السلام علیکم! جناب میرے سوالات سوشل سائنسز سے متعلق ہیں۔ سر قران پاک میں مرد کو قوام مقرر کیا گیا ہے یعنی کے فیملی کے ادارے کا سربراہ۔ اور نان نفقہ کی ذمہ داری بھی مرد پر ڈالی گئی ہے۔ عرب کلچر ایک پیٹریکل تھا، لہذا اس میں یہ حکم دیا گیا جبکہ آج جبکہ سوشل سائنسز نے ترقی کر لی ہے اور مرد و عورت کی تقسیم بھی ختم ہو گئی ہے اور سوشل سائنٹسٹ یہ بھی کہتے ہیں کہ کا تصور کوئی ایسا تصور نہیں ہے جو کہ بچہ پیدا ہونے کے ساتھ لیکر آتا ہے۔ بلکہ جینڈر تو بچے کو (خواہ لڑکا ہو یا لڑکی) سوسائٹی اسائن کرتی ہے۔
مثال کے طور پر پاکستان کی خواتین اور مغرب میں مقیم پاکستانی خواتین کے رولز میں کافی فرق ہے جو کہ ظاہر ہے کہ سوسائٹی کے فرق کی وجہ سے ہی ہے کہ وہاں کی سوسائٹی نے انھیں جو رول اسائنز کیے، اُنھوں نے اپنا لیا اور پاکستان میں جو اسائن کیا پاکستانی خواتین نے اپنا لیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرانی شریعت جو کہ ابدی ہے اور ہر زمانے کے انسانوں کے لیے قابلِ عمل ہے تو آج کی یہ سوشل سائنسز نے جینڈر ایکوئلٹی کو ایک مسلمے کے طور پر منوا لیا ہے تو کیا ایسا نہیں لگتا کہ قرانی احکامات کی نوعیت ابدی نہیں بلکہ وقتی ہے؟
اگر ایسا ہے تو کیا ہم قران کو صرف ایک خاص دور کے تناظر میں ہی دیکھنے کے لیے مجبور نہیں ہو جائیں گے؟
کیا اس طرح کے تصورات سے جو کہ ماڈرن ذہن قبول نہیں کر رہا، ان سے قران پاک کی آفاقیت مجروح نہیں ہو رہی؟
قوام والے حکم کی صحیح نوعیت بھی واضح کر دیں۔
براہ کرم ان سوالات کا مفصل جواب ارشاد فرمائیں۔
دعا گو!
محمد ثوبان
جواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بھائی آپ نے موجودہ دور کے لحاظ سے بہت مفصل سوال پوچھا ہے اس لئے میں آپ کے سوال کے ہر جز کا الگ الگ جواب تحریر کررہا ہوں۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید کی شریعت تو ہر دور، ہر تہذیب اورعلاقے کے لوگوں کے لیے ہے۔ زیادہ ترادوار اور کلچر میں خاندان کی ذمہ داری شوہر ہی کی رہی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔
موجودہ زمانے میں جب خواتین کے اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں تو اس ذمہ داری کا تعلق میاں بیوی کے باہمی معاہدے پر ہے۔ اصول وہی ہے کہ شوہر معاشی ذمہ دار ہے۔ لیکن بجٹ اور ضروریات کو مینیج کرنے کے لئے اگر میاں بیوی باہمی طور پر کوئی معاہدہ کرلیتے ہیں اور معاہدے کے وقت بیوی کہتی ہے کہ وہ بھی معاشی ذمہ داری لے گی تو قرآن مجید کا اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس لیے میاں بیوی اگر اس پر معاہدہ کر لیتے ہیں کہ فلاں فلاں معاملات میں بیوی ذمہ داری لے رہی ہے تو اللہ تعالی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
شریعت میں اصول یہی ہے کہ عموماً ذمہ داری شوہر کی ہے۔ لیکن اگر بیوی اس ذمہ داری کو شوہر سے نہیں لینا چاہتی تو اس کی مرضی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے حکومت کی جانب سے آپ کو سیلری دی جا رہی ہے اور آپ اپنی آزادانہ مرضی سے معاہدہ کر لیں کہ آپ سیلری نہیں لینا چاہتے تو اس پر حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ قرآن مجید کے مطابق لوگوں سے حقوق کو چھین لینا حرام ہے۔ لیکن اگر لوگ آزادانہ مرضی سے اپنے فائدے کو نہیں لینا چاہ رہے تو حکومت کو اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن ایسی استثناء میں طریقہ پھر یہی ہوگا کہ دونوں فریق معاہدے کو قانونی طور پر لکھ لیں تاکہ اگر اختلاف پیدا ہو اور معاملہ عدالت تک پہنچے تو عدالت اس تحریرپر فیصلہ کر سکے۔
آپ کے سوال کا جز 1۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرانی شریعت جو کہ ابدی ہے اور ہر زمانے کے انسانوں کے لیے قابلِ عمل ہے تو آج کی سوشل سائنسز نے جنڈر کوالٹی کو ایک مسلمے کے طور پر منوا لیا ہے تو کیا ایسا نہیں لگتا کہ قرانی احکامات کی نوعیت ابدی نہیں بلکہ وقتی ہے؟
جواب: قرآن مجید کی شریعت میں اکثر اصول جسے پالیسیز دے دئے گئے ہیں۔ اس پر پریکٹیکل عمل پروسیجر کو انسانوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے زمانے میں ان اصولوں پر عمل کروایا ہے اور اس کو “سنت” بنا کر مقرر کر دیا ہے جو ہردور او رہر کلچر میں اپلائی ہو جاتی ہے۔ جہاں تک دین کی پالیسی اینڈ پروسیجرز موجود ہیں اور وہی ابدی ہے۔ قرآن مجید کے مطابق مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ سب برابر ہیں اور ان پر قرآن و سنت کے احکامات یکساں لاگو ہوتے ہیں۔
اب اگلا مرحلہ یہ آیا ہے کہ مختلف کلچر اور ادوار میں فقہاء نے اجتہاد کر کے اسے اپنے اپنے علاقے میں اپلائی کیا ہے۔ یہ ابدی نہیں ہو سکتا ہے بلکہ ہر کلچر اور ہر ٹائم میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے مثلاً مغل سلطنت میں اورنگ زیب عالمگیر صاحب نے فتاوی عالمگیریہ کی شکل میں پروسیجرز بنا دیے تھے۔ اب وہ صورتحال ہی بدل گئی ہے تو اس لئے اب انفارمیشن ایج میں نئے پروسیجرز بنائے جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے معاشی مثالیں بھی آپ دیکھ سکتے ہیں جس میں فقہاء اب بھی اجتہاد کر رہے ہیں۔
علامہ اقبال نے اسی موضوع کی اپنے لیکچرز میں لسٹ بنا دی تھی جس میں تبدیلیوں کی ضرورت انہوں نے 1939 میں سمجھی تھی۔ اب مزید تبدیلیوں کی ضرورت ہے، جو کہ صرف پروسیجرز میں ہی ہوسکتی ہے۔ قرآن مجید کے اصولوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ میرے ان لیکچرز کو دیکھ سکتے ہیں جس میں بہت سی موجودہ مثالیں تک حاضر ہیں۔
دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز
قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز
(Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب ۔۔۔ سیاست
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر
Methodology of Religious Thought & Law اصول الفقہ
قدیم زمانے میں اصول الفقہ کی پہلی کتاب ۔۔۔ الرسالہ از امام شافعی
سوال کاجزو 2۔ اگر ایسا ہے تو کیا ہم قران کو صرف ایک خاص دور کے تناظر میں ہی دیکھنے کے لیے مجبور نہیں ہو جائیں گے؟
جواب: جی نہیں۔ اصول میں کبھی تبدیلی نہیں آتی ہے البتہ پروسیجرز میں تبدیلی آتی ہے۔ اس کی مثال کے طور پر آپ اس اصول کودیکھ لیجیے کہ قرآن مجید کے مطابق دوسروں کے معاش اور آمدن پر قبضہ حرام ہے۔ اب اس ناجائز قبضے کی ہر دورمیں ہزاروں شکلیں ملتی ہیں جیسے فراڈ، کرپشن، چوری، آن لائن فراڈ وغیرہ۔ قرآن مجید کا یہ اصول ہزاروں شکلوں پر اپلائی ہو جاتا ہے۔ دوسری مثال فیملی کے قانون کو دیکھ لیجیے جو قرآن و سنت میں ہے۔ اس کو بھی آپ اپنے دور میں اپلائی کر لیجیے تو صورتحال تبدیل ہو جائے گی لیکن اصول وہی رہے گا جو قرآن و سنت میں ہے۔
سوال کاجزو 3۔ کیا اس طرح کے تصورات سے جو کہ ماڈرن ذہن قبول نہیں کر رہا، ان سے قران پاک کی آفاقیت مجروح نہیں ہو رہی؟
جواب:اس دور کا ماڈرن ذہن واقعی اسے قبول نہیں کر رہا ۔ اس مسئلے کو میں بھی کوئی پینتیس سال تک سوچتا رہا تھا۔ آخر میں رزلٹ یہی نکلا کہ ماڈرن ذہن میں اس لیے شبہات پیدا ہو رہے ہیں کہ قدیم زمانے میں فقہاء اور دیگر اہل علم نے جو اجتہادات کیے تھے وہ اپنے زمانے کے لحاظ اور ضروریات کے مطابق تھے، ان میں سے بہت سے اجتہادات اب ویلیڈ نہیں رہے۔ اگر انہیں پالیسی یعنی قانون تک محدود رکھا جائے جو قرآن و سنت میں ہے تو پھر ماڈرن ذہن کے لئے کوئی ایشو نہیں بنتا ۔ جدید ذہن کے شبہات کی عمومی وجہ پرانے اہل علم کے کام میں ہے جو کہ ان کے اپنے زمانے کے لحاظ سے قابل عمل تھا۔ اگراُس کو چھوڑ دیا جائے اور قرآن و سنت میں بیان کردہ اصول و قوانین کو موجودہ زمانے میں اجتہاد کرکے خوداپلائی کر لیا جائے تو کوئی ایشو ہی نہیں ہے۔
سوال کاجزو 3۔ قوام والے حکم کی صحیح نوعیت بھی واضح کر دیں۔
جواب: لفظ “قوام” کا معنی ہے کہ گھر کی فیملی کے ہیڈ کی ذمہ داری۔ قرآن مجید کے اصول میں بتا دیا گیا ہے کہ یہ معاشی ذمہ داری شوہر پر ہے کہ وہی قوام ہے۔ موجودہ زمانے میں آپ خود دیکھ لیجیےخواتین خود اپنی مرضی سے ذمہ داری پکڑنا چاہ رہی ہیں تو قرآن مجید کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ قرآن مجید کا اعتراض تب ہو گا جب شوہر زبردستی اپنی بیگم کو معاشی ذمہ دار بنا دے۔ اگرایسا نہ ہو بلکہ بیگم اپنی مرضی سے ذمہ داری لے رہی ہے تو لے لے۔
سائل: بہت شکریہ سر!مطلب یہ کہ قران پاک نے اسے ایک ابدی اصول کی صورت میں قائم کیا ہے کہ مرد گھر کا سربراہ ہے اور اگر خواتین گھر کی ذمہ داری سنبھالنا چاہتی ہیں تو قران اس میں مانع نہیں ہے۔ اور اس میں میری نظر میں ایک حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مرد پر کمائی کی ذمہ داری اس لیے ڈالی گئی ہے کہ مرد کے لیے معاش کرنا آسان ہے اگر یہ ذمہ داری مرد پر نہ ڈالی جاتی تو پھر شاید مرد اپنے آپ کو اس ذمہ داری سے مبرا سمجھتے اور خواتین کو مجبور کرتے کہ تم بھی کما کر لاؤ۔ ظاہری بات ہے کہ ہر خاتون کو روزگار میسر نہیں آتا ہے۔ اس لیے یہ اندیشہ تھا کہ کہیں قحبہ گری کا پیشہ عام نہ ہو جائے کیونکہ جب مرد گھر میں عورت کو مجبور کرے گا اور عورت ہنر مند نہیں تو یہ ہی ایک طریقہ بچتا ہے جو وہ اختیار کرے گی معاذاللہ !
جواب: اس حکم کی جس حکمت کا آپ نے تجزیہ کیا ہے، وہ بالکل درست ہے۔ قرآن مجید جب نازل ہوا، اس وقت ایگریکلچر ایج تھی اورا س میں بڑا مشکل کام تھا کہ خواتین اکیلی کھیتوں میں جا کر کام کریں۔ اس کے لیے آپ ہزاروں کیس اسٹڈیز پڑھ اور سن سکتے ہیں جس میں خواتین کھیتوں میں کام کے لئے نکلیں تو ان پر حملے ہوئے۔ احادیث میں بھی وہ کیس بیان ہوئے ہیں کہ خواتین صبح یا شام میں کھیتوں میں جا کر رفع حاجت کرتی تھیں اور منافقین نے انہیں تنگ کیا اور بعد میں ریپ بھی کیے۔ خود پاکستان میں ایسے کیسز آپ انسپکٹر ملک صفدر حیات صاحب کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں بھی یہ ممکن ہے کہ خواتین جاب کے لیے اکیلی آفس تک جائیں تو تب بھی ان پر حملے ہو سکتے ہیں۔ فیکٹریز اور میڈیا کی جاب میں ہراسمنٹ کے حملے تو اب بھی ہوتے ہیں لیکن نسبتاً کچھ بہتر حالت ہو گئی ہے ورنہ پچھلی صدی میں یہی مسئلہ رہا ہے۔ اس لیے گھر کی ذمہ داری شوہر ہی پر رکھ دی گئی ان پر اتنے حملے نہیں ہوتے ۔ اللہ تعالی نے اسی لیے خواتین پر ذمہ داری نہیں ڈالی۔ اب اگر وہ خود محنت کرنا چاہیں تو ان کی اپنی مرضی ہے لیکن اللہ تعالی کی شریعت میں ان پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
سائل: دوسری حکمت میری نظر میں یہ ہے کہ آج جو جینڈر کوالٹی کا تصور ہے وہ یہ ہے کہ خواتین کو روزگار کے یکساں موقع میسر آسکیں لیکن خاندان کا ادارہ تو آج بھی قائم ہے جس کی بنیاد کو قائم و دائم رکھنے کے لیے مذہب نے یہ حکم دیا کہ مرد قوام ہے اور عورتوں پر گھر کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ گویا کہ مذہب کے پیشِ نظر یہ ہے کہ خاندان تباہ نہ ہو اور کہیں مر دو عورت اپنی ذمہ داریوں میں افراط و تفریط کا شکار نہ ہو جائیں۔ اس لیے یہ کہا کہ جو مرضی کرو لیکن یہ ادارہ اسی طرح قائم رہنا چاہیے چنانچہ اس میں سربراہ کا ہونا ضروری ہے۔۔
جواب: اس کے لیے آپ اچھی کیس اسٹڈیز امریکہ اور یورپ کے غیر مسلم سوشل اسکالرز کی کتابوں اور آرٹیکلز میں پڑھ سکتے ہیں۔ جب خواتین اور مرد دونوں پر ذمہ داری لگا دی گئی تو اس کے نتائج کیا سامنے آئے ہیں؟ وہاں خواتین کی بڑی اکثریت پھر بچہ ہی پیدا نہیں کرنے دیتیں کہ انہوں نے جاب کرنی ہے۔ اس وجہ سے وہاں فیملی کا ادارہ ہی نہیں بنتا ہے۔ مرد و خواتین شادی نہیں کرتے بلکہ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا تعلق رکھتے ہیں اور پھر جب چاہیں، علیحدگی بھی کر لیتے ہیں۔
اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے شادی کو قانونی طور پر اتنا مشکل بنا دیا ہے کہ مرد و عورت غیر قانونی تعلق قائم رکھتے ہیں۔ شادی میں تو اتنی مشکل ہے کہ شوہر یا بیوی جس نے بھی طلاق دی، اسے اپنی بچت اور گھر کو تقسیم کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں بچے کم پیدا کرتے ہیں، تبھی وہ ہم لوگوں کو امیگریشن کرواتے ہیں تاکہ جوان لوگ ان کے پاس آئیں، جو ان کے کام کریں اور معاش کے طور پر ان کے بزرگوں کی خدمت کریں۔ اب ان کے بزرگوں کی عمر بھی زیادہ ہوتی ہے اور ان کی خدمت کے لیے حکومت کو خرچ کرنا پڑتا ہے تو وہ پھر نوجوانوں سے ٪40ٹیکس بھی لے لیتے ہیں۔ میری ملاقات یورپی اور امریکی کولیگز سے ہوئی تو میں نے پوچھا کہ آپ اپنے ملک کو چھوڑ کر سعودی عرب میں جاب کیوں کر رہے ہیں؟ کہنے لگے کہ ان کے ملک میں ٹیکس بہت زیادہ ہے جبکہ سعودی عرب میں ٹیکس فری آمدنی ہے۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com