قرآن مجید میں جن دو سمندروں کا تذکرہ کیا گیا ہے اس سے کونسا سمندر مراد ہے ایک میٹھا اور ایک کھارا۔ سفر نامہ ترکی میں اے سب تفصیل ہے کیا؟
محمد جعفر، گوکک، کرناٹک، انڈیا
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ جعفر بھائی
یہ بالکل اس ترکی سفرنامہ میں میں نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اسی سفر میں پھر حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے پہاڑ کو بھی دیکھا اور وہیں سے اندازہ ہوتا ہے کہ بائبل کی تاریخ میں درست بات لگتی ہے کہ ان کے تینوں بیٹوں کی نسل کو مختلف زرخیز علاقوں میں سیٹل کیا گیا۔
قرآن مجید میں جناب ذو القرنین رحمتہ اللہ علیہ کے سفر کا ذکر ہے تو اسے آپ سمندر نہ کہیے بلکہ اصل عربی لفظ کو دیکھ لیجیے۔ ارشاد ہے جو آپ سورۃ الکہف میں پڑھ سکتے ہیں۔
فَأَتْبَعَ سَبَبًا. (85) حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا ۗ قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَنْ تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا. (86)
پھر انہوں نے (ایک مرتبہ) ایک مہم کا پلان کیا۔ یہاں تک کہ جب وہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچے تو انہوں نے سورج کو دیکھا کہ ایک سیاہ کیچڑ کے چشمے میں ڈوب رہا ہےاور اُس کے پاس انہیں ایک قوم ملی۔ ہم نے سکھایا : اے ذوالقرنین! (یہ آپ کے اختیار میں ہیں کہ) چاہیں تو انہیں سزا دیں اور چاہیں تو اِن کے بارے میں حسن سلوک کا رویہ اختیار کر لیں۔‘‘
ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا. (89)
حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَىٰ قَوْمٍ لَمْ نَجْعَلْ لَهُمْ مِنْ دُونِهَا سِتْرًا. (90)
كَذَٰلِكَ وَقَدْ أَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًا. (91)
پھر انہوں نے ایک دوسری مہم کا پلان کیا، یہاں تک کہ جب وہ طلوع آفتاب کی جگہ تک پہنچ گئے تو انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جن کے لیے ہم نے آفتاب کے اِدھر کوئی آڑ نہیں رکھی تھی۔ یہ اِسی طرح ہوا اور جو کچھ ذوالقرنین کے پاس تھا، اُسے ہم خوب جانتے تھے۔ (سورۃ الکہف 18)
یہاں پر وہ لفظ دیکھیے عَيْنٍ حَمِئَةٍ جس میں لفظ عین کا مطلب ہے پانی کی جگہ جس میں سمندر بھی ہو سکتا ہے، دریا، چشمہ، جھیل کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ حمیہ کا مطلب ہے کیچڑ جیسی جگہ جو سمندر، دریا، جھیل کسی میں بھی ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ذو القرنین رحمتہ اللہ علیہ نے مشرق میں کسی ایسے سمندر یا جھیل کو دیکھا جہاں سمندر وہاں سے نکل رہا ہے اور پھر انہوں نے مغرب میں ایسے سمندر یا جھیل کو دیکھا جس میں سورج غروب ہو رہا ہے۔ اب آپ نے ممبئی میں دیکھا ہی ہو گا کہ اس میں سورج غروب ہوتا ہے۔ اس میں کچھ نہیں بتایا گیا کہ اس میں پانی میٹھا یا کھارا۔ لفظ عین میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
اب آپ تاریخ میں خود ہی ریسرچ کر لیجیے کہ کونسا سمندر یا جھیل ہو سکتی ہے۔ تاریخ میں یہ معلوم ہے کہ ذو القرنین رحمتہ اللہ علیہ ایران اور عراق کے بادشاہ تھے۔ اس میں مشرق میں دیکھیں تو آپ کو ان کا سفر ادھر لگ سکتا ہے جو کیسپئن سمندر ہے جو حقیقتاً جھیل ہی ہے۔ اس سے مشرق میں ترکمانستان میں بھی جھیلیں ہیں۔ مغرب میں جائیے تو پھر بلیک سی ہے جو وہ بھی حقیتاً جھیل ہی ہے۔
عین ممکن ہے کہ ان کا سفر ترکی کے مغرب کے آخر تک گیے ہوں گے جہاں میٹی ٹیرین سی ہو سکتا ہے۔ اس میں قرآن مجید میں کوئی تفصیل نہیں بتائی ہے اور تاریخ میں بھی کنفرم جگہ نہیں ہے۔ اس میں ہم بس اندازہ ہی کر سکتے ہیں۔ ان کا تیسرا سفر میں کنفرم مل جاتا ہے جو آرمینیا کا علاقہ ہے جہاں انہوں نے پہاڑوں کے اندر درے میں دیوار بنائی تھی۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں اس دیوار کے آثار دیکھے تھے اور وہ 1330 کے زمانے میں گزرے تھے۔
ذوالقرنین رحمتہ اللہ علیہ کے تین سفر کو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ علاقے ہوں گے۔
جیسا کہ آپ نے نئے ٹاپک پر ارشاد فرمایا ہے تو اسے میں الگ نئی ای میل میں سبجیکٹ کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔ پہلے تو یہ دیکھ لیجیے کہ یاجوج ماجوج کون تھے؟ قدیم ترین تاریخ میں بائبل کی پہلی کتاب ہی میں مل جاتا ہے کہ حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے تیسرے بیٹے یافث رحمتہ اللہ علیہ کی نسل میں دو بڑے بادشاہ گزرے ۔ ایک کا نام یاجوج اور دوسرے کا نام ماجوج تھا جو یاجوج کا کوئی بیٹا یا پوتا ہو گا۔ انہی کے نام پر پوری قوم کا نام بن گیا جسے یاجوج ماجوج کہتے ہیں۔
انہیں وہ علاقہ دیا گیا تھا جس میں کیسپین سی اور بلیک سی کے درمیان کا علاقہ تھا۔ پھر ان کی نسل زیادہ پیدا ہوتی رہی تو وہ لوگ مختلف علاقوں میں ہجرت کرنے لگے اور پھر روس، چین، یورپ اور اب امریکہ میں سیٹل ہو گئے۔
انڈیا کی تاریخ میں بھی آپ جانتے ہیں کہ آرمینیا، آزربائجان وغیرہ کے علاقے سے راجپوت انڈیا میں آ گئے تھے اور پھر یہاں کے اصل انڈینز کو قتل کر دیا یا پھر انہیں غلام بنا کر انہیں شودر بنا دیا ہے۔ ابھی بھی انڈیا اور پاکستان کی ملٹری کے بڑے لوگ راجپوت ہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح یاجوج ماجوج کی ایک قوم مغل منگولیا سے آ گئے تھے اور انہوں نے حکومت بنا لی تھی۔
ذو القرنین رحمتہ اللہ علیہ ایران کے ایک نیک بادشاہ تھے اور ان کا نام سائرس اعظم کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جس دیوار کا ذکر ہے تو وہ ایک خاص علاقے میں بنائی گئی تھی تاکہ شہر والوں کو بچایا جا سکے۔ اس دیوار کے آثار اب بھی ملتے ہیں جو آزار بائجان اور جورجیا کے قریب ہے۔ظاہر ہے کہ ذو القرنین رحمتہ اللہ علیہ کی حکومت 550 کے قریب ہوئی تھی اور اس کے آس پاس انہوں نے دیوار بنا دی تھی۔ پھر اب 2500 سال تو گزر گئے ہیں تو کافی حد تک یہ ٹوٹ گئی اور باقیات رہ گئے ہیں۔
لوگوں میں یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یاجوج ماجوج اس دیوار میں چھپے ہوئے ہیں۔ یہ صرف غلط فہمی ہی ہے ورنہ یاجوج ماجوج تو اب جاپان، کوریا سے لے کر امریکہ تک رہ رہے ہیں اور وہی سپر پاور بن چکے ہیں۔ انہی یاجوج ماجوج کی نسل میں بہت سے لوگ ایمان بھی لے آئے جس میں انڈیا، پاکستان، افغانستان، تاجکستان، آزر بائجان، ترکی وغیرہ کے لوگ ہیں۔ بلکہ بنوعباس کمزور ہو گئے تو اصل طاقتور حکومتیں انہوں نے بنائی ہے۔
اس دیوار کی تفصیل آپ میرے اس سفرنامے میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں آرٹون اور ٹورٹم آبشار کے باب میں دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے اسی لیے ٹائٹل یہ بنا دیا کہ یاجوج ماجوج کے دیس میں لکھ دیا۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
سوال: پھر قیامت کی دس بڑی نشانیوں میں سے بھی یاجوج اور ماجوج کا ذکر آتا ہے نہ کہ وہ دیوار کو چاٹ رہے ہیں اور کھا رہے ہیں اور قیامت کے قریب ان میں ایک انسان پیدا ہوگا اور وہ بسم اللہ پڑھ کر دیوار کو کھائیں گے تو وہ دیوار وہیں رکے گی۔ پھر وہ پورے کھیت کلیان کھائیں گے اور آخر میں انکو عیسی علیہ السلام کی دعاء سے کتے یاجوج ماجوج کو کھا لیں گے۔ اس بات کے قائل بڑے بڑے ائمہ ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے؟
جواب: یہ سب کہانیاں لوگوں نے ایجاد کر لی ہیں۔ اس میں تو احادیث میں بھی کچھ نہیں ہے بلکہ جعلی احادیث میں بھی کچھ نہیں ہے۔ پہلے یہ دیکھ لیجیے کہ انسانوں کی نسل کو دیکھیے کہ حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے تین بیٹے ایمان لائے تھے اور ہر بیٹے کی نسل سے بڑی بڑی قومیں بنتی رہیں۔ ان تین بیٹوں کا نام تھا سام، حام اور یافث رحمتہ اللہ علیہم۔
قدیم تاریخ میں حام رحمتہ اللہ علیہ کی نسل کو عروج ملا اور وہ سپر پاور بنے جس کے آثار مصر میں فراعین کے مقبرے موجود ہیں اور دیگر افریقی عروج کے مزید آثار موجود ہیں۔ اس کے بعد سام رحمتہ اللہ علیہ کی نسل کو عروج حاصل ہوا جو حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں انہیں عروج مل گیا جس کی تفصیل بائبل اور مسلمانوں کی تاریخی کتابوں میں موجود ہے۔
اب تیسرے بھائی یافث رحمتہ اللہ علیہ کی نسل کو عروج حاصل ہونا تھا جو سلسلہ شروع ہو گیا اور آج تک جاری ہے۔ اس طرح حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے تین بیٹوں کی نسل کو باری باری عروج کا موقع ملتا رہا۔ ان تینوں بیٹوں کی نسل سے جو قومی بنیں تو بعض اہل ایمان رکھتے تھے اور بعض غیر مسلم تھے۔
یہ کسی اور نے آئیڈیا بنا دیا ہے اور کچھ نہیں۔ قرآن مجید میں بس اتنا بتایا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے یاجوج ماجوج کا عروج ہو جائے گا۔ یاجوج ماجوج مسلمان بھی تھے اور غیر مسلم بھی۔ ان کے عروج کا واقعہ ہو چکا ہے لیکن لوگ ابھی بھی انتظار کر رہے ہیں۔ اب تک اس تاریخی ٹائن لائن میں یاجوج ماجوج کے عروج کے اسٹیپس ہو چکے ہیں جسے آپ عیسوی کیلنڈر میں دیکھ لیجیے۔
عربوں کے بعد بنو عباس کی حکومت میں 850 میں حکومتوں کو یاجوج ماجوج نے کنٹرول کر لیا تھا اور یہ سب مسلمان تھے۔
پھر 1258 میں منگولوں کی یلغار ہو چکی ہے لیکن دعوت کے نتیجے میں منگول کی بڑی تعداد ایمان لے آئے۔
سلطنت عثمانیہ کو عروج کا دور 1450 میں جاری ہوا اور یہ مسلمان تھے۔
یورپ نے 1750 میں یلغار کر لی تھی اور کالونی ازم کا سلسلہ جاری رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد 1945 میں امریکہ اور روس کا عروج ہو گیا۔
کولڈ وار کے بعد 1990 میں روس کمزور ہوا تو امریکہ کا عروج ہوا۔ اب امریکہ کی کمزوری نظر آ رہی ہے اور اندازہ ہے کہ چین کے عروج کا سلسلہ 2030 سے آگے ہوا چاہتا ہے۔
یہ سب یاجوج ماجوج کی شاخیں ہیں۔ اس کے بعد ہو سکتا ہے کہ یاجوج ماجوج کی کوئی اور شاخ نکل آئے یا پھر چین ہی آخری ہوئے تو پھر قیامت آ جائے گی۔
یاجوج ماجوج کے عروج کو آپ بائبل کی آخری کتاب میں پڑھ سکتے ہیں جس میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کا مکاشفہ ہے جس میں انہوں نے مستقبل کی تفصیلی پلاننگ کو بیان فرمایا ہے۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com