سوال: کیا مرحومین کے نام سے قربانی کی جاسکتی ہے یا ان کے نام سے حصہ رکھا جا سکتا ہے؟
جواب : قرآن مجید اور احادیث کاپورا مطالعہ کر لیجیے تو اس میں آپ کے سوال کا جواب نہیں ملتا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مرحومین نے اپنی زندگی میں کوئی نیکی کا پلان اور ارادہ کر لیا لیکن پھر وہ فوت ہو گئے تو انہیں اجر ملے گا۔ اب مرحومین کی اولاد کو معلوم ہے کہ ان کے والد یا والدہ یہ چاہتے تھے تو انہوں نے وہ نیکی اپنے والدین کے نام پر کر دی تو پھر امید ہے کہ انہیں اس نیکی کا اجر تو ملے گا اور ساتھ اولاد کو بھی اجر ملے گا انشاء اللہ۔ اس میں قربانی، نماز، روزہ، صدقات ، حج ، عمرہ کچھ بھی نیکی ہو تو اصل میں مرحومین کی نیت کی بنیاد پر انہیں اجر مل جاتا ہے۔ اس کا جواب ان احادیث میں ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: بیشک رسول اللہ ﷺ نے سینگوں والا ایک مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کے ہاتھ پاؤں،پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں چنانچہ وہ آپ کے سامنے لایا گیا تاکہ آپ اس کی قربانی کریں ۔پھر آپ نے ان سے فرمایا: اے عائشہ! چھری لے آئیے اور اسے پتھر پر تیز کر لیجیے۔ انہوں نے حکم کی تعمیل کی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھری کو تھاما اور مینڈھے کوذبح کرنے کے لیے لٹا دیا۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ! اے اللہ! محمد، محمد کی فیملی اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما۔ پھر آپ نے جانور کو ذبح کر دیا۔ (صحیح مسلم۔کتاب الاضاحی)
عن أبي رزينٍ رجلٌ من بني عامرٍ أنَّهُ قالَ: يا رسولَ اللَّهِ إنَّ أبي شيخٌ كبيرٌ لاَ يستطيعُ الحجَّ ولاَ العمرةَ ولاَ الظَّعن. قالَ: احجج عن أبيكَ واعتمر.(صحيح أبي داود:1810)
ترجمہ : ابو رزین عقیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کیا : اے اللہ کے رسول میرے والد بہت بوڑھے ہیں ، حج و عمرہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی سواری پر بیٹھ سکتے ہیں ؟ {تو کیا میں ان کی طرف سے حج و عمرہ کروں؟} آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے باپ کی طرف سے حج و عمرہ کرو ۔
اسی دوسری حدیث میں وضاحت ہے کہ ابورزین عقیلی رضی اللہ عنہ کے والد صاحب حج و عمرہ کرنا چاہتے تھے لیکن طاقت نہیں تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی کہ صحابی اپنے والد کی طرف سے حج وعمرہ کر لیں۔ اسی سے قیاس آپ قربانی ، نفل نماز، روزہ، زکوۃ، صدقات سبھی پر قیاس کر سکتے ہیں کہ مرحومین کی نیت اگر تھی اور وہ فوت ہو گئے تو ان کی طرف سے قربانی، نفل نماز، روزۃ، زکوۃ، صدقات، کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اس کا اجر انہیں بھی ملے گا اور ہمیں بھی۔
ہاں اگر ان کی نیت ہی نہیں تھی تو پھر ان کا اجر نہیں مل سکتا ہے۔
انما الاعمال بالنيات
بیشک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ (صحيح بخاری 27)
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے۔