیصلے سے تسبیح کرتے ہیں جبکہ دیگر تمام مخلوقات تو آٹو میٹک تسبیح کرتے ہیں۔ ان مخلوقات کی تسبیح کی مثال یہ ہے جیسے پانی بادل میں چلا جاتا ہے، پھر برف بن کر پگھلتا ہے اور پھر نیچے کی طرف نالہ، دریا اور سمندر تک چلا جاتا ہے۔ یہ پانی کی تسبیح ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے قانون کے مطابق عمل کر رہا ہوتا ہے۔ اب اپنے دل میں کیسے تسبیح کرتے ہوں گے، اس کا ہمیں علم نہیں ہے اور ہم چیک نہیں کر سکتے ہیں۔
سوال: سورۃ النساء کی آیت 116 میں بیان ہوا ہے کہ اللہ شرک کو ہر گز نہ بخشے گا، اس کے علاوہ وہ جو گناہ جس کے لئے چاہے گا بخش دے گا۔ سوال یہ ہے کہ قرآن مجید میں کچھ گناہ ایسے بھی بیان ہوئے ہیں کہ جن کی سزا اللہ تعالیٰ نے خود ہی بیان فرمادی کہ یہ لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ جیسا کہ سود خود، قاتل، وراثت کی حدود کو توڑنے والا ،اسی طرح کچھ اور گناہوں کی سزا بھی ابدی جہنم بتائی گئی ہے۔ کیا سورۃ النساء کی مذکورہ آیت کے تحت یہ تمام جرائم بھی قابل معافی ٹھہریں گے؟ اگر ایسا ہے تو پھر خالدین فیھا ابدا کا کیا مفہوم ہوا؟
جواب: قرآن مجید میں قانون کا ارشاد ہوا ہےجس میں خالدین فیھا ابدا کر کے بتایا ہے کہ اس جرم کی بنیاد پر اسے ابدی جہنم ہو گی۔ قانون میں مجرم کو سزا بیان کی جاتی ہے۔ اب جب مقدمہ عدالت میں چلتا ہے تو اس وقت جج یہ بھی چیک کر لیتا ہے کہ جرم کی نوعیت کیا ہے اور اس مجرم میں کوئی مجبوری یا کسی اور نوعیت یاصورتحال کے ساتھ گنجائش کے ساتھ ہی قانون کو اپلائی کیا جاتا ہے۔ اب اللہ تعالی ہر مجرم کی گنجائش کو ضرور دیکھ لے گا اور پھر اس کے ساتھ قانون کو اپلائی فرما دے گا۔ اب مجرم میں گنجائش کیسے بن سکتی ہے، اس کا جواب قرآن مجید میں ہے۔
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا۔
یہ حقیقت ہے کہ اللہ کسی پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ (البقرۃ 2:286)
اس کے ساتھ موجودہ زندگی میں سزا کو اپلائے کرتے ہوئے اللہ تعالی نے مجرم پر گنجائش کے ساتھ قانون کو بھی تبدیل فرمایا ہے۔ جیسے بدکاری پر 100 کوڑے کی سزا کا حکم ہے، لیکن لونڈیوں کی شادی کروا کر پھر بھی بدکاری کرے تو اسے 50 کوڑے کی سزا فرمائی ہے۔ آقاء اپنے لونڈیوں کو بچپن سے ہی تربیت اس طرح کرتے تھے کہ وہ ساری عمر بدکاری کرتی رہے۔ انہیں حکم یہ دیا گیا کہ ان لونڈیوں کی شادی کروا کر انہیں آزاد کروا دیں اور ان کی تربیت وغیرہ ٹھیک ہو جائے، تب بھی انہیں سزا کی گنجائش کر دی ہے۔ امید یہی ہے کہ آخرت میں بھی مجرم میں کوئی گنجائش ہو گی تو اس طرح سزا میں کچھ کمی ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ۔
فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنْ الْعَذَابِ۔
جب لونڈیوں کو نکاح میں محفوظ کر دیا جائے اور اس کے بعد بھی وہ بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان کی سزا آزاد خواتین کی نسبت آدھی ہے۔ (النساء 4:25)
سوال: ہمارے رشتے داروں اور محلے میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کے ذرائع آمدن حرام ہیں یعنی وہ سود اور رشوت میں ملوث ہیں، کبھی کبھی ان کے گھر سے کھانا آجاتا ہے یا وہ اپنے گھر دعوت پر بلالیتے ہیں۔ جب یقین ہو کہ ان کی کمائی حرام ہے تو کیاایسی صورت میں ان کے گھر کا کھانا جائز ہے؟
جواب: اس میں حسن ظن ہی رکھنا چاہیے۔ بہت سے لوگ حلال آمدنی بھی حاصل کرتے ہیں اور پھر کچھ حرام آمدنی بھی لے لیتے ہیں جیسے سود اور رشوت وغیرہ۔ اب کسی انسان کی انوسٹی گیشن نہیں کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں کھانا حلال آمدنی سے دے رہا ہے یا حرام کمائی سے۔ اگر ہمارا گہرا تعلق ہے اور ہمیں خودبخود ہی معلوم ہو جائے کہ ان کی آمدنی کا زیادہ تر حصہ حرام سے آتا ہے، تو پھر ان سے ہمیں اجتناب کرنا چاہیے۔ فرض کیجیے کہ ہمیں کنفرم ہو جائے کہ ان کی 95فیصد حرام کمائی ہے اور 5فیصد حلال کمائی ہے تو پھر ایسے انسان سے دور ہی رہنا چاہیے۔
جن کا ہمیں کچھ کنفرم معلوم نہیں ہے تو پھر حسن ظن ہی رکھنا چاہیے اور تعلق قائم رکھنا چاہیے۔ عام طور پر حکومت کے ملازمین کی حلال آمدنی ان کی سیلری سے ملتی ہے۔ اس میں بعض لوگ رشوت حاصل کرتے ہیں تو ان کی آمدنی 10فیصد رشوت سے آتی ہے۔ ان سے اجتناب کرنے سے یہ نقصان ہو سکتا ہے کہ وہ صاحب اپنی رشوت کی عادت ہی بنا لیں اور مزید گناہ میں بڑھتے چلے جائیں۔
اس کی بجائے ان سے اچھا تعلق قائم کرنا چاہیے اور پھر انہیں دعوت دینی چاہیے کہ وہ رشوت چھوڑ دیں۔ اس میں زیادہ گہرا رشتہ یا دوستی ہے تو جب وہ کھانے کو بلائیں تو ان سے کہیں کہ بھائی، کیا یہ کنفرم ہے کہ یہ کھانا آپ کی سیلری کی آمدنی سے بنا ہے؟ اس طرح وہ بھی شرمندہ رہیں گے اور امید ہے کہ آہستہ آہستہ اس گناہ سے بچنا شروع کر دیں گے انشاء اللہ۔
رہے عام آدمی جن کی آمدنی کا ہمیں کچھ علم نہیں ہے تو پھر حسن ظن ہی رکھنا چاہیے کہ امید ہے کہ وہ حلال آمدنی ہی سے ان کی رقم ہو گی اور حسن ظن سے ہم کھانا بھی کھا سکتے ہیں۔ کیونکہ قرآن مجید میں ہمیں یہی حکم ہے کہ کسی عام آدمی پر بدگمانی اور تجسس سے ہمیں بچنا چاہیے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ۚأَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ۔
اہل ایمان! بہت سے بد گمانوں سے بچیں، اِس لیے کہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں۔ (دوسروں کی) ٹوہ میں نہ لگیں اور نہ آپ میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا آپ کے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے؟ سو اِسے تو آپ گوارا نہیں کرتے، (پھر غیبت کیوں پسند ہو؟) آپ اللہ تعالی سے خبردار رہیے۔ یقینا ،اللہ تعالی بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے، اُس کی شفقت ہمیشہ کے لیے ہے۔ (الحجرات 49:12)
Send questions at mubashirnazir100@gmail.com.