سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبشر بھائی
کیا بغاوت کی سزا اسلام میں قتل ہے؟ اور اسی طرح کیا ارتداد اور گستاخ رسول کی سزا بھی قتل ہی ہے ؟
محمد جعفر، گوکک، کرناٹک، انڈیا
جواب: وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ بھائی
بغاوت کی سزا تو سورۃ المائدہ میں بیان ہوئی ہے، جسے اللہ تعالی نے بیان کر دیا ہے۔اس سزا کا تعلق اس شخص کے ساتھ ہے جوحکومت کو نہ مانے اور پھر بغاوت اور دہشت گردی وغیرہ شروع کر دے۔
إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ۔ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ۔
[!اے رسول]
(انہیں بتا دیا جائے کہ) جو اللہ تعالی اور اُس کے رسول سے لڑیں گے اور اِس طرح زمین میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کریں گے،اُن کی سزا پھر (ان کے جرم کی نوعیت اور صورتحال کو دیکھ کر اس میں سے کوئی بھی ایک سزا) یہی ہے کہ
عبرت ناک طریقے سے قتل (مثلاً سنگسار) کیے جائیں۔
یا سولی پر چڑھائے جائیں۔
یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں بے ترتیب کاٹ دیے جائیں۔
یا انہیں علاقہ بدر کردیا جائے(مثلاً جیل میں پھینک دیا جائے۔)
یہ اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے ایک بڑا عذاب ہے۔
مگر اُن کے لیے نہیں جو آپ کے قابو پانے سے پہلے توبہ کرلیں۔ (اُن پر زیادتی نہ کیجیے گا اور) اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اللہ تعالی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ہمیشہ کے لیے ہے۔ [المائدة: 33، 34]
رہا دین سے مرتد ہو جانا اور گستاخ رسول وغیرہ تو اس پر کچھ فقہاء نے اجتہاد کیا ہے اورانہوں نے اس پربغاوت والی آیت کو اپلائی کیا ہے۔جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اس کا کوئی قانون نہیں تھا بلکہ جنہوں نے ارتداد کیا تھا تو سورۃ توبہ میں اہل عرب کے لیے اللہ تعالی کی سزا کے مطابق انہیں قتل کیا گیا تھا۔ فقہاء نے اپنے زمانے میں اسی کو اپلائی کر دیا تھا کیوں کہ وہی اس دور میں قانون سازی کر رہے تھے اور انہوں نے اللہ تعالی کی رسول کے انکار والی سزا کو اپنے زمانے میں ساری قوموں پر اپلائی کر دیا۔ وہ آیت یہ ہے؛
فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ۔ وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ۔
(بڑے حج کے دن) اِس (اعلان)کے بعد جب حرام مہینے (ذوالقعدہ، ذو الحج اور محرم) گزر جائیں تو اِن مشرکوں کو جہاں پائیں، قتل کر دیجیے گا اور اِس مقصد کے لیے اِن کو پکڑیں، اِن کو گھیریں اور ہر گھات کی جگہ اِن کی تاک میں بیٹھیے گا۔ پھر اگر یہ توبہ کر لیں، نمازکا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اِن کی راہ چھوڑ دیجیے گا۔ یقینا اللہ تعالی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ہمیشہ کے لیے ہے۔اگر (اِس پولیس ایکشن کے موقع پر) اِن مشرکوں میں سے کوئی شخص آپ سے امان چاہے (کہ وہ آپ کی دعوت سننا چاہتا ہے) تو اُس کو امان دے دیجیے گا۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالی کا کلام سن لے۔ پھر اُس کو اُس کے علاقے تک پہنچا دیجیے گا۔ یہ اِس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو (اللہ تعالی کی باتوں کوزیادہ) نہیں جانتے۔ (التوبہ5-6)
اس آیت کی تفسیر میں فقہاء کا اختلاف موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخاطب قوم کو جو سزا دی گئی تھی، آیا کہ اسے ہم بھی اپلائی کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اس میں آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں ۔ موجودہ زمانے میں سیاسی اور عسکری تحریکوں کے علماء نے اس سزا کو اپلائی بھی کیا ہے، جس میں مثلاً جماعت اسلامی، اخوان المسلمون، طالبان، القاعدہ اور اب تک خراسانی تحریک والے بھی اپلائی کر رہے ہیں۔ قدیم زمانے میں بغاوت والی تحریکوں نے بھی یہی دلیل پیش کی تھی۔ اس کے علاوہ مختلف فرقوں کے علماء اسی دلیل کو اپنے علاوہ دوسرے فرقے والوں پر اپلائی کرتے ہیں۔
اس پر اختلاف کرنے والوں میں وحید الدین خان صاحب اور جاوید احمد غامدی صاحب بھی ہیں۔ انہوں نے اس پر تنقید کی ہے اور ثابت کیا ہےکہ اس حکم کا تعلق تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا، کیونکہ یہ ان کے پیغام کا نتیجہ تھا۔ اس لئے کہ رسول کے انکار پر اللہ تعالی یہ سزا ہمیشہ دیتا رہا ہے کہ کبھی فرشتوں اور کبھی اہل ایمان کے ہاتھوں سزا دی گئی تھی۔ لہذا اس میں ہمیں اجازت نہیں ہے۔
ان دونوں گروہوں کے دلائل آپ میری کتاب مسالک کا تقابلی مطالعہ ماڈیولز 6 اور 7 میں پڑھ سکتے ہیں اور آپ فیصلہ کر سکتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ 1750 سے لے کر آج تک یہ عسکری تحریکیں موجود ہیں جو اس پر عمل کر رہی ہیں۔ لیکن نتیجہ یہی نکلا ہے کہ انہیں کبھی کامیابی نہ ہوئی ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بڑی کامیابی ہوئی ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com