السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، مبشر بھائی
میں نے پہلی مرتبہ آپ ہی کی کتاب میں میلینیم تحریکوں کے بارے میں پڑھا ہے،میرے لیے یہ سب باتیں بالکل نئی اور حیرت انگیز ہیں، انہیں پڑھ کر مزید حیرانی یہ ہوئی کہ میلینیم تحریکوں کا تصور نہ صرف مسلمانوں میں ہے بلکہ ان تحریکوں کا تصور دوسری قوموں یہودیوں، عیسایوں اور ہندؤں میں بھی پایا جاتا ہے۔ ان تحریکوں کے بارے میں میں نے کبھی بھی کسی دوسری کتابوں میں نہیں پڑھا، آخر دوسری کتابوں میں ان تحریکوں کے بارے میں کچھ بھی تذکرہ کیوں نہیں ملتا، کسی اور نے ان تحریکوں کے بارے میں کیوں نہیں لکھا چنانچہ اس حوالے سے میرےدرج ذیل سوالات ہیں امید ہے کہ آپ رہنمائی فرمائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔ کسی اور نے ان تحریکوں کے بارے میں کیوں نہیں لکھا ؟
۔۔۔۔۔۔ ان میلینیم تحریکوں کا پس منظر کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔ اور ان کی بنیاد کیا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔ کیا ان تحریکوں کا ذکر مذہبی کتابوں میں بھی آیاہے ؟
۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں اور دوسرے مذاہب میں یہ تحریکیں کس طرح در آئیں؟
۔۔۔۔۔۔ میلینیم تحریکیں اصل میں ہیں کیا؟
۔۔۔۔۔۔ کیا یہ محض تصورات و نظریات ہی ہیں یا ان پیچھے کوئی ٹھوس دلیل بھی ہے؟
محمد جعفر، گوکک، کرناٹک، انڈیا
جواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بھائی آپ کے سوالات بہت اہمیت کے حامل ہیں اس لئے میں ان کا جواب مختصراً لکھنے کی کوشش کروں گا۔ آپ کا سوال ہے کہ ملینیم تحریکوں پر دیگر اہل علم نے کیوں نہیں لکھا؟ ایسا نہیں ہے بلکہ مختلف اسکالرز نے جزوی طور پران تحریکوں کے بارے میں ضرور لکھا ہے جو جو تحریک ان کے علاقے میں پھیل رہی تھی۔
ہاں ایسا ضرور ہے کہ تمام مذہبی تحریکوں کو اکٹھا کرکے کتاب لکھنے کی اہل علم نے ضرورت محسوس نہیں کی۔ جب کہ مجھے اس وجہ سے ضرورت محسوس ہوئی کہ جب میں نے تاریخی کتابوں کوپڑھا تو بہت بوریت محسوس ہوئی، کیوں کہ ان میں صرف بادشاہوں کی کہانیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ابھی بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ٹی وی میں اینکر حضرات بھی بادشاہ، وزیر اعظم، صدر وغیرہ کی تفصیلات ہی بیان کرتے ہیں لیکن عام آدمی کو اگنور کر دیتے ہیں۔ تحریکوں پر بھی وہ تب ہی بات کرتے ہیں جب وہ کوئی سیاسی چیلنج پیدا کرے ورنہ وہ ان سب کو بھول جاتے ہیں۔
مجھےاس پہلو میں دلچسپی اس وجہ سے ہوئی کہ جب میرے اندر دینی ذوق پیدا ہوا تو میں ایک دعوتی تحریک میں شامل ہو گیا۔ پھر جب ان کے کچھ معاملات کے بارےمیں اختلاف پیدا ہوا تو اسے چھوڑ دیا۔ پھر دوسری تحریک میں شامل ہوا تو دیکھا کہ وہاں پر بھی وہی نفسیاتی غلامی کی گھٹن موجود تھی پس اس سے تنگ آ کر اسے بھی چھوڑ دیا۔ تیسری اورچوتھی میں بھی یہی ہوا۔ اس پر میں نے یہ نوٹ کیا کہ ادب میں یہ گیپ موجود ہے کہ کسی نے مذہبی تحریکوں کی تاریخ نہیں لکھی ہے، اس لیے پھر میں نے موٹیویٹ ہو کر اس گیپ کو پورا کرنے کے لیے کتابیں لکھ دی ہیں۔
اب آپ کے اس سوال پر بات کرتا ہوں کہ ملینیم تحریکیں کہاں سے پیدا ہوئیں۔ اس کے لیے آپ بائبل کی آخری کتاب یوحنا عارف کا مکاشفہ پڑھ لیجیے تو یہ ساری میلینیم تحریکیں وہاں سے پیدا ہوئی ہیں۔ یوحنا عارف ایک نیک عیسائی عالم تھے، انہوں نے عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے مکاشفے کو کتاب کی شکل میں پبلش کیا۔ اس مکاشفے میں عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے مستقبل کی صورتحال کو باقاعدہ فلم کی شکل میں بیان فرماد یا تھا۔ اس میں ایک ہزار سال بعد کی پیش گوئی ہے۔ اس میں یہ بیان ہوا ہے۔
مَیں نے ایک فرشتے کو دیکھا جو آسمان سے نیچے آ رہا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں اتھاہ گڑھے کی چابی اور ایک بہت بڑی زنجیر تھی۔ اُس نے اژدہے کو یعنی اُس قدیم سانپ کو جو اِبلیس اور شیطان ہے، پکڑ لیا اور اُسے 1000 سال کے لیے باندھ دیا۔ پھر اُس نے اُسے اتھاہ گڑھے میں پھینک دیا اور اتھاہ گڑھے کو بند کر کے اِس پر مُہر لگا دی تاکہ اژدہا اُس وقت تک قوموں کو گمراہ نہ کر سکے جب تک 1000 سال ختم نہ ہو جائیں۔ اِس کے بعد اُسے تھوڑی دیر کے لیے رِہا کِیا جائے گا۔
مَیں نے تخت دیکھے اور جو لوگ اُن پر بیٹھے تھے، اُنہیں عدالت کرنے کا اِختیار دیا گیا۔ ہاں، مَیں نے اُن لوگوں کو دیکھا جن کو اِس لیے مار ڈالا گیا۔ کہ اُنہوں نے خدا اور یسوع کے بارے میں گواہی دی تھی اور وحشی درندے اور اُس کے بُت کی پوجا نہیں کی تھی اور اپنے ماتھے اور ہاتھ پر اُس کا نشان نہیں لگوایا تھا۔ اور وہ زندہ ہو گئے اور اُنہوں نے 1000 سال کے لیے مسیح کے ساتھ بادشاہوں کے طور پر حکمرانی کی۔ (باقی مُردے اُس وقت تک زندہ نہیں ہوئے جب تک 1000 سال پورے نہیں ہوئے۔) یہ وہ ہیں جو سب سے پہلے زندہ ہوئے۔
وہ لوگ پاک اور خوش ہیں جو سب سے پہلے زندہ ہوں گے کیونکہ اُن پر دوسری موت کا کوئی اِختیار نہیں ہے۔ وہ خدا اور مسیح کے لیے کاہن ہوں گے اور 1000 سال تک مسیح کے ساتھ بادشاہوں کے طور پر حکمرانی کریں گے۔ جوں ہی 1000 سال ختم ہو جائیں گے، شیطان کو قید سے رِہا کر دیا جائے گا۔
وہ زمین کے چاروں کونوں میں موجود قوموں کو یعنی جوج اور ماجوج کو گمراہ کرنے کے لیے نکلے گا تاکہ اُنہیں جنگ کے لیے جمع کرے۔ اُن لوگوں کی تعداد سمندر کی ریت جتنی ہوگی۔ اور وہ پوری زمین پر پھیل جائیں گے اور مُقدسوں کی خیمہگاہ اور عزیز شہر کو گھیر لیں گے۔ لیکن آسمان سے آگ نازل ہوگی اور اُن کو بھسم کر دے گی۔ اور اِبلیس کو جو اُن کو گمراہ کر رہا تھا، آگ اور گندھک کی اُس جھیل میں پھینکا جائے گا جس میں وحشی درندہ اور جھوٹا نبی پہلے سے موجود تھے اور اُن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دن رات اذیت دی جائے گی۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوا کہ ہزار سال سے کیا مراد ہے؟ عیسائیوں نے یہ سمجھا کہ عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ہزار سال بعد کی بات ہے۔ چنانچہ انہوں نے ہزار سال کے بعد 1100 عیسوی کیلنڈر میں مسلمانوں پر یلغار کی جسے صلیبی جنگیں کہتے ہیں تاکہ جو شیطان قید سے نکل آئے ہیں، انہیں تباہ کریں۔ یہودیوں نے یہ سمجھا تھا کہ وہ مسیح کا انتظار کر رہے تھے۔ جب عیسی علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تو وہ ایمان نہ لائے۔ وہ اس لیے آ ج تک مسیح کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کے ہاں بھی کئی لوگ مسیح ہونے کا دعوی کرتے رہے اور ان کی مسیحی تحریکیں ایجاد ہوئیں۔
مسلمانوں نے جب یونانی کتابوں کا عربی ترجمہ کیا تو انہوں نے یہ سمجھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد 1000 سال بعد شیطان نکل آئے گا، اس کے لیے مسیح علیہ الصلوۃ والسلام اسے قتل کریں گے۔ اس لیے مسلمانوں میں جب یہ ٹائم 1600 عیسوی کیلنڈر میں ہوا تو وہ اسے سمجھنے لگے۔ ان کے لیڈرز نے اپنے آپ کو مسیح قرار دے دیا اور پھر ان کے اندر بھی الگ الگ مذہب پیدا ہو گئے۔ یہ ماحول کافی عرصے تک جاری رہا جس کے زیر اثر انڈیا میں قادیانی تحریک بنی اور ایران میں بہائی تحریک بن گئی۔
اسی سے ہندو بھی متاثر ہوئے اور اسی کے حساب سے فرض کر کے وہ اپنے لیڈرز کو مسیح بنانے لگے۔ اس بنیاد پر ان کے ہاں مذہب بھی ایجاد ہوئے ، جس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سکھ ازم اور مراٹھا جنگی تحریکیں بننے لگیں چنانچہ اسی کے اثرات آپ کو انڈیا میں نظر آ رہے ہیں۔ بلکہ انڈیا میں مراٹھا تحریک کے وزیر اعظم بھی اس وقت بن چکے ہیں۔
ان گزارشات کی روشنی میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کو مختلف مذاہب کے لیڈرز نئے نئے آئیڈیاز ایجاد کر کے میلینیم تحریکیں بناتے رہے۔ جس لیڈر کو بھی حکومت پر قبضہ کا شوق پیدا ہوا تو انہوں نے اپنے اپنے آئیڈیاز کے لحاظ سے اسے اپنے طریقے سے ڈھونڈ لیا اور عوام میں اپنی تحریکیں ایجاد کرتے رہے تاکہ بندے ان کے لشکر کا حصہ بن سکیں۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوں نے اپنے مدرسوں میں یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس وقت کی صورتحال آپ کے سامنے ہے جو آج تک جاری ہے۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com
تہذیبی جمود اور زوال کے دوران مختلف تحریکیں
ملینین اور مسیحا تحریکوں کا تعارف یعنی 1000 سال کےبعد نئی تحریکیں
HS66-Overall Studies of Millennialism & Masiha Movements 1258-1947CE