السلام علیکم
مبشر بھائی۔ طبیعت کیسی ہے آپ کی اور میں نے اس ماہ کی میگزین کا مطالعہ کیا ماشاءاللہ سوال جواب کا سلسلہ کافی معلوماتی ہے۔ آپ نے چودہ سو سالہ تاریخ کو آپ نے کس طرح سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہے سمجھ میں نہیں آرہا ہے وہ دقت طلب کام کس طرح اکیلے انجام دیے ہوں گے ہزاروں صفحات کو کھنگال ڈالا ہوگا۔ جتنا کام آپ اکیلے انجام دیے ہیں اتنا کا کسی بڑے سے بڑے ادارے نے بھی انجام نہیں دیا ہوگا۔ حاجی علی ممبئی انکی تاریخ پیدائش اور وفات مل سکتی ہے کیا؟
محمد جعفر، گوکک، ، کرناٹک، انڈیا
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ جعفر بھائی
جزاک اللہ خیرا۔ بہت شکریہ کہ آپ نے تبصرہ عنایت فرمایا ہے۔ آپ بھی اپنے علم کو دیگر اہل علم لوگوں تک شیئر کریں کہ آپ کے آرٹیکلز کو میگزین میں بپلش کروں۔ تاریخ کی کتابیں تو کئی سالوں تو پڑھتا رہا اور مطمئن نہ ہوا تو پھر دو تین سال کے اندر تاریخی کتابیں لکھ دیں۔ کسی شخصیت کی زندگی کی تفصیل پوچھنی ہو تو انہی کے نام کو آپ گوگل مین سرچ کر سکتے ہیں۔
اگر وہ شخصیت کا نام حدیث میں ملتا ہے تو پھر عربی کیبورڈ کے ذریعے آپ سرچ کر لیجیے تو عربی میں ان کی پوری شخصیت سامنے آ جاتی ہے۔ اس کا طریقہ کار آپ میرے لیکچر میں دیکھ سکتے ہیں۔
علوم الحدیث ۔۔۔ جرح و تعدیل یعنی راوی افراد کی شخصیت پر ریسرچ کا طریقہ کار
علوم الحدیث ۔۔۔ قدیم زمانے میں محدثین کس طرح احادیث کو حاصل کرتے اور راویوں کا تجزیہ کر کے احادیث ریکارڈ کرتے تھے؟
علوم الحدیث ۔۔۔ پہلی تین ہجری صدیوں میں حدیث کی کتابیں کر طرح لکھی جاتی تھیں اور اساتذہ کس طرح شاگردوں کو احادیث پڑھاتے تھے؟
علوم الحدیث ۔۔۔ ورایت ۔۔۔ راویوں کی جانچ پڑتال کا طریقہ کار تاکہ معلوم ہو کہ کون شخص قابل اعتماد ہے یا نہیں؟
ہاں اگر کوئی ایسی شخصیت ہے جس کا حدیث سے کوئی ذکر نہ ہو تو پھر آپ گوگل سے ہی ڈھونڈ سکتے ہیں۔ مثلاً میں نے گوگل میں حاجی علی ممبئی صاحب کو سرچ کیا تو تفصیلات مل گئیں۔
حاجی علی ممبئی صاحب سے آپ کی مراد کیا وہ بزرگ ہیں جن کے نام سے درگاہ بمبئی میںہاں اگر کوئی ایسی شخصیت ہے جس کا حدیث سے کوئی ذکر نہ ہو تو پھر آپ گوگل سے ہی ڈھونڈ سکتے ہیں۔
اگر وہی بزرگ ہیں تو ان کی تفصیل کو آپ اس لنک میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ صوفی بزرگ تھے اور وہ ایک باقاعدہ مشن کے لیے ساتھ دوسرے شہر یا گاؤں میں جا کر سیٹل ہوتے اور پھر اپنی تبلیغ کرتے تھے۔ تاریخ پیدائش اور وفات کا ٹائم تو نہیں مل سکا ہے۔ اتنا معلوم ہے کہ انہوں نے درگاہ 1431 میں بمبئی میں بنائی تھی۔ اس میں یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اگر 30-40 سال کی عمر میں تھے تو ان کی پیدائش پھر 1390-1401 کے آس پاس ہوئی ہو گی۔ اس کے بعد نارمل عمر کے لحاظ سے ان کے وفات کا اندازہ یہ ہو سکتا ہے کہ 1470-1480 کے بیچ میں کسی وقت انتقال ہوا ہو گا۔
تاریخ میں ایسا ہوتا ہے کہ اندازے سے ہی ٹائم طے کیا جاتا ہے۔ ہاں اگر کسی عالم یا ان کے شاگرد نے اپنی زندگی پر سیرت لکھ دی ہو تو پھر کنفرم معلوم ہو جاتا ہے ۔ ورنہ پھر لوگوں کی دی ہوئی انفارمیشن کی بنیاد پر اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس میں کسی نے سفرنامہ لکھا ہو تو پھر اس میں بڑی واضح صورتحال بھی آ جاتی ہے۔ جیسا کہ ابن بطوطہ صاحب کے سفرنامہ میں انڈیا کی پوری صورتحال سامنے آ جاتی ہے اور انہی کے تجربے کی بنیاد پر میں نے 1320-1350 کے زمانے پر بات کی ہے۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Haji_Ali_Dargah
سوال: ہاں ممبئی میں جن کی درگاہ ہے وہی مراد ہیں۔ ممبئی اور اسکے آس پاس کے علاقے میں سنی شیعہ کو فروغ حاصل ہوا جیسے حاجی ملنگ اور ماہم کے مخدوم علی مہاءمی وغیرہ۔ یہ فرق کیوں آتا ہے؟
جواب: آپ نے میری کتابوں میں تو پڑھ چکے ہوں گے کہ مختلف ممالک سے صوفیا آتے رہے اور کسی خاص شہر یا گاؤں میں اپنی خانقاہ بنا لیتے اور اپنے مرید تیار کر کے ان کی تربیت کرتے رہے۔ علی صاحب بھی ازبکستان سے لے کر ممبئی میں اپنا پیغام لے گئے۔ صوفیا میں مختلف قسم کے لوگ تھے۔ کوئی سنی تھے، کوئی شیعہ، کوئی اسماعیلی شیعہ اور دیگر گروہ۔
انڈیا گجرات کے علاقے میں اسماعیلی شیعہ حضرات کو بہت فروغ حاصل ہوا اور وہاں پر بوہری فرقہ عام ہو گیا۔ کرناٹک میں سنی اور اثنا عشری شیعہ حضرات اسی طرح زیادہ پھیل گئے۔ اسی طرح راجستھان میں چشتی سلسلہ کے سنی صوفیا کو فروغ زیادہ حاصل ہوا۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں اسماعیلی اور بعد میں اثنا عشری شیعہ حضرات کامیاب رہے جیسے پاکستان میں سہون کا مزار مشہور ہے۔ اسی طرح انڈیا اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں کس کو کس میں کامیابی حاصل ہوئی، اس کا تجزیہ آپ خود کر سکتے ہیں۔
یہ آپ مجھے بھی بتا دیجیے گا کہ ممبئی کے آس پاس علاقے میں کس فرقہ کے صوفیا کو فروغ حاصل ہوا؟
محمد مبشر نذیر
جعفر صاحب کا جواب: جزاک اللہ خیرا۔ اس سے وہی صورتحال واضح ہوئی کہ مہاراشڑا کی صورتحال بھی وہی ہے جو پنجاب، پختونخواہ اور UP میں رہی ہے۔ ان سب میں سنی صوفیا کے اثرات کو اندازاً 70% کہہ سکتے ہیں اور 25% شیعہ صوفیا کے اثرات نظر آتے ہیں۔
اس میں تھوڑا سا فرق یہ ہوا ہے کہ جنوبی پنجاب اور سندھ میں بھی یہی ہے لیکن سنی حضرات کی کافی تعداد اندر سے شیعہ حضرات سے متاثر ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اسماعیلی شیعہ داعیوں نے بہت کام کیا اور انہوں نے ملتان اور منصورہ (موجودہ حیدر آباد سندھ) میں اپنی حکومت بھی بنا دی تھی۔ لگتا ہے کہ یہی اثرات انڈیا میں گجرات اور جنوبی ہند دکن میں بھی ہوئے ہوں گے۔
سوال: مجھے ابو القاسم رفیق دلاوری کی تاریخ وفات مل سکتی ہے؟
جواب: اگر کسی بھی عالم کی سیرت موجود نہ ہو تو ان کے ٹائم کے لیے کئے طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔
ان کی کتاب پبلش ہونے کا ٹائم موجود ہو۔
ان کے استاذ یا شاگرد کا ٹائم موجود ہو۔
اس عالم نے اپنی کتاب میں کوئی ایسا مشہور واقعہ بیان کیا ہو جس کا ٹائم آپ کو معلوم ہو۔
اس عالم کے کسی شاگرد یا کلاس فیلو یا تنقید کرنے والے صاحب نے کوئی بات اپنی کتاب یا آرٹیکل میں لکھا ہوا ہو۔
اس عالم نے اپنی کتاب میں کوئی ایسا خاص ایشو بیان کیا ہو جو کس ٹائم سے متعلق ہو۔ مثلاً دلاوری صاحب نے ختم نبوت پر لکھا ہے اور اس میں قادیانی نقطہ نظر پر تنقید کی ہے تو اس سے یہ کنفرم ہوتا ہے کہ ان کا ٹائم 1908 کے بعد کا ہو گا۔ یہ کتاب تب ہی لکھی جا سکتی ہے جب قادیانی حضرات نے نبوت پر تبلیغ کی تھی اور وہ ہمیں معلوم ہے کہ غلام احمد قادیانی صاحب کی زندگی میں ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ ان کی وفات کے بعد ہی نبوت کی تبلیغ کا سلسلہ 1908 کے بعد ہی ہوا ہے۔ اس لیے پھر یہی کنفرم ہوتا ہے کہ دلاوری صاحب کا ٹائم 1908-1980 کے درمیان ہو گا۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com