سوال: سر آجکل میں سود پر کافی ریسرچ کر رہا ہوں اور اس کو معروضی انداز سے سمجھنا چاہ رہا ہوں۔۔ ابھی تک میری اس بارے میں جو انڈرسٹینڈنگ بنی ہے وہ درج ذیل ہے اور اسی کے حوالے سے میں آپ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتا ہوں۔
دورِ رسالت میں سود کی مختلف شکلیں رائج تھیں اور ان میں سے ایک شکل ربوٰ کی تھی جسے قران میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ میرے خیال میں ربوٰ کی اصطلاحی تعریف جائے تو یہ بنے گی۔
اگر ایک شخص کسی دوسرے کو قرض دیتا ہے اور ایک خاص مدت کے بعد قرض پر مشروط زیادتی کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ ربوٰ کہلاتا ہے۔
اس میں سے تین چیزیں ہیں جو ربوٰ کو ناگزیر بناتی ہیں۔
قرض کی مد میں رقم یا کوئی صرفی کنزیوم ایبل دینا۔
مشروط یا فکسڈ منفعت کا مطالبہ مدت کے ساتھ۔
ایک خاص مدت کا گزرنا۔
ڈاکٹر ثوبان انور، فیصل آباد
سوال: اب اس میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ربوٰ کو ہم جنس چیزوں کے حساب سے دیکھا جائے گا؟؟ مثلاً میں کسی شخص کو 200 روپے دیتا ہوں اور 1 ماہ بعد 300 روپے کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہوں تو یہ ربوٰ ہوا کیونکہ اس میں مندرجہ بالا تینوں شرائط پائی جاتی ہیں ۔ لیکن اگر میں کسی شخص کو 200 روپے دیتا ہوں اور اسے کہتا ہوں کہ 1 ماہ بعد مجھے 2 لٹر پٹرول کی قیمت روپوں میں ادا کرنا بے شک واپسی کے وقت 2 لٹر پٹرول کی قیمت 400 روپے ہو۔یہاں چیزوں کی جنس بدل گئی قرض میں روپیہ دیا ہے اور واپسی پٹرول کی قیمت ہے۔ اس کیس میں تو یہ ربوٰ نہ ہو گا ناں؟
جواب: اسے فائنانس میں اینڈکس کہا جاتا ہے۔ قرض کو پٹرول پر فکس کر دینا اس طرح صحیح طریقہ نہیں ہے کہ ایک طرح کا فراڈ ہی ہے جس میں ربا حقیقتاً ہے اور اس کا نام تبدیل کیا گیا ہے۔ اگر اینڈکس کرنا ہی ہو تو پھر پٹرول ہی انہیں دیں اور مہینے میں ان سے واپس پٹرول ہی لیں۔
اس کی بجائے اینڈکس کا بہتر طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کسی فکس کرنسی پر اسے قرض دیں اور وہی واپس لیں۔ مثلاً آپ اسے 10 ڈالر دیں اور مہینے بعد 10 ڈالر لے لیں تو اسے اینڈکس کہا جائے گا اور یہ بالکل درست ہے اور ربا نہیں ہو گا۔ سعودی عرب میں یہی طریقہ ہے کہ انہوں نے اپنی کرنسی ریال کو 3.75 میں ڈالر سے فکس کیا ہوا ہے۔ اس طرح وہاں مہنگائی بہت کم ہوتی ہے۔
سوال: اسی کو اب ایک اور جگہ اپلائی کرتے ہیں ۔۔ میں اگر 2 لاکھ روپے بینک سے لیتا ہوں اور وہ آج 200 ڈالر بنتے ہیں اور میں معاہدہ کرتا ہوں کہ 2 سال بعد 200 ڈالر کی قیمت واپس کروں گا۔۔ تو اس کیس میں بھی قرض روپیہ دیا ہے اور واپسی ڈالر کی قیمت ہے تو یہاں بھی چیز ہم جنس نہ رہی کیا یہ بھی ربوٰ نہیں ہو گا جسے حرام قرار دیا گیا ہے؟
جواب: اب آپ قرض لے رہے ہیں اور مظلوم ہیں۔ اگر تو سچ مچ ڈالر ہی لے رہے ہیں اور واپس دے رہے ہیں تو پھر ربا نہیں ہے۔ بینک عموماً یہ کرتے ہیں کہ آپ کو پاکستانی روپے دیتے ہیں اور واپسی میں ڈالر لیتے ہیں جس کی قیمت پہلے ہی بڑھ چکی ہوتی ہے۔ اس صورت میں یہ حقیقتاً ربا ہی ہے جسے وہ کما رہے ہیں اور حیلہ یعنی فراڈ کر کے اسے جائز بنا رہے ہیں۔ اس کا گناہ انہی کو ہو گا، رہے آپ تو آپ مظلوم ہیں کہ آپ کو مجبوری ہے۔
سوال: اب آتے ہیں اُن احادیث کی طرف جس میں رسول اللہ نے ہم جنس چیزوں کے تبادلے کی ممانعت فرمائی ہے کہ کھجور کے بدلے کھجور ،سونے کے بدلے سونا اور چاندی کے بدلے چاندی کو نہ بدلو تا کہ سود(ربوٰ) پیدا نہ ہو۔۔ بلکہ اس طرح کرنے سے بہتر ہے کہ کھجور کو کسی چیز سے بدلو اور پھر اُس چیز سے کھجور کو خریدو (غالباً اسی طرح کا کوئی مفہوم ہے)۔۔ اس حدیث میں یہ سدِ ذریعہ کے تحت ممانعت کی گئی ہے یا اس سے مطلقاً منع کیا گیا ہے؟
جواب: اس حدیث میں اسی صورت حال کو منع فرمایا گیا تھا کہ لوگ حیلہ کر کے ربا کو نئی شکل دے رہے تھے۔ کسی کو قرض کے طور پر کمزور کوالٹی کی کھجور دے دی جو مثلاً 1000 کلو تھی۔ واپسی کو مقروض کو کہا کہ وہ اچھی کوالٹی کی کھجور 1000 کلو دے دو۔ اب ہوا 1000 کلو تو لفظ ربا کو قانوناً بچا دیا لیکن یہ نہیں دیکھا کہ جو کمزور کوالٹی کی سستی کھجور دی تھی، اب عمدہ کوالٹی کی مہنگی کھجور واپس لے رہے ہیں۔ اس لیے حقیقتاً تو ربا ہی تھا لیکن قانونی طور پر اپنے آپ کو بچایا تھا جو اللہ تعالی سے فراڈ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس میں اسی سے منع فرمایا گیا ہے۔
سوال: اگر اس سے مطلقاً منع کیا گیا ہے تو آجکل جب ہم ریزگاری لیتے ہیں تو عموماً 1000 روپے دوکاندار کو دیتے ہیں اور بدلے میں 980 روپے لیتے ہیں ۔۔ اسی طرح شادی بیاہ پر پیسے لٹانے کے لیے لوگ بینک سے نئے نوٹ لیتے ہیں اور پرانے نوٹ دیتے ہیں یعنی 1000 روپیہ دیکر 950 روپے کے دس دس روپے کے نئے نوٹ خریدتے ہیں۔ اگر مندرجہ بالا احادیث کا حکم مطلقاً ہے تو یہ دونوں صورتیں ربوٰ ہیں اور حرام ہو جاتی ہیں اور اگر سدِ ذریعہ کا ہے تو اس سے اجتناب بہتر ہے لیکن اگر عرفاً یہ رائج ہے تو کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ یہ مطلقاً حکم نہیں تھا۔ مندرجہ بالا احادیث کا صحیح منشا اور ان دونوں رائج صورتوں کے متعلق بتائیں کہ کیا اس حدیث کی رو سے یہ بھی حرام ہو جاتی ہیں ؟
جواب: یہ سد ذریعہ نہیں ہے بلکہ وہ زیادہ رقم ہی لے رہے ہیں اور مقروض کو کم دیا جا رہا ہے۔ اس لیے فراڈ ہی ہے اور وہ لفظ ربوٰ یا سود کے لفظ کو بچا کر حقیقت میں وہی لے رہے ہیں لیکن اس کا نام تبدیل کیا گیا ہے۔ اسلامک بینکنگ جو کی جا رہی ہے، اس میں کسی حد تک بینکرز یہی کچھ کر رہے ہیں۔
سوال: اب آتے ہیں دورِ جدید کے بینکنگ سسٹم کی طرف۔۔ آجکل جو بینکنگ سسٹم رائج ہے اُس میں ہم سنتے ہیں کہ اس سال شرح سود فلاں ہے اور اُس سال فلاں تھی۔ یہاں جو سود کی تعریف کی جا رہی ہے وہ انویسٹمنٹ پر زائد منفعت ہےمثلاً ایک شخص بینک میں 2 لاکھ روپیہ جمع کرواتا ہے اور ماہانہ 10000 نفع حاصل کرتا ہے تو اصل میں یہ ایک طرح کی فائنانسنگ یا انویسٹمنٹ ہے۔ بینک اُس پیسے سے کاروبار کرتا ہے اور اُس پر ایورج نکال کر ڈیپازٹر کو نفع ادا کر رہا ہوتا ہے ۔ کیونکہ یہاں سود لغوی مفہوم میں استعمال ہو رہا ہے اور ہمارے مترجمین نے ربوٰ کا ترجمہ سود کیا ہے لہذا ہم ہر طرح کے سود کو حرام سمجھتےہیں۔ حالانکہ جو چیز حرام ہے وہ ربوٰ(سود کی مخصوص قسم، ہر ربوٰ سود ہے لیکن ہر سود ربوٰ نہیں ہے) ہے۔ اور ربوٰ اپنی ایک اصطلاحی تعریف رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہی ہے کہ آجکل کی بینکنگ میں انٹرسٹ یا سود کا جو لفظ استعمال ہو رہا ہے وہ ربوٰ نہیں ہے جو قران مجید میں استعمال ہوا ہے؟
جواب: اس کے لیے نیشنل بینک کے ایک اسپیشلسٹ سے گفتگو ہوئی تھی۔ انہوں نے یہ بتایا کہ وہ اس انوسٹمنٹ کو قرض پر استعمال نہیں کر رہے ہیں بلکہ اسے میں اسٹاک ایکسچینج کے شیئر لے رہے ہیں اور جب شیئر کی قیمت بڑھ جاتی ہے تو بیچ دیتے ہیں۔ اس طرح منافع ہوتا ہے اور وہ پھر اس کا کچھ حصہ اپنے کلائنٹ کو دے دیتے ہیں اور باقی بینک کی آمدنی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر حقیقتاً یہی کر رہے ہیں تو پھر یہ ربا نہیں ہے اور جائز ہے۔فرض کیجیے کہ اگر بتا یہ رہے ہیں اور حقیقتاً قرض دے کر سود ہی لے رہے ہیں تو پھر وہ اپنے کلائنٹ کے ساتھ جھوٹ بول رہے ہیں اور سزا انہی بینکرز کو ہو گی۔ ایک تو سود کمانا اور دوسرا جھوٹ اور فراڈ۔ ان دونوں گناہوں کا وبال انہی پر ہو گا اور کلائنٹ کو معلوم نہیں ہے، اس لیے اس پر گناہ نہیں ہو گا۔ ہاں کلائنٹ کو اگر معلوم ہو جائے تو پھر اسے چاہیے کہ اس بینک سے اپنی انوسٹمنٹ نکال دیں او رکسی حلال بزنس میں لگائیں۔
سوال: اب اُن قرضوں کی بات کرتے ہیں جو مختلف ممالک آئ ایم ایف یا ترقی یافتہ ممالک سے لیتے ہے۔ یہ قرضے ظاہر بات ہے کہ حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے لے رہی ہوتی ہے نہ کہ کاروبار کرنے کے لیے۔ اور اس پر سود ادا کرتی ہے جو کہ ربوٰ کی ڈیفی نیشن پر پورا اترتا ہے؟ اس بارے میں رہنمائی فرمائیے گا۔
جواب: حقیقتاً یہی صورتحال ہے۔ یہ تمام کمزور ممالک کہنے کو تو آزاد ملک ہیں لیکن وہ انہی سپر پاورز کے غلام ہیں۔ 1950 سے پہلے یہ سپر پاورز اکثر مسلم ممالک کے کھلے مالک بن گئے تھے اور مسلم اقوام کو غلام بنایا تھا اور اس کا نام وہ کالونی ازم کہتے تھے۔ پھر دوسری جنگ عظیم میں اپنی کمزوری کی وجہ سے انہوں نے مسلم اقوام کے چھوٹے چھوٹے ملک بنا دیے لیکن پھر ان مسلم اقوام کو نیوکالونی ازم کی شکل میں پھنسا دیا ہوا ہے۔
رہا آئی ایف ایف اور اس نوعیت کے تما م ادارے تو یہ سب سپر پاورز کے ملازمین ہیں۔ اقوام متحدہ بھی پانچ سپر پاورز کے ملازمین ہیں۔ کمزور ممالک کی حیثیت بس وہی ہے جو گلوبل گاؤں میں “کمی کمین” اور سپر پاورز اس گاؤں کے “چوہدری” ہیں۔ قدیم زمانے میں بھی سپر پاورز اسی طرح دیگر ممالک کو چلاتے تھے اور اب بھی یہی صورتحال ہے۔ جب مسلمان سپر پاور بنے تھے تو وہ دیگر ممالک کو اسی طرح کنٹرول کرتے تھے۔
مثلاً اسپین میں بنو امیہ کے خلیفہ عبدالرحمٰن کی حیثیت یہی تھی کہ انگلینڈ ، فرانس اور جرمن قوموں کی لڑائی ہوتی تو ان میں کسی ایک قوم کا بادشاہ اسپین پہنچ کر عبدالرحمٰن سے درخواست کرتا۔ پھر وہ دوسری قوم کے بادشاہ کو بلا لیتے اور اس کے بعد مقدمے کا فیصلہ کر لیتے تھے۔ موجودہ زمانے میں عبدالرحمٰن کی جگہ یہی شکل جیو بارڈن کی ہے۔ کچھ عرصے بعد جب امریکہ کمزور ہو جائے گا اور چین کی طاقت زیادہ آ جائے گی تو یہ شکل مثلاً زی جمپنگ کی ہو جائے گی۔
سوال: اگر کوئی شخص آج کے دور میں بینک سے 2 لاکھ روپیہ قرض لیتا ہے اور ایک سال بعد اسے 3 لاکھ واپس کرنا ہوتا ہے۔ اس میں تو شبہ نہیں کہ یہ سود ہے یا نہیں یہ بالکل سود کے ہی زمرے میں آئے گا۔۔ کیونکہ معین مدت بھی ہے اور فکس نفع بھی ہے۔۔اور اس صورت میں وہ شخص پہلے پیسا ختم کرے گا اور پھر دوبارہ اصل سے زائد پیدا کرے گا جو کہ سود کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔۔ سوال یہ کہ جب قرض لیا تو 200 ڈالر 2 لاکھ روپیہ بنتا تھا اور جب واپس کیا تو روپے کی قیمت گِر گئی اور 200 ڈالر 3 لاکھ کے برابر ہوئے۔۔ اب اس صورتِ حال میں اگر دیکھا جائے تو روپے کے حساب سے یہ سود بن رہا ہے جبکہ ڈالر کے حساب سے یہ اصل رقم کی ہی پوری پوری واپسی ہے اور سود نہیں بن رہا۔۔ بین الااقوامی تجارت تو ڈالر میں ہوتی ہے اس لیے آجکل اسٹینڈرڈ کرنسی ڈالر ہے۔۔ مندرجہ بالا صورت میں سود ہونے یا نہ ہونے کی وضاحت فرمائیں۔۔
جواب: کسی کو قرض دیا تو پھر جو بھی اضافہ لیں گے تو اس میں کیا اختلاف ہو سکتا ہے کہ وہ سود ہی ہے۔ موجودہ اکنامکس میں یہ بڑا ایشو ہے کہ پورے ملک کی کرنسی کی قیمت کو اقوام متحدہ گرا دیتی ہے یا اضافہ بھی کر دیتی ہے۔ حقیقت میں دوسری جنگ عظیم کے بعد ان پانچ سپر پاورز ہی کا ادارہ ہے جو اقوام متحدہ کہلاتا ہے اور وہی دیگر ممالک کی اکنامکس کو کنٹرول کر دیتے ہیں۔
اب اگر ہمیں زیادہ بڑی رقم پاکستانی روپے میں ہے تو ہمیں معلوم ہے کہ کسی وقت بھی پاکستانی روپے کی قیمت گر جائے گی تو ہمیں نقصان ہو گا۔ اس نقصان کو بچانے کے لیے سود کی بجائے اور کوئی اور حلال طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ مثلاً بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ ڈالر یا یورو میں بنا دیں۔ جیسا کہ فیصل بینک یہی کرتا ہے اور اس میں آپ کی رقم ڈالر ہی میں فکس رہتی ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ میں بینک کو مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اسے سودی قرض میں انوسٹ بھی نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ کرنٹ اکاؤنٹ کی 95% رقم، انہیں سنبھال کر رکھنی پڑتی ہے۔
اس کی حیثیت وہی ہے کہ ڈالرز کی رقم کو وہ لاکر کی طرح سنبھال کر رکھتے ہیں۔ بہت سے بینک یہ بھی کرتے ہیں کہ وہ ہم سے معاہدہ کرتے ہیں کہ وہ قرض نہیں دیں گے بلکہ صرف بزنس ہی کریں گے۔ اس میں نفع یا نقصان جو بھی ہوا، وہ ہمیں ملے گا۔ یہ بالکل جائز عمل ہے اور بینک اتنی احتیاط ہی کرتے ہیں کہ نفع ہی ہو، نقصان نہ ہو۔ اس کی مثالیں آپ اس لنک میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہاں اس معاہدے کے بعد وہ بینکرز ہمیں بتائے بغیر سود ہی کما رہے ہوں تو پھر اس کا گناہ انہی کو ہے، ہمیں نہیں ہو گا۔
سوال: اِسکے علاوہ آجکل جدید بینکنگ میں ڈیجیٹل کرنسی کا چلن عام ہورہا ہے۔۔ مجھے بینکنگ سسٹم میں دلچسپی پیدا ہوئی ہے کہ میں اسے ایکسپلور کروں۔۔ آپ کے علم میں اگر کوئی سورس(کتاب،آرٹیکلز) وغیرہ ہے جس میں جدید بینکنگ،اسلامی بینکنگ ، دونوں کا تقابل اور موجودہ دور میں بینکنگ،مارکیٹنگ ، اسلامی اصولوں کی بنا پر ان کا حلال یا حرام ہونا کی بحث اور اُن سوالات کو ایڈریس کیا گیا ہو جو واقعی جدید تناظر میں مذہبی نقطئہ نگاہ سے قابلِ اعتنا ہیں کو بیان کیا گیا ہو تو ضرور مجھ سے شیئر کریں۔
جواب:ڈیجیٹل کرنسی کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر اس سے قرض ہی دے کر اضافہ لیں تو وہ سود ہی ہے اور اگر ایسا نہ ہو بلکہ جائز اشیا کی خرید و فروخت کر رہے ہوں اور اس میں پرافٹ ہمیں دیں تو بالکل جائز ہے۔
سوال: میرا سوال آن لائن ڈراپ شپنگ سے متعلق ہے ۔ عام طور پر آجکل ایمازون کے ویئر ہاؤسز میں کوئی چیز پڑی ہے اور میں وہ چیز اپنی ویب سائٹ پر لگا دیتا ہوں بیچنے کے لیے۔اس طرح کسٹمر مجھے پیسے ادا کرے گا اور میرا کام ایک مڈل مین کی طرح ہو گا۔
بظاہر اس میں کوئی چیز حرام نہیں لگ رہی لیکن ہمارے اسلامی اسکالرز کا ایک طبقہ اسے حرام قرار دیتا ہے اور اسکی دلیل میں وہ حدیث پیش کی جاتی ہے جس میں رسول اللہ نے فرمایا کہ وہ چیز بیچنا جائز نہیں جو آپ کی ملکیت نہیں ہے۔ اس حدیث کی بنا پر یہ آن لائن تجارت حرام یا ناجائز قرار دی جاتی ہے۔ ذیل میں آپ کو لنک بھی بھیج رہا ہوں جہاں اس پر مکمل فتویٰ موجود ہے کہ یہ حرام ہے۔ ذیلی لنک میں دیا گیا فتویٰ بغور پڑھیے گا اس میں احادیث کے ریفرنسز بھی موجود ہیں۔ اس بارے میں بھی رہنمائی فرمائیے گا کہ اس حدیث کا مدعا کیا ہے اور یہ کس دلیل کی بنا پر حرام قرار قرار دیتی ہے؟ جہاں تک میرے علم میں ہے اسلام میں اصولاً صرف سود حرام ہے ۔۔ باقی چیزیں اگر کسی طرح سود ہوں پھر حرام ہوں گی۔ اس بارے میں مکمل رہنمائی فرما دیں۔۔
جواب: اس حدیث کا مطلب غلط سمجھ لیا گیا ہے۔ حدیث میں اس کےسیاق و سباق کو سمجھنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں خرید و فروخت کا سلسلہ ایگریکلچر پراڈکٹس کے لیے مڈل مین کی صورت ایسی بنتی تھی کہ خریدا ابھی کچھ نہیں اور سیل شروع کرتے تھے۔ اس کا طریقہ یہ بنتا کہ وہ کیش لے لیتے، پھر وہ گاؤں میں جا کر خرید کر چیزیں انہیں کسٹمر کو دے دیتے تھے۔ اس حدیث میں اس سے منع فرمایا کیونکہ اس میں چانس تھا کہ کسٹمر پر فراڈ بھی ہو جاتا تھا یا پھر یہ ہوتا کہ جو پراڈکٹ دی، اس کی کوالٹی اچھی نہیں ہوتی۔ اس میں پھر آپس میں مقدمہ ہی شروع ہوتا اور آپس میں لڑائے جھگڑے ہوتے تھے۔ ایمازون سٹور پر اگر وہی صورتحال بن جاتی ہے، تو یہ حدیث ا س سے متعلق ہو جائے گی۔ ہاں اگر قانونی طور پرآپ کا کنٹرول اس پراڈکٹ پر ہے تو پھر آپ بالکل بیچ سکتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ پراڈکٹ جائز ہونی چاہیے، کسی حرام اشیا جیسے شراب وغیرہ کی خرید و فروخت حرام ہی ہے۔
میں نے ایمازان میں تجربہ نہیں کیا ہے، اس لیے کہہ نہیں سکتا کہ اس میں فراڈ یا لڑائیوں کی صورتحال بن سکتی ہے یا نہیں۔ یہ دیکھا ہے کہ کئی کاٹن کمپنیوں نے اپنی ویب سائٹ بنائی ہوئی ہیں اور وہ اپنے ویئر ہاؤس سے کپڑے بیچتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے اور حدیث سے متعلق یہ معاملہ بھی نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ پراڈکٹ کی شکل ویب سائٹ میں جو دکھاتے ہیں، اس کی بجائے مختلف کوالٹی کی بھیج دیں تو پھر یہ فراڈ ہو گا۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ صرف سود ہی حرام نہیں ہے بلکہ ہر وہ ٹرانزیکشن حرام ہے جس میں کسی کا نقصان کیا جا رہا ہے۔ اس کی دو مثالیں قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں، سود اور جوا۔ نقصان کی مزید ہزاروں شکلیں بن سکتی ہیں۔ اسی وجہ سے حدیث میں اس صورتحال سے منع فرما دیا تھا کہ دیہاتیوں سے راستے میں ہی نہ خریدیں بلکہ انہیں مارکیٹ تک آنے دیں، پھر خریدیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بعض لوگ شہر سے پہلے روڈ میں قافلے کی تمام چیزیں سستی خرید لیتے اور پھر مارکیٹ میں جا کر مہنگی بیچتے تھے۔ اس میں پھر دیہاتی لوگوں کے ساتھ زیادتی ہی تھی کہ ان کی اشیا کو سستی خرید لیتے۔ اس لیے منع فرمایا گیا تاکہ مارکیٹ میں صحیح پرائس بن جائے جو ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کی بنیاد پر ہی قیمت بنتی ہے۔
سوال: آجکل بینکنگ جو چل رہی ہے وہ اس اصول پر ہے کہ میں اپنی رقم بینک میں رکھواتا ہوں اور بینک مجھے ایک معین مقدار میں ماہانہ یا سالانہ نفع دیتا ہے اور میری اصل رقم بھی محفوظ رہتی ہے۔ ہمارے اکثر علماء اسے سود قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں نفع کی مقدار اور مدت کا تعین ہے اور یہ اصل رقم پر اضافہ بھی ہے لہذا یہ سود کہلایا ۔۔
لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا آپ جو پیسا بینک میں رکھواتے ہیں بینک اس سے کاروبار کرتا ہے لہذا یہ ایک طرح کی انویسٹمنٹ ہوئی آپ کا پیسا گردش میں رہتا ہے اور اس کاروبار سے جو نفع حاصل ہوتا ہے وہ آپکو ادا کیا جاتا ہے اس لیے یہ سود نہ ہوا میرے خیال سے۔ لیکن یہاں بھی ایک الجھن ہے کہ ہم نے اس صورت میں بھی نفع کی مقدار متعین کی ہوئی ہے۔حالانکہ کاروبار تو پرافٹ آر لاس شیئرنگ کے اصول پر چلنا چاہیے۔مندرجہ بالا دونوں صورتِ حال کی وضاحت فرمائیں اور سود کی صحیح تعریف بتائیے اور موجودہ بینکنگ سسٹم پر اِس کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر ہوتا ہے تو کس طرح ہوتا ہے؟ تفصیلاً بیان کیجئے گا شکریہ۔
جواب: اس کے لیے آپ بینکنگ اور انشورنس کمپنیوں کے بارے میں میری یہ تحریر دیکھ لیجیے جس میں مختلف اہل علم کی ریسرچ اور ان کے دلائل تقابلی مطالعہ کے لیے لکھ دیے ہیں اور لیکچرز بھی حاضر ہیں۔
سود ، جدید اکنامکس اور فنانس کے متعلق لنکس
دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات ۔۔۔ اکنامکس، سوشیولوجی، سیاست اور نمازیں
FQ17-Modern Questions in Fiqh – Economics, Sociology, Political Sciences & Prayers
قرآن مجید، احادیث اور تورات میں سود سے متعلق احکامات
FQ18-Interest according to the Quran, Turah & Hadith
مہاجنی سود اور کمرشل بینکوں میں سود کا فرق
FQ19-Usury Mahajan Sood & Banking Commercial Interest
اسلامی بینکنگ میں اختلافات ۔۔۔ لیزنگ، مارٹگیج اور مرابحہ
FQ20-Financial Investment in Banking – Leasing Mortgage & Murabaha
انشورنس سے متعلق مذہبی علماء کا نقطہ ہائے نظر
FQ21-Financial Investment in Insuranc
مسلم فائنانس اداروں میں اکاؤنٹنگ اور آڈٹ کا نظام کیسا ہونا چاہیے؟
FQ22-Accounting & Auditing Standards in Muslim Financial Institutions
دور جدید کی صنعت، سروسز ، سافٹ وئیرز اور انفارمیشن ایج میں زکوۃ کیسے ادا کرنی چاہیے؟
FQ23-Zakat in Industry, Services Income & Information Age
مال اور بزنس کی خریدوفروخت سے متعلق قوانین
FQ24-Assets & Transactions
اکنامکس اور فائنانس(Economics & Finance)
روایتی فقہاء اور دور جدید کے فقہاء کا نقطہ نظر ۔۔۔ پیپر کرنسی، پرائز بانڈز، کاپی رائٹس، انٹیل کچوئل رائٹس، رباء النسیئہ اور رباء الفضل
FQ45-Paper Money, Prize Bonds, Intellectual Property Rights & Interest
روایتی فقہاء اور دور جدید کے فقہاء کا نقطہ نظر ۔۔۔ خیار مجلس، مزارعت، حق شفعہ، بیع عینہ، جانوروں پر سیکس کا کرایہ، حیلہ شرعی
FQ46-Economics & Financial Transactions – Agricultural Transactions & Heela Trick to Avoid
روایتی فقہاء اور دور جدید کے فقہاء کا نقطہ نظر ۔۔۔ آن لائن کمپنیاں، بیعانہ کو ضبط کرنا، ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ، فراڈ، الکوحل کا استعمال، بیع سلم، ایڈورٹائزنگ اور پروفیشنل کوڈ آف ایتھکس
FQ47-Financial Transactions – Online Profit, Token Money, Fraud & Code of Ethics
بینک، فلم، ڈرامہ اور جاسوسی میں جاب جبکہ جعلی سرٹیفیکیٹ سے متعلق دین میں احکامات
FQ48-Economics Transactions Questions – Jobs in Banking, Film, Drama, Spying & Fake Documents
روایتی فقہاء اور دور جدید کے فقہاء کا نقطہ نظر ۔۔۔ ہیجنگ، فیکٹرنگ اور اینڈ آف سروسز فوائد سے متعلق دین میں احکامات
FQ49-Financial Transactions Questions – Hedging Factoring & End of Service Benefits
وراثت سے متعلق سوالات کا جواب ۔۔۔ عول، وصیت، عاق اور یتیم پوتے کی وراثت
FQ50-Economics Transactions Questions – Inheritance about Will, Disinheritance & Benefit of Orphan Grand Children
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com