سوال: وہ مسلمان جو ہولی میں کردار ادا کرتے ہیں یا کسی بھی غیر مذہب کے تہوار خوش ہوکر اجوائے کرتے ہیں ان کے لئے کوئی حدیث بتائیں؟
جواب:جہاں تک غیر مسلم حضرات کے کلچر کا تعلق ہے، تو ان کے تہوار میں دیکھ لینا چاہیے کہ وہ کوئی مذہبی تہوار ہے یا محض دنیاوی تہوار ہے؟ اگر مذہبی تہوار ہے تو اس میں ہمیں اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ ان میں مذہب کے تصورات موجود ہوتے ہیں۔ جہاں دنیاوی تہوار ہے جیسے انڈیا میں موسم کا تہوار بسنت، بیساکھی وغیرہ ہوتا رہا ہے، جس کا تعلق کھیت کی کٹائی کے موقع پر ہوتا ہے تو اس میں بس یہ دیکھ لینا چاہیے کہ اس میں شرک یا غیر اخلاقی عمل تو نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر اس تہوار میں شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر غیر اخلاقی حرکتیں ہوں تو پھر اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
مذہبی تہوار میں عموماً کوئی مشرکانہ یا غیر اسلامی حرکتیں ہوتی ہیں، اس لیے ہمیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ہاں اگر ایسا نہ ہو تو پھر غیر مسلموں کو محض ویلکم وغیرہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسلمانوں میں یہ رسمیں اس طرح ایجاد ہوئیں کہ جو لوگ انڈین کلچر میں غیر مسلم تھے، جب وہ ایمان لائے تو مسلمان ہو گئے۔ لیکن انہوں نے اپنی رسمیں جاری رکھیں۔ اس زمانے کے فقہاء نے یہ سوچا کہ چلو ان رسموں کی کوئی اور شکل ایجاد کر کے پھر اس رسم کو اسلامائیزیشن کر لیں۔ چنانچہ انہوں نے ہولی کی جگہ شب برات ایجاد کر لی۔ عادتیں وہی رہیں جو پہلے تھیں، بس صرف انہوں نے نام تبدیل ہی کر دیا۔
اس میں آپ خود چیک کر لیجیے کہ غیر مسلموں کی کونسی مذہبی رسمیں موجود ہیں اور مسلمانوں میں وہ شکل کونسی بن گئی ہے؟ اب مسلمانوں میں کوئی دینی رسم ایجاد ہو گئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اختیار نہیں کی تو پھر یہ بدعت ہے اور اس سے ہمیں بچنا چاہیے۔ اگر دین سے متعلق نہیں بلکہ محض دنیاوی رسم جیسے بسنت، بیساکھی وغیرہ ہیں تو انہیں اخلاقی اعتبار سے چیک کر کے ہی انہیں اختیار کرنا چاہیے تاکہ کسی انسان کو نقصان نہ پہنچے۔
بدعت کے بارے میں احادیث مختلف کتابوں میں موجود ہیں۔ ان کی کچھ حاضر ہیں اور اکثر جمعہ کے خطبہ میں سنائی جاتی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ ہے اور بدترین کام دین میں نئی چیز (بدعت) ایجاد کرنا ہے اورہربدعت گمراہی ہے۔(صحیح مسلم:۸۶۷)
ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے۔(سنن نسائی:1549)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم میرے اور میرے خلفاء راشدین کے طریقے کو مضبوطی سےپکڑلینا او ردین میں نئے نئےکام (بدعات) ایجاد کرنے سے بچنااس لئے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔
(ابن ماجہ:43)
اس لیے دین سے متعلق جو بھی نئی رسم یا کوئی اور عمل ہو تو اس سے ہمیں بچنا چاہیے۔ اگر محض دنیاوی معاملہ ہے اور اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دنیاوی مثال یہ ہے کہ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلحے کے طور پر تلوار استعمال کرتے تھے، سواری کے طور پر گھوڑا یا اونٹ استعمال کرتے تھے۔ اس میں آپ نے کسی صحابی کو یہ حکم نہیں دیا کہ قیامت تک صرف اونٹ، گھوڑا اور تلوار تک ہی استعمال کریں اور کچھ اور استعمال نہ کرنا۔ ایسا چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں فرمایا ہے تو یہ دینی معاملہ نہیں ہے بلکہ محض دنیاوی معاملہ ہے ورنہ آپ فرما دیتے کہ کوئی اس میں تبدیلی نہ کرنا۔ اس لیے اس میں ٹیکنالوجی کے ساتھ نئی سواری اور ملٹری میں نئے اسلحے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اس میں غیر اخلاقی عمل نہ ہو۔ اس طرح آپ مزید دنیاوی اشیاء پر غور کر سکتے ہیں کہ یہ بدعت ہے یا نہیں۔
سوال: میں فائنل ائر سوفٹ ویئر انجینئرنگ کا سٹوڈنٹ ہوں، ہماری یونیورسٹی میں مسلمان لڑکیاں ہولی میں حصہ لیتی ہیں اس کے متعلق اسلامی نکتہ نظر سے کہتی ہیں کہ خیر ہے، اتنا تو چلتا ہے، ان کو کس طرح بات سمجھائی جائے؟
جواب: ہم میں سے کسی کو یہ اتھارٹی نہیں ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ بدتمیزی کریں یا کسی پر جبر کریں۔ ہماری ذمہ داری بس اتنی ہے کہ ہم اللہ تعالی کے پیغام کو سب تک پہنچا دیں۔ اس کے لیے زیادہ عمدہ طریقہ یہ ہے کہ ہم بولنے کی بجائے لکھتے ہوئے پیغام بھیج دیں۔ اگر ان کی نیت درست ہو گی تو وہ خود پڑھ کر سمجھ لیں گے اور نیت درست نہ ہوئی تو ان کی ہدایت ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ سب کچھ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اپنے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو سمجھا دیا تھا کہ ان کا دائرہ عمل یہ ہے۔
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ. (القصص: 56)
(یہ اِس کے باوجود نہیں مانیں گے، اِس لیے زیادہ پریشان نہ رہیے، اے رسول) آپ جنہیں چاہیں، ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ تعالی ہی جسے چاہتا ہے (ان کی نیت کے مطابق) ہدایت دیتا ہے اور وہی خوب جانتا ہے کہ اُن کو جو ہدایت پانے والے ہیں۔
سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛ ہم انڈیا میں رہتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت کی جاسکتی ہے؟
اسامہ
جواب: وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ اسامہ بھائی
جہاں تک غیر مسلم حضرات کے کلچر کا تعلق ہے، تو ان کے تہوار میں یہ دیکھ لینا چاہیے کہ وہ کوئی مذہبی تہوار ہے یا محض دنیاوی تہوار ہے؟ اگر مذہبی تہوار ہے تو اس میں شرکت سے ہمیں اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اس میں ان کے مذہب کے تصورات موجود ہوتے ہیں۔
جہاں دنیاوی تہوار ہے جیسے انڈیا میں موسم کا تہوار بسنت، بیساکھی وغیرہ ہوتا رہا ،جس کا تعلق کھیت کی کٹائی کے موقع پر ہوتا ہے تو اس میں بس یہ دیکھ لینا چاہیے کہ اس میں کوئی شرک یا کوئی دیگرغیر اخلاقی عمل تو نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر ایسے تہوار میں شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر غیر اخلاقی حرکتیں ہوں تو پھر اس سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔عموماً مذہبی تہوار بلکہ دنیاوی تہواروں میں کوئی مشرکانہ یا غیر اخلاقی حرکتیں ہوتی ہیں، اس لیے ہمیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
وہ اگر ہمیں آفر بھی کریں، تب بھی محبت کے ساتھ معذرت کر لینا چاہیے۔ ہاں اگر شرک یا غیر اخلاقی حرکتیں نہ ہو تو پھر غیر مسلموں کو محض ویلکم وغیرہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: محترم بھائی، امید ہے کہ مزاج ٹھیک ہوں گے۔ آنے والی رات شب برات ہے جس کی بلاشبہ بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔اس کو شبِ نجات بھی لکھا جاتا، بجٹ والی رات بھی لکھا جاتا، شب رحمت بھی لکھا جاتا۔ مختلف مکتبہ فکر کی جانب سے مختلف طریقوں سے نوافل پڑھنے کے بارے میں تاکید کی جاتی ہے وغیرہ۔ آپ کی تحقیق اور علم اس بابت کافی زیادہ ہوگا۔مستند احادیث مبارکہ کی روشنی میں شب برات کی فضیلت اور اس کے بارے میں رائج رسوم و رواج کی حقیقت سے آگاہ فرمائیے گا، نوازش ہوگی۔
جواب: بھائی آپ کا علمی ذوق بہت شاندار ہے اور آپ کے سوالات بہت عمدہ ہوتے ہیں۔ آپ کے ذہن میں جو سوال پیدا ہوا ہے، اس کا جواب نہ تو میں دے سکتا ہوں اور نہ ہی کوئی بھی عالم دین خواہ وہ کتنا ہی بڑا عالم ہو۔ اس کا جواب تو صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی دے سکتے ہیں۔ اب آپ ﷺ کا جواب ڈھونڈنے کے لیے آپ احادیث کی تمام کتابیں شروع سے آخر تک پڑھتے جائیے لیکن آپ کو صحیح احادیث (قابل اعتماد احادیث) میں اس کا جواب نظر نہیں آئے گا۔
ہاں مختلف علماء نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے، ان کی دلیل آپ خود دیکھ لیجیے اور فیصلہ کر لیجیے۔ آپ کو کچھ ضعیف احادیث میں ایسی بات مل سکتی ہے لیکن اس ضعیف (کمزور) حدیث میں بھی کوئی ٹائم لائن نہیں ملتا ہے تاکہ ہم اس رات کا فیصلہ کر سکیں۔ اس کے لیے آپ بھی خود تجزیہ کر سکتے ہیں ۔ جن اہل علم نے ارشاد فرمایا ہے، ان کے ارشادات آپ ان لنکس میں دیکھ لیجیے۔ پہلے لنک میں تو اہل علم نے اسی موضوع یعنی جعلی احادیث کو اکٹھا کر لیا ہے۔ ان کے ارشاد کو بعد پڑھ لیجیے گا لیکن پہلے صرف احادیث ہی پڑھ لیجیے۔
- https://forum.mohaddis.com/threads/%D8%B4%D8%A8-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%B1%D8%B9%DB%8C-%D8%AD%DB%8C%D8%AB%DB%8C%D8%AA-%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%DB%81%DB%92%D8%9F.35908/
- https://darulifta-deoband.com/home/ur/hadith-sunnah/33900
- https://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D8%B4%D8%A8-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82%D8%AA.52474/
- https://mazameen.com/religion/%D8%B4%D8%A8-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D9%94%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D9%81%D8%B6%DB%8C%D9%84%D8%AA-%D8%A7%D8%AD%D8%A7%D8%AF%DB%8C%D8%AB-%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DA%A9%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1.html
اب آپ کہیں تو میں تجزیہ بھی کر دیتا ہوں۔ مختصر تجزیہ یہ ہے کہ تہجد تو دین کا حکم ہے۔ اسے آپ کسی بھی رات پڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح دعائیں بھی آپ کسی دن رات میں کر سکتے ہیں۔ اس لیے اس 15 شعبان میں پڑھیں تو بھی بالکل درست ہے اور کسی اور دن میں بھی کرنا چاہیں تو تب بھی کرسکتے ہیں۔ صحیح احادیث میں اتنی بات سامنے آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول بیان ہوا ہے کہ آپ شعبان میں رمضان کی تیاری کرتے تھے اور زیادہ کرتے تھے۔ لیکن پوری امت کو کوئی حکم نہیں دیا کہ 15شعبان کی رات میں زیادہ عبادت کریں اور نہیں کریں گے تو آپ کو گناہ ہو گا!
اس سے زیادہ سے زیادہ یہی سامنے آتا ہے کہ پورے شعبان میں عبادت کرتے رہیں تاکہ رمضان کی عادت بن سکے۔ اس کے بغیر بھی آپ عادت پیدا کر سکتے ہیں تو بہت عمدہ ہے اور پریکٹس ابھی کر لیں تو عادت زیادہ اچھی بن جائے گی تو تب بھی بہت عمدہ ہے۔ بس یہ ہے کہ اس میں کوئی خاص عمل کا خاص ٹائم کے ساتھ نہیں فرمایا گیا۔ آپ جب چاہیں، کر سکتے ہیں۔
انڈیا کی ہسٹری میں آپ ویسے پڑھ سکتے ہیں کہ دیوالی کی رات ہندومت میں بہت اہم ہوتی ہے۔ جب ہندواور مسلمان الگ الگ ہو گئے تو انہوں نے اپنی رسم کی شکل یہ اختیار کر لی ہے۔ یہ جو ہم نے شب برات کی رسم اختیار کر لی ہے یہ کافی حد تک دیوالی سے ملتی جلتی ہے۔ ہمیں اس حد تک نہیں جانا چاہئے کہ ان کے مقابلے میں اپنا تہوار ہی بنانا شروع کردیں۔اگر آپ اسی طرح نفل نمازیں اور دعائیں کرنا چاہیں تو وہ صرف 15 شعبان کو ہی نہیں باقی راتوں کو بھی کیا کریں اگر اس دوران 15 شعبان بھی آجائے تب بھی جاری رکھیں۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com