السلام علیکم سر
کچھ سوالات میرے ذہن میں ہیں۔ اس کی وضاحت کر دیں۔
سوال: ہم کون ہیں اور کیوں پیدا ہوئے؟
جواب: وعلیکم السلام رحمتہ اللہ وبرکاتہ بیٹی۔
اس کا جواب آپ خود کوشش کیجیے۔ میں جواب یہ دوں گا کہ میں ایک انسان ہوں جو اللہ تعالی کا بندہ ہوں۔
سوال: ایگو کیا ہے؟
جواب: ایگو کے لیے آپ پہلے خود گوگل میں سرچ کر لیجیے۔ سادہ الفاظ میں یہ ہے کہ اپنے آپ کو اپنی عزت سمجھنا۔ اس کے لیے آپ خود تجربہ کر لیجیے کہ اگر کوئی اور شخص آپ پر کوئی جھوٹا الزام لگائے تو آپ کے ذہن میں کیا محسوس ہو گا؟ ظاہر ہے کہ ہمیں اپنی ذاتی عزت پر حملہ ہوا ہے اور تب ہی ہمیں غصہ آ جاتا ہے۔ اس کے بالکل الٹ تصور ہے جسے ہم تکبر کہتے ہیں۔ تکبر وہ ہوتا ہے جس میں ہم دوسروں کو اپنے سامنے حقیر سمجھیں اور اپنی ذات کو زیادہ بڑی عزت سمجھیں۔ یہ تکبر ہوتا ہے لیکن ایگو نارمل صورتحال ہے جو ہر انسان کے ذہن میں ہوتے ہیں کہ انسان اسے اپنی عزت بھی سمجھتا ہے اور دوسروں کو بھی عزت دیتا ہے۔
سوال: سیلف کسے کہتے ہیں؟ میں اس لیے سوال کر رہی ہوں کہ سٹڈیز میں فوکس کر سکوں۔
جواب: سیلف کا معنی ہے اپنی شخصیت۔ ضرور کیجیے۔ اس کے لیے یہ درخواست کروں گا کہ آپ الگ نئی ای میل بنا کر اس کا ٹاپک ضرور ٹائٹل میں لکھ دیا کریں۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ میں آسانی سے آپ کے سوال کو ڈھونڈ سکوں گا۔ ورنہ یہی ہوتا ہے کہ پرانی ای میل کا جواب کرتے ہوئے آپ کی ای میل کو کنفیوز ہونے سے بھول سکتا ہوں۔
سوال: ڈپریشن کیا ہے اور کیوں آتا ہے؟
جواب: آپ نے جو صورتحال بتائی ہے، یہ نارمل ہے اور بہت سے لڑکے لڑکیاں بھی ڈپریشن کے مسئلے میں ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اب ہم کیمیکلز سے بنے ہوئے کھانا کھاتے ہیں اور جسم میں بہت سے کیمیکل تبدیل ہوتے ہیں تو ڈپریشن آ جاتا ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ آپ کسی نیورو فزیشن ڈاکٹر سے مل کر اس کا حل حاصل کر سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ آپ وہی کتابیں اور لیکچرز ہی سنیں جس میں آپ کو مزا آ رہا ہو۔ اس میں کچھ دلچسپ موضوعات پر کتابیں اور لیکچرز حاضر خدمت ہیں۔
آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں کیوں پیدا کیا ہے؟ اس کا جواب قرآن مجید میں ہے کہ یہ زندگی محض امتحان کے لیے ہی ہے اور اس سے زیادہ اس کی مزید کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ امتحان ایسا ہے جس میں دیگر تمام مخلوقات نے معذرت کر دی تھی لیکن صرف انسان ہی ایسی مخلوق تھی جس نے اس کا انتخاب کر لیا تھا۔ سارے جانوروں کی نسبت صرف انسان ہی میں ایسی صلاحیت ہے کہ وہ چیلنج کر سکتا ہے۔ اسی وجہ سے انسان نے اس چیلنج کو قبول کر لیا تھا۔ جن انسانوں نے چیلنج کو قبول نہیں کیا تو پھر وہ بچپن ہی میں فوت ہو جاتے ہیں یا پھر محض معزور ہو کر فوت ہو جاتے ہیں۔
اس کے برعکس آپ اور میں ایسے انسان ہیں جنہوں نے اس چیلنج کو قبول کر لیا تھا اور اب اس زندگی میں کبھی شکر کا امتحان چلتا ہے اور کبھی صبر کا۔ شکر کا امتحان یہ آتا ہے کہ ہم زندگی میں انجوائے کرتے ہیں اور صبر کا امتحان یہ آتا ہے کہ جس میں ہمیں کسی طرح کی کوئی مشکلات بھی آ جاتی ہیں۔ پوری زندگی کی حیثیت محض ایک سفر کی ہے جس میں ٹرین میں اربوں انسان جا رہے ہیں۔ ٹرین کے سفر میں کسی وقت انجوائے منٹ اور کبھی مشکلات آتی ہیں۔ ڈپریشن بھی صبر کا امتحان ہی ہوتا ہے۔۔
آیت یہ ہے اور اس میں آپ میرا لیکچر بھی سن لیجیے ۔
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا. 72
لِيُعَذِّبَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ وَيَتُوبَ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا. 73
(اطاعت کا یہ تقاضا اُس ارادہ و اختیارکی بنا پر کیا جاتا ہے جو ہم نے انسان کو عطا فرمایا ہے۔) ہم نے یہ امانت (کہ وہ آزادی سے اپنے فیصلے کے ساتھ نیکی کر کے جنت حاصل کی کوشش کرے) زمین، آسمانوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تھی تو اُنہوں نے اُس کو اٹھانے سے انکار کر دیا تھا اور اُس سے ڈر گئے تھے، مگرانسان نے اُس کو اٹھا لیا حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی ظالم اور جذبات سے مغلوب ہو جانے والا ہے۔
یہ اِس لیے پیش کی گئی تھی کہ اللہ (اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر) منافق مردوں، منافق عورتوں، مشرک مردوں اورمشرک عورتوں کو سزا دے، اور مسلمان مردوں اور مسلمان خواتین کو اللہ تعالی اپنی عنایتوں سے نوازے کیونکہ اللہ تعالی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ہمیشہ کے لیے ہے۔
آیات 63-73: منافقین اور دہشت گردوں کے لیے سزا کا حکم + ان مشکلات کی وجہ کہ انسان کے ساتھ امتحان کا معاہدہ اور اس کے نتائج
سوال: امپلس اور سٹیمیلس میں کیا فرق ہے؟
آپ نے بہت عمدہ ٹاپک کا سوال بھیج اہے۔ ان دونوں الفاظ کو آپ انگلش میں دیکھ لیجیے۔
Impulse = a sudden strong and unreflective urge or desire to act.
Stimulus = a thing or event that evokes a specific functional reaction in an organ or tissue.
اب آپ ان دونوں کا فرق مثال کے ساتھ دیکھ لیجیے تو پھر واضح ہو جائے گا۔ فرض کیجیے کہ آپ کو احساس ہوا ہے کہ آپ جس کمرے میں بیٹھی ہیں، وہاں اچانک آگ پیدا ہو گئی ہے خدانخواستہ۔ اس پر آپ فوراً ایکشن کریں گی۔ اگر آگ بجھا سکتی ہوں تو آپ پانی پھینکیں گی اور اگر ممکن نہ ہوا تو فوراً اس کمرے اور گھر سے نکل جائیں گی۔ یہ مثال ہے امپلس کی۔ مزید مثال دیکھ لیجیے کہ اچانک جسم میں کوئی اچانک سوئی لگے تو ہم فوراً اس سے جان چھڑاتے ہیں اور نکالتے ہیں۔ یہ بھی امپلس ہے جو ہمارے جسم میں خود بخود ایکشن لگتا ہے۔
اپنے ذہن میں جو اچانک ایکشن کا آرڈر ذہن میں آتا ہے تو اسے امپلس کہا جاتا ہے۔ اب ذہن میں ایکشن کا آرڈر کیوں آیا ہے؟ جیسے انہی مثالوں میں آگ یا سوئی کی وجہ سے اور اسی کو سٹیملس کہتے ہیں۔ یعنی پہلے سٹیملس پیدا ہوتا ہے تو پھر ہمارا ذہن امپلس میں ایکشن کا آرڈر اپنے جسم کو دے دیتا ہے۔ یہ سارا کام چند سیکنڈز میں ہی ہو جاتا ہے تو کئی لوگ دونوں الفاظ کو ایک ہی سمجھ لیتے ہیں اور اپنے جملے میں دونوں میں سے کسی ایک کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com