سوال: حضرت نوح کی عمر کے حوالے سے کچھ لوگ عجیب قسم کا حساب لگا کر کہتے رہتے ہیں کہ ان کی عمر ۷۵ برس بنتی ہے۔ اس میں کتنی صداقت ہے اور درست بات کیا ہے؟
جواب: ان لوگوں کا حساب غلط ہے۔ قرآن مجید میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوت کا دور 950 سال ہے۔ اس سے آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ آپ کی جوانی سے پہلے اور نبوت کے بعد کا ٹائم آپ سوچ لیجیے تو آپ کی پوری عمر 1300 سال کے آس پاس ہو گی کہ یہ صرف اندازہ ہی ہے۔ اس زمانے میں اتنی بڑی عمر ہوتی تھی تو آپ 950 سال تک جوان زندگی گزرتے رہے جیسے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہم لوگ 20-49 سال تک جوانی حاصل کرتے ہیں۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ بچپن ، لڑکپن تقریباً 200 سال تو ہوں گے۔ پھر آپ کی قوم پر سیلاب کا عذاب آیا تو اس کے بعد آپ سکون کے ساتھ اپنی اولاد اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہے۔ اس وقت بڑھاپے میں اندازہ ہی کر سکتے ہیں کہ تقریباً 200 سال کے قریب بڑھاپا ہو گا۔ اس سے آپ خود ہی اندازہ کر سکتے ہیں۔
حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں لمبی عمر ہوتی تھی اور یہی معاملہ حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔ اس کی لاجیکل وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ انسانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اس لیے اللہ تعالی نے انہیں بڑی عمر دی تاکہ ان کے بچے پیدا ہوتے جائیں تاکہ انسانوں کی آبادی بڑھ جائے۔ ابھی قدیم زمانے کے جو فوسلز ملے ہیں تو اس میں جو ہڈیاں ملی ہیں تو ان کے جسم بھی بہت لمبے چوڑے تھے۔ اس کی مثال آپ اس تصویر کو دیکھ سکتے ہیں اور سائنسی ریسرچ کو پڑھ سکتے ہیں۔
https://www.nationalgeographic.com/magazine/article/longevity-life-death-technology-advances
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com