سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، مبشر بھائی
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ میر ایک سوال ہے کہ ہم جنس پرستی کسی بھی انسان میں قدرتی طور پر ہوتی ہے، تو اگر کوئی انسان ہم جنس پرست ہے تو اس میں اس کی کیا غلطی ہے؟ اور اسلام میں اس چیز سے کیوں منع کیا گیا ہے؟ جبکہ یہ کچھ لوگوں میں یہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے؟
جواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جہاں تک ہوموسیکسوئلٹی یعنی ہم جنس پرستی کا تعلق ہے تو یہ قطعی طور پر فطرت کا حصہ نہیں ہے۔ اگر فطرت کے مطابق ہوتا تو پھر اسے کبھی منع ہی نہ کیا جاتا۔
یہ بالکل اس طرح ہوتا جیسا کہ ہم سبزی، دال اور گوشت کھانا کھاتے ہیں کہ وہ فطرت کا حصہ ہوتا ہے، اس لیے کسی بھی دین میں اسے حرام نہیں کیا گیا ہے۔ ہاں انسان میں یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ گوشت کس جانور کا گوشت کھائیں اور کس جانور کا نہیں۔ فطرت میں اللہ تعالی نے یہ بتا دیا کہ آپ اس جانور کا گوشت کھا سکتے ہیں، جو شکار نہیں کرتے ہیں۔ شکاری جانوروں کا کھانا آپ کے لیے فطرت کے طور پر نہیں ہوتا ہے کیونکہ اس کے کیمیکلز سے انسان پر نقصان ہوتا ہے۔ ہاں کچھ جانوروں میں گرے ایریا آ جاتا ہے تو اسے اللہ تعالی نے قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح فرما دیا ہے۔
بالکل یہی صورتحال ازدواجی تعلق سے ہے۔ کس کے ساتھ سیکس کا تعلق رکھیں اور کس کا نہیں؟ اسے اللہ تعالی نے شریعت میں تورات اور قرآن میں بتا دیا کہ صرف میاں بیوی میں یہ تعلق ہو، کسی اور کے ساتھ نہ ہو۔ انسانوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہوموسیکسوئل شادی کر لیں یا نہ کریں؟ اس کے لیے فلسفہ ایجاد کیا کہ کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے جھوٹا پراپیگنڈا کر کے میڈیا کے ذریعے لوگوں میں آئیڈیاز پھیلا دیے تاکہ وہ اس پراپیگنڈا کے ذریعے اپنی مارکیٹنگ کر سکیں۔
اس کے لیے فطرت سے آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ اپنے جسم کو بچپن سے لے کر آج تک سوچ لیجیے کہ کیا فطرت میں مردوں سے سیکس ایٹریکشن آتی ہے یا نہیں؟ آپ کا اپنا ذہن ہی بتا دے گا کہ یہ خواہش نہیں آتی ہے بلکہ لڑکیوں کے ساتھ سیکس ایٹریکشن ہی آ جاتی ہے۔ اب جن لوگوں میں ہوموسیکسوئل کیسے پیدا ہوتا ہے؟ اس کے لیے آپ چند ہوموسیکسوئل لوگوں کا انٹرویو کر لیجیے کہ ان کے ہاں یہ خواہش کیسے پیدا ہوئی ہے؟ اس کا جواب آپ کو یہی ملے گا کہ ان کا کلچر، میڈیا اور ان کی تربیت سے ہی یہ خواہش پیدا ہوئی ہے۔
اس سے یہ کنفرم ہوتا ہے کہ یہ خواہش انسانوں کی تربیت سے ہی پیدا ہوتی ہے، ورنہ کسی بچے میں یہ خواہش پیدا نہیں ہوتی ہے۔ کسی بچے کو اس کا بھائی یا چچا یا دوست وغیرہ میں یہ بیماری پیدا ہو گئی ہو تو وہ اس بچے تک پہنچا دیتا ہے۔ اس کے لیے میں نے انٹرویو کر کے یہی دیکھا ہے کہ بچپن میں جو لڑکا ہاسٹل میں رہا، تو اس میں ایسی عادت پیدا ہو جاتی ہے جسے ہم بگاڑ اور بیماری ہی کہہ سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں دنیاپرست بلکہ مذہبی لوگوں میں بھی یہ بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح آپ بھی ہوموسیکسوئل لوگوں کا انٹرویو کر کے دیکھ لیجیے کہ ان کے ہاں خواہش کیسے پیدا ہوئی تو آپ کے پاس بھی یہی جواب ملے گا جو میں نے عرض کیا ہے۔
سوال: کیا شادی کے بعد مرد اپنی بیوی کا دودھ پی سکتا ہے؟
جواب: آپ کا سوال دلچسپ ہے۔ کسی خاتون کی چھاتیوں میں دودھ ایک دم پیدا نہیں ہوتا،بلکہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب خاتون کے پاس بچہ پیدا ہو جائے۔ لہذا شوہر کو اپنی بیگم کا دودھ نہیں پینا چاہیے کیونکہ کہ یہ اس کے بیٹے یا بیٹی کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی ماں کا دودھ پی سکیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جس طرح ایک شخص کا کوئی حق ہو، اس سے دوسرا کوئی چھیننے کی کوشش کرے،جس طرح ڈاکو یہ کام کرتا ہے۔
آپ کا سوال غالباً اس صورتحال میں ہے کہ جب میاں بیوی ازدواجی تعلق قائم کرتے ہیں تو اس وقت ظاہر ہے کہ شوہر بیوی کے پستان کو اپنے منہ سے ٹچ کر دیتا ہے کہ یہ سیکس کا حصہ ہوتا ہے۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن جب بیوی اپنے بچے کی بریسٹ فیڈکر رہی ہو تو اس وقت شوہر کو چاہیے کہ اس کے پستان کو اس طرح منہ سے ٹچ نہ کرے کہ اس سے دودھ نکل آئے، بلکہ اسی طریقے سے کریں کہ دودھ نہ نکلے۔ کبھی غلطی ہوئی اور ایک آدھ قطرہ دودھ کا نکل بھی آیا تو اس سے ظاہر ہے کہ بیوی، اپنے شوہر کی ماں نہیں بن جائے گی کیونکہ دودھ شریک ماں تو اسی وقت بنتی ہے، جب وہ بچے کو دودھ پلا رہی ہوتی ہے۔
بس اصول یہی ہے کہ میاں بیوی ازدواجی تعلق تو قائم کریں لیکن اس کے طریقے میں اتنا احتیاط کر لیں کہ اپنے بچے اور بیگم کو کوئی نقصان نہ ہو۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com