سوال: عام طور پر کہا اور لکھا جاتا ہے کہ قرآن مجیداور صحیح حدیث ہی دین کا ماخذ ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث کو فہمِ سلف کی روشنی میں ہی سمجھا جائےگا نہ ہمارے یا آج کے کسی مفکر کی عقل کی روشنی میں۔ اس حوالے سے میرے کچھ سوالات درج ذیل ہیں۔ ان سوالات کا مفسر ، مدلل و جامع جواب عنایت فرمایئے ۔ شکریہ
۔۔۔۔۔ اگر کوئی حدیث سند یعنی راویوں کے نام کے اعتبار سے صحیح کی شرائط پر پوری اترتی ہو یا صحیح نامی کسی حدیث۔ میں کتاب میں نقل ہوئی ہو جیسا کی صحیح بخاری، صحیح مسلم ، صحیح ابن حبان اور صحیح ابن خذیمہ وغیرہ میں۔ مگر اس کےمتن کا مضمون قرآن مجید کی کسی آیت یا قرآن کی کسی تعلیم کےبظاہر خلاف ہو تو ایسی صورت میں تطبیق کیسے دی جائے؟
۔۔۔۔۔ کیا قرآن کو فوقیت دیتے ہوئے حدیث کو چھوڑ دیا جائے؟
۔۔۔۔۔ یا قرآن کو حدیث کے تابع کرکے سمجھنے کی کوشش کی جائے؟ کیونکہ نبی ﷺ توقرآن کےمعلم، مفسر، تبیین کرنے والے، شارح اور فقیہِ اول تھے، ان کا قرآنی فہم تو سب صحابہ پر بھی غالب تھا۔
۔۔۔۔۔ بعض مسائل میں(قرآن وحدیث کے فہم حوالےسے) صحابہ ، تابعین، تبع تابعین ودیگر ائمہ متقدمین میں بھی اختلاف پایا جاتا تھا،ایسی صورت میں راجح اور مرجوح کا فیصلہ کس طرح کیا جائے؟
جواب: بھائی آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں۔
۔۔۔۔۔ آپ نے بالکل صحیح فرمایا ہے۔ دین وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں قرآن مجید کی شکل میں دیااور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اس پر عمل کیا اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کتاب پر عمل کرکے انہیں سکھادیا ، دین کی اس پریکٹیکل شکل کو “سنت” کہا جاتا ہے۔ دین بس اتنا ہی ہے۔
۔۔۔۔۔ حدیث وہ ہے جو کسی صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان یا عمل کو بیان کیا ہے۔ ان احادیث میں اسی قرآن و سنت کی پریکٹیکل شکل کی تاریخ بیان کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس موقع پر کس طرح عمل فرمایا۔ احادیث کے میدان میں یہ ہوا کہ بعد نسلوں میں جعلی روایتیں ایجاد ہونا شروع ہوئیں، تو پھر انہیں چیک کرنے کی بھی ضرورت پیش آئی کہ آیا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب یہ بات جعلی ہے یا قابل اعتماد؟ جب سنداً ثابت ہوگیا تواسی کو صحیح حدیث کہتے ہیں ،جو کہ قابل اعتماد ہوتی ہیں۔
۔۔۔۔۔ اب صحیح حدیث کے متعلق یہ سمجھ لیجئے کہ کوئی صحیح حدیث ایسی نہیں ہے جو قرآن، سنت اور عقل کے خلاف ہو۔ اگر کوئی ایسی روایت مل جائے جو قرآن اور لاجک کے خلاف ہو، تو پھر یہ سمجھ لیجئےکہ کسی راوی نے جب روایت کو بالمعنیٰ پیش کیا تو اپنی غلط فہمی سے کسی بات کو اس حدیث میں شامل کر دیا ہے۔ محدثین نے حدیث کی تحقیق پربہت عمدہ طریقے سے کام کیا ہے۔ لیکن پھر بھی ہزاروں احادیث میں کوئی اکا دکا ایسی حدیث مل جاتی ہے جس میں بات سمجھ نہیں آ رہی ہوتی ہے اور کنفیوژن باقی رہ جاتی ہے۔
اس کا حل یہ ہوتا ہے کہ اسی موضوع پر منقول دیگر احادیث دوسری کتاب احادیث میں بھی پڑھیں تو پھر اصل صورتحال سامنے آ جاتی ہے۔ اگر وہ حدیث سند کے اعتبار سےصحیح نہ ہو تو پھر مزید تحقیق کی اتنی ضرورت نہیں رہتی۔
۔۔۔۔۔ اگر کسی حدیث میں ایسا محسوس ہو کہ اس کا متن قرآن مجید کے خلاف محسوس ہورہا ہے تواسے ایک دم پھینکنے کی بجائے زیادہ اچھا ہے کہ ہم اسی ٹاپک سے متعلق دیگر احادیث کو بھی پڑھ لیں۔ اس طریقے سے جو کنفیوژن محسوس ہورہی ہوتی ہے تو وہ کلیئر ہوجاتی ہے۔
۔۔۔۔۔ رہی بات یہ کہ قرآن کو حدیث کے تابع کرکے سمجھنے کی کوشش کی جائے؟ تو بھائی ایسا کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کوئی عالم ِدین ضعیف و موضوع روایات سے متاثر ہو گیا ہویا اس کی ان احادیث پر تحقیق نہ ہو تو اس نے ایسا کرلیا ہو، ورنہ صحابہ کرام میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔
حدیث کو سمجھنے میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ راوی پورا سیاق و سباق بیان نہیں کرتے، وہ حالات و قرائن کیا تھے جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ کام کیا یا سببِ حدیث کیا تھا، راوی بالعموم ان باتوں کو بیان نہیں کرتے، یہ چیز ایک عامی کو متذبذب یا کنفیوژ کردیتی ہے۔ ان چیزوں کو بیان نہ کرنےکی وجہ یہ بھی تھی کہ ان راویان کو جو کہ شیوخ الحدیث بھی ہوتے تھے، ان کے اسٹوڈنٹس کو تو معلوم ہوتاتھا کہ سیاق و سباق کیا ہے، لیکن ہمیں کنفیوژن پیدا ہو جاتی ہے، اس کا حل وہی ہے جو پہلے بیان کیا ہےکہ اسی موضوع پر دیگر احادیث پڑھیں تو پھر اصل صورتحال سامنے آ جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ائمہ حدیث میں بھی اختلاف رائے یا راجح مرجوح (یعنی کون قابل اعتماد ہے اور کون نہیں) کا اختلاف پایا جاتا تھا۔ اس حوالے سےیہ سمجھ لیجئے کہ ان میں سے کوئی شخص بھی نبی نہیں تھا اور نہ ہی ان میں سے ہر شخص تک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ہرحدیث پہنچی تھی اور نہ ہی وہ ہر حدیث کی صحت و ضعف سے واقف ہوسکتا تھا، یہ سب فیصلے ان کے پاس موجودہ علم کی بنا پر تھے۔
ایسی صورت میں اس کا اصل حل یہی ہے کہ اس صحیح حدیث کو دیگر صحابہ، تابعین، تبع تابعین کے ذریعے بھی پڑھ لیں۔ ان میں سےکوئی نہ کوئی اس کی وضاحت اور اس کاسیاق و سباق بیان کر ہی دیتا ہے ،تو پھر اس طرح یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔اس کا طریقہ کار آپ میرے ان لیکچرز میں سن کر اپلائی کر سکتے ہیں۔ اس میں پلیز HS10-23 تک کے لیکچرز ضرور سن لیجیے گا تاکہ آپ خود حدیث کو چیک کرنے کا طریقہ کار کر سکیں۔
سوال: آپ نے اپنے جواب میں فرمایا ہے کہ قرآن مجید کی عملی شکل کو سنت کہا جاتا ہے اور دین اتنا ہی ہے۔ میرا اس پر سوال یہ ہے کہ اس سنت سے مراد آپ کیا لے رہے ہیں؟طریقہ ،عملی تعبیر، سنت ابراہیمی جیسے صلوۃ کیسے ادا کرنی ہے اور زکوۃکس طرح دینی ہے صوم وغیرہ ؟کیا اس پریکٹیکل شکل میں قرآنی احکامات کی تشریحات اور اس کا بیان جو اکثر قرآنی آیات میں نہیں آیا فقط اشارتاً کلام کیا گیا اور اس کی تفاصیل خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باذن اللہ بیان فرمائیں، کیا وہ اس میں داخل ہیں یا خارج ہیں ؟میری اس معاملہ میں رہنمائی فرمائیے گا؟
جواب: بھائی جو سوال آپ نے دریافت کئے ہیں ان کا جواب تو پہلے جواب میں ہی موجود تھا ، تاہم دین کی پریکٹیکل شکل کو ہی سنت کہا جاتا ہے۔ چونکہ سنت کا تعلق ہی دین کی عملی چیزوں سے ہے اس کی تعلیم کے لئےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دن رات ایک کرکے تمام صحابہ کو اس کی تربیت فرمائی تھی، اس لئے صلوٰۃ ، صوم اور زکوٰۃ کے طریقے بھی اسی میں شامل ہیں۔باقی رہی قرآن کی تشریح ، تبیین اور تعلیم تو یہ تمام امور تو قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بحیثیت رسول بنیادی ذمہ داری کے طور پر بیان ہوئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب صحابہ کو قرآن کی تشریح ، تبیین اور تعلیم پر کروایا تو دین کی جو عملی شکل بنی وہی سنت تھی یعنی دین کا طریقہ۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کے اولین معلم، مفسر، تبیین کرنے والے، شارح اور فقیہِ اول بھی تھے، تو آپ کی وہ تعلیم، تفسیر، شرح اور فقہ ہمیں احادیث کے ذریعے مل جاتی ہے ، یہ ہمارے لئے بہت قیمتی سرمایہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ تعلیمات تمام انسانی تفقہ پر مقدم ہیں۔
باقی بھائی ،آپ نے سنت ابراہیمی کا بھی تذکرہ فرمایا ہے، اس پر میں بس اتنا عرض کروں گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے پہلے نہیں بلکہ آخری نبی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا تھا۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ نماز، روزہ ،زکوٰۃ اور حج و دیگر مراسم عبودیت یعنی عبادت کا طریقہ کار نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے ہی سے مروج چلے آرہے تھے، انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی بار متعارف نہیں فرمایا تھا۔ یہ الگ بات ہے صدیوں کی گمراہی کی وجہ سے بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل نے جو اس میں تبدیلیاں پیدا کر دی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالی کے حکم سے ان کو درست شکل میں پیش فرمایا تھا چنانچہ ان تمام امور کو ہم صرف آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی وجہ سے اختیار کرتے ہیں۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com