سوال: السلام وعلیکم و رحمتہ اللہ۔ امید ہے مزاج اللہ کے فضل و کرم سے ٹھیک ہوں گے۔ آج اخبار میں اک خبر نظر سے گزری کہ ایک مکتب نے یکساں تعلیمی نصاب یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ اس میں اس گروہ کے عقائد اور اہل بیت کی تعلیمات کو نظر انداز کیا گیا ہے اور یہ نصاب ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔
میں ممکن حد تک اپنے آپ کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں ان کے بارے حسن ظن سے کام لوں مگر ان لوگوں کے عقائد پڑھ کر اور اپنے ارد گرد ان لوگوں کے رسم و رواج دیکھ کر ذہن میں سوال آتا کہ صرف مسلمانوں جیسے نام رکھ کر اور اسلام کا نام لے کر جیسا کہ یہ لوگ مسلمان کہلاتے ہیں، کیاان کو مسلمان ہی سمجھنا چاہیے؟ آیا ان لوگوں کی دین اسلام کے بارے میں کھلی خلاف ورزیوں پر چپ رہنا صحیح طرز عمل ہے یا ان کےبارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کرنا چاہیے اور ان کے دین مخالف عقائد پرکھلی تنقید کرنی چاہیے؟
ثوبان انور فیصل آباد
جواب: دین کا اصل نام جو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں دیا ہے، اس کا نام اسلام ہے جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی کے حضور سرنڈر کرنا۔ اس لیے ہمیں صرف اور صرف اپنا ٹائٹل اسلام ہی رکھنا چاہیے۔ جب لوگوں نے فرقے بنائے ہیں جو کہ انہی کی ایجاد ہے اور انہوں نے خودہی عقائد اور رسمیں بھی ایجاد کی ہیں تاکہ ان کی نشانی لوگوں کے سامنے آئے۔ آپ ہر فرقے کے لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ اپنے مخصوص عقائد اور اپنی رسموں کو ہی دین قرار دیتے ہیں اور اسی کی پیروی کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے تقلید کا طریقہ بھی ایجاد کیا تاکہ ان کے پیروکار لوگ انہی کے نفسیاتی غلام بن کر رہیں اور ان کے فرقے سے باہر نہ ہو سکیں۔
یہی صورتحال تمام مذاہب کے فرقوں کی ہے تمام فرقوں کا طریقہ یہی ہے۔ ایک بار میری ایک ہندو اسکالر سے گفتگو ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے مذہب میں کتنے فرقے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ جب ایک شخص بڑا لیڈر بن جاتا ہے لیکن اسے اپنا CEO نہیں بنایا جاتا تو پھر وہ اپنا الگ فرقہ بنا لیتا ہے تاکہ وہ اس کا چیف ایگزیکٹو آفیسر بن سکے۔ حقیقت میں یہی مقصد ہوتا ہے اور ہمارے ہاں مسلمانوں کے ہاں بھی فرقے اسی وجہ سے بنتے ہیں اور لوگ کسی لیڈر کو CEO بنا کر اس کی پیروی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم تمام فرقوں سے الگ ہو کر آزادانہ طریقے سے قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنت کی پیروی کریں۔ کوئی بھی اسکالر، خواہ وہ کسی بھی فرقے کے ہوں یا نہ ہوں، ان کی بات کو قرآن مجید کے ساتھ میچ کر کے دیکھیں، اگر میچ ہو تو ٹھیک ہے ورنہ ہم ان سے الگ رہیں۔
سوال: میں جس کرایہ کے گھر میں رہتا ہوں اسکے پچھواڑے ایک مسجد ہے جہاں کبھی ماتم، مجلس، نوحے اور کبھی غبارے لائیٹنگ لگا کے جشن منائے جا رہے ہوتے ہیں۔میں نے محرم کے دنوں میں بھی ان لوگوں کو نماز سے دور صرف سینہ پیٹتے اور ماتم کرتے دیکھا ہے۔ ان اعمال کی دینی حیثیت کیا ہے؟
جواب: یہ رسمیں بھی انہوں نے ایجاد کی ہوئی ہیں تاکہ وہ اپنے پیروکاروں اور اگلی نسل کو اپنا غلام بنائے رکھیں۔ بچوں کو جب بچپن سے یہ باقاعدہ پریکٹیکل ڈرامہ کر کے دکھایا جاتا ہے تو پھر وہ پوری عمر تک اپنے لیڈرز کے غلام بھی بن کر رہتے ہیں۔ یہ صرف ان حضرات ہی تک نہیں، بلکہ دیگر تمام فرقوں کے ہاں بھی آپ چیک کریں گے کہ ان کے ہاں بھی ایسی رسمیں، عقائد اور ایکسرسائز دیکھنےکوملیں گے جو برین وانشگ کا طریقہ کار ہے۔
وہ جو کچھ کرتے ہیں، اسے آپ قرآن مجید کے ساتھ میچ کر لیں تو نظر یہی آئے گا کہ قرآن مجید میں موجود ہی نہیں ہے۔ اس سے یہ کنفرم ہوتا ہے کہ یہ سب عقائد اور رسمیں دین کا حصہ ہی نہیں ہے بلکہ لوگوں نے خود ہی ایجاد کیے ہیں۔
سوال: اپنے جاننے والے قریبی احباب کو جید صحابہ کرام پہ انتہائی گھٹیا تنقید کرتے دیکھا (ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر) میں نے کبھی ان کاجواب نہیں دیا بس ان فالو کر دیا۔ مزے کی بات یہ دیکھی کہ جب میں نے اپنے وٹس ایپ پہ کبھی خلفائے راشدین، امہات المومنین و سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کےبارے میں سٹیٹس لگایا تو وہ احباب دور ہو گئے اور پھر ان میں کبھی خلوص نہیں دیکھا۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
جواب: اس کے لیے آپ ان حضرات کی تاریخ کو پڑھ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ حقیقت میں یہ ایک باغی تحریک تھی جو حکومت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ابوبکر، عمر، عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہم ان کے کنٹرول میں نہیں آ سکے تو انہوں نے ان کے خلاف منفی تبصرے کرنا شروع کیے اور آج تک جاری ہیں۔ علی ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم بھی ان کے کنٹرول میں نہیں آئے بلکہ ساری عمر تک وہ ان کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے۔ اُن کی نسل در نسل میں جو علماء گزرے، وہ بھی ان کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے۔ ان کے انتقال کے کئی سو سال بعد انہوں نے ان کے نام کو استعمال کیا اور انہوں نے اپنے عقائد اور رسموں کو ایجاد کیا۔ اور خاص طور پر امامت کا عقیدہ ایجاد ہوا۔
اس کے لیے آپ خودمطالعہ کرکے دیکھ سکتے ہیں کہ پہلی تین صدیوں تک ان کے عقائد اور عمل میں عام مسلمانوں سے کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔ لیکن چوتھی صدی ہجری میں جب انہیں حکومت مل گئی تو تب انہوں نے الگ عقائد اور رسمیں ایجاد ہوئی کیں۔ اسی حکومت کے دوران انہیں موقع ملا کہ وہ بزرگوں کے مزارات بھی بنا سکیں ورنہ پہلے نہیں ہو سکا تھا۔
آپ خود ان علماء سے امامت کے عقیدے کے متعلق پوچھ لیجیے کہ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قابل اعتماد حدیث سے امامت کا ثبوت دکھا دیجیے۔ وہ جو کچھ بھی ارشاد فرمائیں گے، پھر آپ اپنے گھر میں جا کر قرآن مجید میں انہی آیات اور احادیث کو چیک کر لیجیے گا تو کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ جو حدیث ملی بھی تو آپ ری چیک کر لیں گے تو وہ جعلی حدیث نظر آئے گی۔ یہ صرف ان حضرات تک ہی نہیں بلکہ دیگر فرقوں کے ہاں بھی ان کا اصل سورس وہی جعلی احادیث ہی ہیں۔ قرآن مجید میں ان کے کسی عقیدے کا ذکر بھی نہیں آتا۔
سوال:اس گروہ کے توحید پہ مبنی عقائد تو شاید ان کی کتابوں میں ہی لکھے ہوں گے مگر کبھی ان کو اللہ تبارک وتعالی کا نام لیتے نہیں دیکھا۔ مولا پاک کی قسم اٹھاتے، سیدنا علی سے مدد مانگتے، زریوں، اپنے درباروں کو جھک جھک کے چومتے اور تعظیم کرتے ہیں۔ یہ سب کیا معاملہ ہے؟
جواب: آپ نے بالکل صحیح ارشاد فرمایا ہے۔ دیگر فرقوں کے ہاں بھی بس آپ کسی اور بزرگ کے نام پر سب کچھ چومنا اور تعظیم کرنا وغیرہ نظر آئے گا۔ بلکہ دیگر مذاہب میں بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بنی اسرائیل حقیقت میں دین اسلام پر ہی قائم تھے، پھر جب ان کے فرقے بنے تو انہوں نے اللہ تعالی کی بجائے موسیٰ، سلیمان، عیسیٰ علیہم الصلوۃ والسلام اور سیدہ مریم رضی اللہ عنہا کے نام پر عقیدت کا سلسلہ جاری کردیا جو کہ آج تک جاری ہے۔
سوال: میں نے نوٹ کیا ہے کہ اس گروہ نے دین اسلام کے ہر رکن میں ترمیم کر رکھی ہے، آذان مختلف، نماز کی ادائیگی الگ، روزہ جلد سحری اور لیٹ افطاری، زکوۃ کا الگ طریقہ (بے شک ہم اسے فروعی اختلاف کا نام دیں مگر ہر کام میں واضح فرق نظر آتا کہ یہ ہم سےمختلف ہے)۔ یہ ضمنی باتیں ہیں اصل مقصد یہ پوچھنا ہے کہ جو فرقہ دین اسلام سے اتنا دور ہٹ جائے، چند مقدس ہستیوں کو اڈاپٹ کرکے شرک کا بازار گرم کر دے اور مُصِر ہوکہ میں اسلام پہ ہوں تو کیا یہ ہمارا امتحان نہیں کہ ہم اس کو ایک فرقہ مان کر چپ ہو جائیں؟ہمیں غلط کو غلط کہنا چاہیے یا فرقہ واریت سے اجتناب کا نقطہ نظر اختیار کر کے سائیڈ پر ہو جانا چاہیے۔ کیا کل ہم سے یہ سوال نہیں ہوگا کہ تمہارے ارد گرد، اللہ کی ذات میں شرک کیا جاتا تھا، صحابہ کرام و امہات المومنین پہ کھلا تبرا ہوتا تھا اور تم حقیقت جاننے کے باوجود کیوں چپ تھے؟
جواب: آپ نے بالکل صحیح فرمایا ہے۔ میں اس میں بس یہ مشورہ دوں گا کہ اختلاف جو کرنا ہے، وہ کسی شخص یا گروپ یا فرقے کے نام پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اس عقیدے کے نام پر تنقید کرنی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی نام یا گروپ کے نام پر کریں گے تو لوگ پھر آپ پر حملے کریں گے اور فساد پیدا ہو گا۔
میں نے اسی وجہ سے کسی گروپ کے نام پر تنقید نہیں کی بلکہ تقابلی مطالعہ کی کتابوں میں ان کا نقطہ نظر اور ان کے دلائل پیش کر دیے ہیں۔ اس کے ساتھ دوسروں کا نقطہ نظر اور دلائل پیش کر دیے ہیں تاکہ عام آدمی خود فیصلہ کر سکے کہ کس موقع پر کس کی دلیل مضبوط ہے۔ اس طرح ہم لوگ کھلے ذہن میں آ جاتے ہیں اور ہم فرقوں سے بچ سکتے ہیں۔
سوال: قادیانیوں کو تو ہم نے کافر مان لیا کہ پاکستان کے قانون میں اسے کافر قرار دیا گیا۔اگر قانون میں یہ نہ ہوا ہوتا تو ہم آج بھی اس بات میں اختلاف کر رہے ہوتے کہ جو مسلمان کہلاتا ہے اس کو تم بھی مسلمان کہو۔ آیا کسی ریاست کا قانون حتمی حیثیت رکھتا یا قرآن و سنت پہ مبنی عقائد؟
جواب: قادیانی حضرات نے اپنے گروپ کا نام ہی الگ رکھ دیا ہے۔ اس کے لیے غلام احمد قادیانی صاحب کے بیٹے محمود صاحب نے اپنے پیروکاروں کو سمجھا دیا ہے کہ اب صرف وہی شخص مسلمان ہو سکتا ہے جو ان کے والد کو نبی مانے اورجو نہ مانیں تو پھر وہ سب کافر ہیں۔ جب انہوں نے اپنی اس تبلیغ کو بہت پھیلایا تو عام مسلمانوں میں ردعمل پیدا ہوا۔ اسی بنیاد پر پھر مسلمانوں نے ان کو قانونی طور پر الگ بھی کر دیا ۔ اگر وہ مسلمانوں کو کافر نہ کہتے تو پھر شایداتنی شدت پیدا نہ ہوتی۔
باقی رہے مرزاقادیانی صاحب کے عقائد جو انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھ رکھے ہیں، وہی عقائد آپ کو مسلمانوں کے صوفی علماء کے ہاں بھی ملیں گے۔ لیکن انہوں نے مسلمانوں کے متعلق منفی اورنفرت انگیزرویہ نہیں رکھا تو مسلمانوں نے بھی ان کے متعلق کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا، ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ قادیانی صاحب چونکہ مناظرہ کا شوق رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے منفی رویہ اختیار کیا تو تب مسلمانوں نے بھی وہ جواب دے دیا جو آپ ارشاد فرما رہے ہیں۔ ان کا مطالعہ بھی آپ تقابلی مطالعہ میں کر سکتے ہیں۔
سوال: اکثر اہل تصوف کے واقعات پڑھ کر ذرہ نہیں لگتا کہ یہ اسلام ہے۔ اپنے اپنے گھڑے ہوئےعقائد کی سب نے کوئی نہ کوئی توجیح بھی گھڑ رکھی ہے۔ آیا ان کی اس توجیح کو مان لینا چاہیے کہ تم بھی ٹھیک ہو؟ یا ان سب عقائد پر کھلی تنقید کرنی چاہیے؟ یہ سوچے بغیر کہ میرا مخاطب ناراض ہو جائے گا؟
جواب: آپ کے ارشادات میں جو آپ نے فرمایا ہے، وہی حقیقت ہے۔ صوفی ازم کے عقائد آپ کو بدھ مذہب، ہندو مذہب، عیسائی، یہودی اور مسلمان صوفیاء میں موجود پائیں گے۔ پھر اگر آپ ان کے عقائد کو قرآن مجید سے میچ کر نے کی کوشش کریں گے توآپ کو وہاں کچھ نظر نہیں آئے گا۔ بلکہ صوفی ازم میں رہبانیت کا سب سے بڑا اصول موجود ہے، خود قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اس غلطی کو بتا دیا ہے، جسےآپ خود سورۃ الحدید آیت57 میں پڑھ سکتے ہیں۔ درج ذیل لنک سے آپ استفادہ کرسکتے ہیں۔
باقی ان عقائد پر تنقید تو ہمیں کرنی چاہیے۔ بس اس میں مشورہ یہی دینا چاہتا ہوں کہ کسی کی دم پر پاؤں نہ رکھیں کہ وہ پھر آپ پر اٹیک کریں گے۔ اس میں تنقید کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ کسی شخص یا گروپ کا نام لئے بغیر صرف عقیدے کی غلطی کو واضح کر دینا چاہیے۔ حقیقت میں صوفی ازم کے گروپوں میں بھی اصل اصول وہی تقلید اور نفسیاتی غلامی ہی ہے جس کا مقصد یہی ہے کہ ان کے پیروکار ان کی پیروی کرتے رہیں۔ یہی طریقہ تمام مذاہب اور تمام فرقوں کا رہا ہے۔ میں نے اسی پر تنقید کرتے ہوئے نفسیاتی غلامی کی کتاب لکھی ہے کہ کسی کا نام لئے بغیر تنقید کر دی ہے تاکہ لوگ اس غلامی سے بچ سکیں۔ اس کا لنک یہ ہے۔
سوال: جو چیزیں دین میں نئی داخل ہوئی ہیں خاص کر شرک پر مبنی عقائد اور آپ ان کے فالوورز کو شد ومد کے ساتھ ان کی تبلیغ و ترویج کرتے دیکھتے ہیں، تو کیا آپ کا کام ان کو روکنا بنتا ہے یا نہیں؟ چاہے آپ کو اس کی کتنی قیمت ہی دینی پڑے؟
جواب: ان کی تبلیغ اور ترویج کو ہم نہیں روک سکتے ۔ انہیں اللہ تعالی ہی روک سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالی نے انہیں اس لیے چھوڑ دیا ہواہے تاکہ ہر انسان کے امتحان کا سلسلہ جاری رہے۔ ورنہ اگر اللہ تعالی چاہتا تو پھر تمام گمراہیوں کو ویسے ہی ختم کر دیتا۔ اللہ تعالیٰ نےسب کو اس لیے چھوڑ دیا ہوا ہے تاکہ لوگوں کا امتحان کیا جاسکے،تا کہ وہ اپنی عقل سے سوچ کر خود فیصلہ کریں کہ گمراہی کیا ہے اور اس سے ہم کیسے بچ سکیں۔ یہی ہمارا امتحان ہے جس پر ہمیں آخرت میں اجر ملنا ہے۔ ہم صرف اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ غلطی اور گمراہی کو واضح کر کے لوگوں تک پہنچا دیں، باقی فیصلہ ہر انسان نے خود ہی کرنا ہے کہ وہ گمراہی پر رہیں یا اس سے بھاگ کر حق کو اپنا لیں۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com