السلام علیکم سر
سر ہمارے ہاں جنازہ پڑھانے سے قبل اکثر مولوی صاحب 2 احادیث لازمی سناتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔
رسول اللہ نے فرمایا کہ جس کے جنازے میں 3 قطاریں بن جائیں اس کی بخشش ہو جاتی ہے۔ بظاہر یہ حدیث اللہ کے کریایشن پلان کے خلاف لگتی ہے۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟
جب مرنے والے کو قبر میں دفنا کے لو گ واپس پلٹتے ہیں تو مرنے والا اُنکے قدموں کی آواز کو سنتا ہے اور آواز دیکر کہتا ہے کہ مجھے کہاں چھوڑ کر جا رہے ہو۔ اسکی کیا وضاحت ہو گی؟
محمد ثوبان انور، فیصل آباد
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ثوبان بھائی
کیا حال ہے؟ احادیث تو صحیح ہیں کیونکہ پہلی مسلم میں اور دوسری بخاری میں ہیں۔ علم الحدیث میں صحیح ان احادیث کو کہتے ہیں جو 80-90% قابل اعتماد احادیث ہوں۔ ان دونوں احادیث میں راوی کی حد تک تو بالکل صحیح ہیں لیکن متن میں کچھ تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ اس لیے اسے گلوبل نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ قرآن مجید کی بنیاد پر سمجھنا چاہیے۔ مجھے جو سمجھ میں آیا ہے، وہ یہ ہے۔
تین قطاروں سے مراد یہ لگتی ہے کہ زیادہ لوگ اس کے جنازے میں آئے ہیں۔ اس سے یہ لگتا ہے کہ وہ نیک آدمی فوت ہوا ہو گا اور بڑی تعداد میں لوگ اسے پسند کرتے ہوں گے اور محبت کرتے ہوں گے۔ اس سے یہ لگتا ہے کہ جو شخص فوت ہوا ہے، امید یہی ہے کہ اس کی مغفرت ہو جائے گی انشاء اللہ۔ مغفرت کا اصول تو قرآن مجید میں ہے کہ انسان کا ایمان اور عمل صالح۔ حدیث میں لگتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی مخلص صحابی پر فرمایا ہو گا۔ لوگوں نے اسے بس صفوں کو تین سمجھ کر اسے وجہ سمجھ لیا ہے جس پر آپ کا اعتراض درست ہے۔
قدموں کی آواز سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جب انسان فوت ہوتا ہے تو اس کی روح کو محسوس ہوتا ہے۔ اس میں وہ صورتحال لگتی ہے کہ جب روح، جسم سے الگ ہو جاتی ہے تو پھر وہ محسوس کرتا ہو گا کہ وہ اس زندگی کے لوگوں سے الگ ہو رہا ہے اور علیحدگی ہو گئی ہے۔ اب کنفیوژن جیسی حالت لگتی ہے جس میں وہ فرشتوں سے پوچھے گا۔ یہ بات معقول ہے اور اس میں کوئی اعتراض بھی متن پر نہیں ہے۔ ہاں اسے بھی گلوبل نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ مختلف انسانوں پر مختلف حالت ہو گی۔
مثلاً انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور بہت ہی نیک لوگوں پر تو وفات کے بعد ویلکم کی جائے گی تو انہیں کنفیوژن نہیں ہو گی۔ اسی طرح قرآن مجید میں واضح ہے ۔ اسی طرح انتہائی مجرم کو بھی اس کی سزا دکھائی جائے گی تو پھر کنفیوژن کیا ہونی ہے، بس افسوس کی نفسیاتی سزا شروع ہو جاتی ہے۔ تیسری قسم کے لوگ ہمارے جیسے ہیں جن میں نیکی برائی سبھی ہو گی تو وہ کنفیوز ہو سکتے ہیں۔ لگتا ہے کہ اس حدیث کا تعلق ان تیسری قسم کے لوگوں سے متعلق ہے۔
امام بخاری اور امام مسلم رحمتہ اللہ علیہما نے راویوں کی ریسرچ تو بہت عمدہ کوالٹی کے ساتھ کر دیا ہے لیکن متن پر پورا کام نہ کر سکے اور ان کا انتقال ہو گیا۔ پھر بھی دونوں کی کتابوں کو پڑھ لیجیے تو تقریباً 90% احادیث میں متن کا کام بھی کلیئر ہو جاتا ہے جبکہ 10% احادیث میں متن پر سوالات باقی ہوتے ہیں۔ اس میں ان دونوں بزرگوں پر حسن ظن رکھتے ہیں کہ شاید انہیں انتقال کی وجہ سے پورا کام نہ کر سکے۔ یا پھر یہ بھی ہے کہ ان کے زمانے کے لوگوں کو سیاق و سباق معلوم تھا لیکن ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں ریسرچ کرنی پڑتی ہے۔
ہمارے ہاں بس مسئلہ یہی ہے کہ مولوی صاحبان متن پر ریسرچ نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنے آئیڈیاز یا پھر اپنے فرقے کی باتوں کو اس حدیث پر اپلائی کر کے تقریر کر لیتے ہیں۔ یہی وہی حرکت ہمارے ہاں ہو جاتی ہے جیسا کہ بنی اسرائیل نے ایسا ہی کیا تھا۔ انہوں نے تورات کو بھی اپنی خواہشات کے آئیڈیاز کو سمجھ لیا تھا اور خود کو جہنم سے پاک سمجھ لیا کہ بس دو تین دن تک کی سزا ہی ہو گی۔ ایسا ہی ہمارے ہاں بھی ہو چکا ہے۔
اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ان غلطیوں سے بچیں اور علمی لاجیکل طریقے سے مطالعہ کرنے کی عادت کریں۔ میں نے اسلامک اسٹڈیز کا سلسلہ ہی اس لیے کاوش کی کہ علمائے دین کی ایسی عادت پیدا ہو سکے تاکہ غلطیوں سے بچ سکیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مدارس اور ماڈرن علماء کے کچھ لوگ ان کتابوں کو پڑھ رہے ہیں الحمد للہ اور ان کے ذہن بھی نفسیاتی غلامی اور فرقہ پرستی سے بھی بچنے لگے ، علمی ریسرچ کا شوق پیدا ہوا اور وہ پھر اپنے شاگردوں کا ذہن بھی اوپن کر رہے ہوں گے انشاء اللہ۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com