طلحہ خضر لاہور، محمد جعفر کرناٹک انڈیا، فیاض الدین پشاور، ڈاکٹر ثوبان انور اور ڈاکٹر رفعت فیصل آباد کے سوالات
سوال: امیر المؤمنین یزید کی حکومت قائم ہونے پر کیا حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ پر حکومتِ وقت کی اطاعت از روئے قرآن فرض نہ تھی؟(4:159) اس اقدام کو اگر بغاوت وخروج نہ تصور نہ کیا جائے تو پھر کیا کہاجائے گا؟
جواب: حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے سرے سے کوئی بغاوت کی ہی نہیں تھی ۔ آپ نے یزید کی بیعت اپنے گورنرز پر نہیں کی تھی بلکہ آپ نےعراق کی بغاوت کو ختم کرنے کی کاوش کی تھی۔ آخری منٹ میں آپ نے عراقی فوجیوں کو یہی فرمایا تھا کہ آپ مجھے یزید تک پہنچنے جانے دیں، پھر میں ان سے گفتگو کروں گا۔ اس پورے رزلٹ سے یہ سامنے آتا ہے کہ آپ کو نظر آ رہا تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے جس طرح عراق کو سنبھالا ہوا تھا، اب یزید اور بنو امیہ اس طرح نہیں مینج کر رہے تھے۔ اس لیے آپ نے عراق کی بغاوت کو ختم کر کے یزید کے پاس پہنچ جانا تھا۔
اسی وجہ سے باغی پارٹی نے حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ عراق کے گورنر کو صورتحال سمجھ آئی تو انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کی فیملی کو یزید کے پاس دمشق پہنچا دیا۔ یزید کو بہت دکھ ہوا اور وہ بہت روتے رہے۔ ان کے عراقی گورنرز اس علاقے کو سنبھال نہیں سکے تھے۔ تین سال بعد یزید کا انتقال ہوا تو باقی بنو امیہ میں آپس کی لڑائی چل گئی اور بغاوت سیریا میں بھی ہو گئی تھی۔ آخر ملک بن مروان نے بنو امیہ کو کنٹرول کر لیا۔ اس کے بعد انہوں نے عراق میں بہت سی بغاوت ختم کروا دی تھی۔
سوال: اگر بالفرض امیر المؤمنین یزید، حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس پاداش میں قتل بھی کرا دیتے تھےتو ان کے پاس فرمانِ رسول ﷺ موجود تھا جس میں صاف فرمایا گیا ہے کہ خلیفہ ٔ وقت کے خلاف اٹھنے والے کو قتل کر دو چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے سنی علماء کی عظیم اکثریت امیر المؤمنین یزید رحمہ اللہ تعالیٰ ہی کو مطعون کرتی ہے ، کیوں؟ صرف اس لیے کہ خروج کرنے والے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے؟
جواب: اگر حسین رضی اللہ عنہ بغاوت کرتے تو پھر یزید بھی ایسا کر لیتے۔ لیکن انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں کروایا تھا۔ اس سے یہ کنفرم ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ نے کوئی بغاوت نہیں کی تھی۔
اس سے چھ سال پہلے معاویہ رضی اللہ عنہ نے 55 ہجری میں ایک فوج قسنطنیہ (موجودہ استنبول) بھیجی تھی۔ اس فوج کے کمانڈر یزید تھے اور جلیل القدر صحابہ کرام میں بالخصوص ابو موسی اشعری، حسین اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم اسی فوج کا حصہ تھے۔ اس سے یہ کنفرم ہوتا ہے کہ ان تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یزید محبت کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کا انتقال بھی ہوا تو یزید صاحب نے ہی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔
سوال: اگر حالات اتنے ہی مخدوش تھے کہ دینِ اسلام پر عمل کرنا دشوار ہو گیا تھا، تو دیگر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے متعلق کیا رائے قائم کی جائے گی؟ یعنی اگر اسلام خطرے میں تھا تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی تائید کیوں نہ کی؟
جواب: حسین رضی اللہ عنہ تو بغاوت کو ختم کرنے کے لیے عراق تشریف لائے تھے۔ اس وقت آپ مکہ مکرمہ سے نکل رہے تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بالخصوص عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم نے آپ کو روکنے کی بڑی کوشش کی تھی۔ سب سے بڑے عالم صحابی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے تو حسین رضی اللہ عنہ کے اونٹ کی رسی کو بھی پکڑااور کہا کہ آپ نہ جائیں۔ حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی اسٹریٹیجی سمجھائی تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آخر میں کہا کہ چلیں آپ جائیں لیکن فیملی کو نہ لے جائیں۔ اب آپ اس پوری صورتحال کو یہی کہہ سکتے ہیں کہ انتشار اور بغاوت کو ختم کرنے کے لیے اسٹریٹیجی میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ آپ کے قبائلی علاقے میں بغاوت شروع ہو تو پھر ہر انسان اختلاف کر سکتا ہے۔ کوئی کہے گا کہ بم مار کر ان بغاوتوں کو ختم کرو۔ دوسرا کہے گا کہ بندوق سے باغیوں کو ختم کرو۔ تیسرا کہہ سکتا ہے کہ پہلے مذاکرات کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہی شکل عراق میں ہو سکتی تھی۔
سوال: حکومت ِ وقت کا اپنا دفاع کرنا فرض عین ہے، کیوں کہ اگر وہ اس طرح کے خروج و بغاوت کو ہوا دے تواسلامی حکومت کا نظام برقرار نہیں رہ سکتا۔مجھے تو لگتا ہے کہ بنو اُمیہ نے جن لوگوں کے خلاف کاروئی کی یا قتل کرایاتو وہ محاربہ و فساد فی الارض کے مرتکب تھے؟
جواب: بنو امیہ میں آپس کی لڑائی بھی یزید صاحب کے انتقال کے بعد ہو گئی تھی۔ اس لیے حکومت نہیں کر سکے ۔ اس دوران انہوں نے کسی بھی باغی کے خلاف فساد فی الارض کی بنیاد پر قتل کیا تو بالکل درست کیا۔ لیکن باغیوں کے علاوہ کسی شخص کو قتل کیا تو یہ حکومت کی غلطی تھی۔ حسین اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کو حکومت نے شہید نہیں کیا بلکہ خود باغیوں کی پارٹیوں نے ان حضرات کو شہید کیا اور ان کا عمل فساد فی الارض ہی تھا۔
سوال: حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے معاملے میں امیر المؤمنین یزید رحمہ اللہ تعالیٰ کی رعایت و لچک کوبیان نہیں کیا جاتا۔ جبکہ اگر امیر المؤمنین یزید رحمہ اللہ تعالیٰ ظالم و جابر حکمران ہوتے تو وہ حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے تخلف ِ بیعت پر فوری کاروائی کرتے مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ ان کو یہاں تک مہلت دی کہ وہ حج ادا کر سکیں ؟
جواب: یزید صاحب خود حکومت پر قابو نہیں کر سکے تھے۔ بنو امیہ کے لوگوں میں آپس میں اختلاف تھا۔ یزید صاحب کا اگر پلان یہی تھا کہ حج کے لیے مکہ مکرمہ آ جاتے اور پھر حسین اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم میں مذاکرات کر کے عراق اور بنو امیہ کی آپس میں بغاوت کو ختم کر لیتے تو امید تھی کہ کامیابی ہو جاتی۔ لیکن یہی ہوا کہ یزید پھر مکہ مکرمہ پہنچ نہیں سکے اور پہلے ہی وفات ہو گئی۔ عین ممکن ہے کہ یزید صاحب کو بھی زہر کے ذریعے جاں بحق کر دیا گیا ہو۔ یہ واضح ہو جاتا اگر اس زمانے میں فورینزک میڈیسن یعنی پوسٹ مارٹم وغیرہ کا محکمہ ہوتا تو یہ بھی معلوم کیا جاسکتا تھا۔
پھر بنو امیہ کے زمانے میں کتابیں بھی نہیں لکھی جا سکیں۔جب بنو امیہ کے خلاف بنو عباس کی بغاوت کے بعد بنو عباس کی حکومت بن گئی۔ اس کے 20-30 سال بعد ہی کاغذ کا انقلاب ہوا۔ جب جا کر بنو امیہ کے خلاف لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں جس میں جعلی روایتیں زیادہ پھیل گئیں۔
سوال: حج کے موقع پر بھی وہ لوگوں کو اپنی طرف راغب نہ کر سکے اور نہ ہی رائے عامہ کو اپنے حق میں کر سکے۔لہذا جن خطوط کی بنیاد پر انہوں نے کوفہ کا ادارہ کیا تھا اس کا نتیجہ خلافت کے حصول کے علاوہ کچھ نہیں بنتا۔بالفرض اگر میدان کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو گورنرِ کوفہ عبید اللہ بن زیادکے ہاتھ پر بیعت کا مطالبہ کیا گیا تھا تو انہوں نے اس سے انکار کیوں کیا؟ جبکہ ایک عامی شخص بھی یہ بات جانتا ہے کہ بیعت اصل میں امیر المؤمنین یزید رحمہ اللہ تعالیٰ ہی کی کی جارہی تھی جبکہ گورنرِ کوفہ عبید اللہ بن زیادتو ایک واسطہ تھا۔یعنی میں جتنا حادثہ ٔ کربلا میں غورو فکر کرتا ہوں مجھےامیر المؤمنین یزید رحمہ اللہ تعالیٰ کا مبنی بر حق ہونا ہی معلوم ہوتا ہے؟
جواب: حکم عملی میں آپ اور میں بھی مشورہ دے سکتےہیں لیکن اگر تب ہم زندہ ہوتے ۔ اگر ہم لوگ اس وقت زندہ ہوتے تو پھر ہم بھی یہ مشورے دے سکتے تھے۔ کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن زیاد تک حسین رضی اللہ عنہ کو آنے ہی نہیں دیا گیا، بلکہ پہلے ہی باغی فوجیوں نے آپ کو شہید کر دیا۔ پھر آپ کی فیملی کو عبیدا للہ تک پہنچنے کا موقع مل گیا تو انہوں نے پوری فیملی کو یزید تک پہنچا دیا۔ پھر معاملہ ختم ہو گیا اور صرف ایک بچہ زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ بچ گئے تھے۔ انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کی اگلی نسل کو سمجھا دیا اور اگلی نسلوں میں انہوں نے کئی صدیوں تک بغاوت نہیں کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مروان صاحب مدینہ کے گورنر تھے۔ ان کے خلاف بغاوت ہوئی تو مروان اور ان کی فیملی کو زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ ہی نے بچا یاتھا۔
سوال: اس کے علاوہ تیس سال تک خلافت قائم رہنے والی روایت بھی جعلی ہے۔ اس کا مقصد امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مطعون کرنا ہے کیوں کہ ان کے دور میں اسلام کو جو زبردست ترقی نصیب ہوئی وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔اگر ایک طرف امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خاطی ثابت کرنے کے لیےان کے خلاف موضوع و من گھڑت روایات بنائی گئی ہیں تو دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سیاسی ناکامیوں کوان کے جھوٹے فضائل میں لپیٹنے کی کوشش بھی کی گئی ہے؟
جواب: آپ کے ارشادات سے متفق ہوں۔ جو بھائی چار خلفاء راشدین کہتے ہیں تو میں اختلاف کرتا ہوں۔ میں انہیں چھ خلفاء راشدین صحابی کہتا ہوں جس میں ابوبکر، عمر، عثمان، علی، حسن اور معاویہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ اگلی نسل میں پھر عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ بھی خلیفہ راشد ہیں۔ باقی تمام حکمران میں اچھے عمل بھی ہیں اور برے بھی۔
سوال: اس طرح روایت ِعمار رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی ایک جعلی روایت ہے ۔حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ جب حضرت عمار رضی اللہ تعالٰی عنہ کو شہید کیا گیا اس وقت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کو روایت ِعمار رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف توجہ کیوں نہ دلائی کہ حق میرے ساتھ ہے اور معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے ساتھی غلط ہیں بلکہ نعوذ باللہ آگ کی طرف بلانے والے ہیں؟
جواب: عمار رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو روایت ہے، وہ اس طرح قابل اعتماد ہے کیونکہ انہیں خود باغیوں نے شہید کر دیا تھا۔ پھر باغی پارٹیوں کے تین سو سال بعد ان کے پیروکاروں نے جعلی روایات ایجاد کر کے کتابوں میں پھیلا دیا۔
سوال: کیااس سارے پسِ منظر سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ ایک سازش کے تحت یہ روایات گھڑی گئی ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ ہمارا اول مفسر و مؤرخ طبری بھی شیعہ ،اسی طرح اول محدث زہری بھی شیعہ ہے۔ جب صورتِ حال یہ ہے تو پھر سنی کیوں نہ شیعہ و روافض کی روش پر چلیں اور ان کی زبان بولیں؟
جواب: آپ نے بالکل صحیح ارشاد فرمایا۔ سنی حضرات نے بھی تاریخ کی ریسرچ نہیں کی ورنہ وہ محدثین کے طریقہ کار پر تاریخ کی جانچ پڑتال کر لیتے لیکن انہوں نے بہت کم ہی ایسا کیا ہے۔ پہلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر بھی ریسرچ نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب یورپی اقوام کی مسلم ممالک میں فتح ہوئی تو انہی کے پادریوں نے مسلمانوں سے مناظرہ بازی شروع کردی۔ تب جا کر مسلمانوں میں سیرت نبوی کی جانچ پڑتال کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس میں انڈیا کی بڑی شخصیتیں جیسے سر سید اورابو الحسن علی ندوی صاحب ہیں۔ اسی طرح شیعہ حضرات میں جسٹس امین علی صاحب نے اچھی ریسرچ کی۔ پھر امین علی صاحب نے تاریخ پر بھی کسی حد تک عمدہ کام کیا ہے اور انگلش میں کتابیں لکھیں۔
سوال: بھائی میں اس طرح کے سخت ترین سوالات آپ سے اس لیے پوچھتا ہوں کہ آپ نہایت تحمل مزاج اور غیر جانبدار ہیں۔ ورنہ اگر یہی تجزیہ میں کسی اہلِ حدیث یا اہلِ سنت کے فور م پر کروں تو وہ بھی روافض کی ہی زبان بولنا شروع کر دیں گے اور مجھے واجب القتل قرار دیں گے۔شیعہ کے لیے تو مجھے قتل کرنا گویا جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام کی ضمانت ہے۔آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
جواب: اس کی وجہ مسلمانوں میں وہی نفسیاتی بیماری موجود رہی ہے جسے ہم “تقلید” کہتے ہیں۔ تقلید ہی ہمارے ہاں رائج ہے۔ پرانے بزرگوں نے جو کہہ دیا، وہ درست ہے اور ہم نے سوچنا نہیں ہے۔ اسی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ مسلمانوں کی علمی تاریخ میں تقلید ہی ہے جس نے مسلمانوں میں علمی و فکری غلامی پیداکر دی ہے۔ اسی کا رزلٹ ہمارا زوال ہے۔ یہی تقلید کی بیماری تھی جو پہلے بنی اسرائیل میں پھیلی اور پھر عیسائیوں میں بھی یہی ہوا ہے۔
سوال:حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تین شرائط میں سے دو شرائط مشکوک، جبکہ صرف ایک معقول وصحیح نظر آتی ہے جس کی وجہ میں یہ سمجھتا ہوں:
حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پہلی شرط” میں جہاں سے آیا ہوں مجھے واپس جانے دیا جائے“ غیر معقول لگتی ہے کیونکہ اگر آپ فتنۂ عراق کو ختم کرنے کے لیے وہاں جا رہے تھے تو یہ کام کیے بغیر کیسے لوٹ سکتے تھے؟ یا کم از کم یہ کہہ سکتے تھے کہ میں وہاں فتنۂ عراق کے خاتمے کے لیے جا رہا ہوں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مزید یہ کہ اگر حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ واپسی کا ارادہ رکھتے تھے تو سرکاری یا عراقی فوج اس فیصلے کو کیوں قبول نہ کر سکتی تھی جبکہ ان کا مقصد تو حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو عراق جانے سے روکنا ہی تھا؟
جواب:اس زمانے میں سیلری والی فوج موجود ہی نہیں تھی بلکہ جب بھی جنگ ہوتی تو ہر قبیلے کے نمائندے اپنے فوجی لے آتے تھے۔ اس کا سلسلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شروع کیا تھا کہ فوجیوں کو تنخواہیں دینے لگے ۔ ابھی وہ ٹائم نہیں آیا کہ نوجوانی میں پکی تنخواہ آنی شروع ہوتی اور ان کی تربیت کا سلسلہ شروع ہوتا۔ اس لیے بچپن میں ہی اس کے قبیلے ہی تربیت کرتے تھے۔ ہر قبیلے کے والدین اور اساتذہ ہی اپنے غلط آئیڈیاز بچوں کو سکھاتے تھے۔ اس کا پھر رزلٹ یہی آیا تھا کہ اگرچہ سٹینڈنگ ملٹری بن تو گئی تھی لیکن اپنے قبیلے کے والدین اور اساتذہ کے غلط آئیڈیاز موجود تھے۔ ان میں قبیلے کا تعصب موجود تھا جو دیگر قبیلوں کے خلاف تھا۔
عمر رضی اللہ عنہ نے عراق، مصر ، یمن اور فلسطین میں الگ کینٹ ایریا بنا دیے تھے تاکہ ان کی تربیت صحیح طرح ہو جائے اور سٹینڈنگ ملٹری میں قبائلی تعصب ختم ہو جائے۔ لیکن ابھی تک وہ تربیت کامیاب نہیں ہو سکی تھی کہ یہ سلسلہ چھ سے لے کر دس نسلوں میں جا کر عادتیں ختم ہوتی ہیں۔ اس قبائلی تعصب کو عمدہ طریقے سے سوشل سائنسز کے ماہر ابن خلدون صاحب نے اپنی کتاب میں تفصیل سے نفسیاتی تجزیہ کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسی فوج میں بغاوت پارٹیاں بننے لگی تھیں اور وہ لوگ حضرت عمر، عثمان، علی، حسن رضی اللہ عنہم کو شہید کر چکے تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کافی کامیاب ہوئے تھے کہ انہوں نے فلسطین، یمن اور مصر میں تعصب کو کافی کم کر دیا تھا۔ عراق میں کنٹرول تو کر دیا تھا لیکن تربیت ابھی کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد عراق میں بغاوت شروع ہو گئی تھی۔ حسین رضی اللہ عنہ کو امید تھی کہ وہ عراق جا کر بغاوت کو ختم کر لیں گے کیونکہ عراقی فوجیوں کے خطوط سے معلوم ہوتا تھا کہ اکثر عراقی فوجی ان سے محبت کر تے ہیں۔ ان سے اگرچہ عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم نے انہیں روکنے کی کوشش کی تھی لیکن حسین رضی اللہ عنہ کو کامیابی کی امید تھی۔ اب پہلی مرتبہ جب کربلا میں پہلی فوج ملی تو اس وقت حسین رضی اللہ عنہ کو اندازہ ہو گیا کہ اس تعصب کو ختم نہیں کر سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے انہی فوجیوں کے خطوط سامنے رکھ دیے اور اسی وجہ سے انہوں نے آپ کو شہید بھی کر دیا کہ یہی خطوط انہی کے خلاف ثبوت بن جائیں گے۔
سوال:اگر یہ شرط ثابت ہے تو اس کی موجودگی میں ” اسلام خطرے میں ہے “ کا سارا نظریہ ھباء منثورا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اسلام کو بچائے بغیر لوٹنا کسی مؤمن کا کام نہیں ہو سکتا؟
جواب: اسلام خطرے میں ہے تو یہ یہی تھا کہ تعصب سے مسلمان ایک دوسرے کو قتل کرتے جائیں گے۔ اس کا رزلٹ سچ مچ ہوا بھی ،جو سانحہ کربلا کے بعد آج تک جاری ہے۔ عصبیت ہی وہ خطرہ ہے جو مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ہےاور آج تک یہ عصبیت قائم ہے۔ جسے آپ ابھی عراق، افغانستان، فلسطین اور یمن میں دیکھ رہے ہیں اور اس کا بڑا حصہ پاکستان میں بھی ہے۔ یہاں دین اسلام کو تو خطرہ نہیں ہے لیکن مسلمانوں کو خطرہ البتہ موجود ہے۔
سوال: حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی دوسری شرط مجھے کسی محاذ پر بھیج دیا جائے تاکہ جہاد کر سکوں“ تو اور زیادہ عجیب لگتی ہے کیونکہ جہاد میں شمولیت تو امیر المسلمین کی اجازت ہی سے ممکن ہو سکتی ہے جبکہ حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ تو بچے اور عورتیں بھی تھیں کیا وہ بھی شامل ِ جہاد ہوتے؟ اسی طرح یہ بات بھی محتاجِ ثبوت ہے کہ اس دور میں کس مقام پر جہاد ہو رہا تھا؟ لیکن اگر یہ شرط بھی ثابت ہو تو اس سے امیر المؤمنین یزیدرحمہ اللہ تعالیٰ کی امامت ِ صحیحہ کا ٹھوس ثبوت فراہم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جہاد میں شمولیت ان ہی کی زیرِ نگرانی ہو سکتی تھی۔مزید برآں اگر حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ امیر المؤمنین یزیدرحمہ اللہ تعالیٰ سے جہاد کے لیے نکلے تھے تو پھر اس جہادِ عظیم کو چھوڑ کر اورکس جہاد کے متمنی تھے؟
جواب: یہی وجہ ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ نے ان باغی فوجیوں سے جان چھڑانے کے لیے تین آپشنز پیش کیں۔
۔۔۔۔۔ یا تو ہمیں مکہ مکرمہ جانے دو۔
۔۔۔۔۔ یا پھر رومن امپائر کے خلاف جہاد پربارڈرز تک جانے دو۔
۔۔۔۔۔ یا پھر یزید تک گفتگو کرنے دو۔
اس کا معنی یہی تھا کہ حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو تینوں طرف جانے دو اور ظاہر ہے کہ آپ اپنی فیملی اور بچوں کو پھر امن کے ساتھ مکہ مکرمہ پہنچا دیتے یا پھر دمشق میں سکون کے ساتھ رہنے دیتے۔
سوال: اب ہمارے پاس حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تیسری شرط ان (حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو امیر یزید رحمہ اللہ تعالٰی کی طرف جانے دیا جائے تاکہ ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیں“ رہ جاتی ہے جو دیگر روایات کی روشنی میں معقول اور اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے کیونکہ ایک موقع پر حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عراقی لوگوں کی طرف سے بھیجے گئے خطوط کے متعلق اپنے قتل کا خدشہ ظاہر کیا تھا ۔ اس لیے حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کوفہ تو ہرگز نہیں جا سکتے تھے کیونکہ وہاں تو قتل کا خدشہ تھا اس لیے یہی بات صحیح ہو سکتی ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سفر صرف امیر یزید رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف تھا تاکہ وہاں جا کر اپنے خلاف ہونے والی سازش کو ثبوت سمیت دکھا کر کوفیوں وعراقیوں کو کیفرِ کردار تک پہنچا سکیں۔ لیکن راستے میں حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قتل کر کے سارا ملبہ امیر یزید رحمہ اللہ تعالیٰ پر ڈال کر صفِ ماتم بچھا کر بیٹھ گئے۔ یہی وجہ ہے جو حضرت عبد اللہ بن عمر ، اُم سلمہ، محمد بن حنفیہ، علی بن حسین اور خودحضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہم نے عراقیوں و کوفیوں ہی کو قاتل قرار دیا ہے؟
جواب: اسی وجہ سے ان باغیوں سے جان چھڑانے کا یہی طریقہ تھا۔ حسین رضی اللہ عنہ کی صرف اور صرف امیر یزید صاحب سے ملنے ہی کی آپشن ہو سکتی تھی لیکن حسین رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ یہ باغی یزید کے خلاف تعصب رکھتے ہیں۔ اس لیے آپ نے دو مزید آپشنز بھی دیں کہ ترکی میں رومن امپائر کے جہاد میں چلے جاتے یا پھر مکہ مکرمہ میں امن سے رہتے۔ اس میں یہی واضح ہوتا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ نے محبت سے وہی خطوط دکھا دیے جو انہی باغی فوجیوں نے لکھ کر بھیجے تھے۔ اب باغیوں کی لٹیا ہی ڈبو دی کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ اور سارے ساتھیوں کو شہید کر دیا۔ اب ان خطوط کو انہوں نے آگ لگا دی ہو گی تاکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی روایت میں بھی ان کے خطوط سامنے نہیں آتے ورنہ پھر سو دو سال بعد کی کتابوں میں وہی خطوط سامنے آ جاتے؟
سوال: اگرچہ ابو مخنف لوط بن یحیی نے عبید اللہ بن زیاد کے متعلق کہا ہے کہ پہلے اس نےحضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کوامیر یزید رحمہ اللہ تعالٰی کی طرف جانے کی اجازت دے دی تھی لیکن شمر بن ذی الجوشن کےبہکانے پر بہک گیا ۔لیکن حیرت کا مقام ہے کہ گورنر ِ کوفہ عبید اللہ بن زیاد جو امیر یزید رحمہ اللہ تعالٰی کا حکم ماننے کا پابند اور انہی کی ہدایات پر عمل پیرا بلکہ مصالحت کے لیے کوشاں اور خونریزی سےمحترز تھا اچانک اپنی تمام تر انتظامی تدبر کے باوجود اپنے ایک ماتحت کے بہکانے سے بہک گیا۔
پھر یہ بات بھی عجیب ترین ہے کہ شمر بن ذی الجوشن جو حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نہ صرف رشتے میں ماموں تھے بلکہ جنگِ صفین میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف تھے ، ایسی بعید از عقل بات کہیں۔ یہی نہیں بلکہ عبید اللہ بن زیاد کا عمر بن سعد کو ملک رے کا لالچ دے کر قتل ِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ پر آمادہ کرنا بھی جھوٹ ہے کیونکہ عبید اللہ بن زیاد تو خود عارضی طور پر کوفہ کا گورنر مقرر کیا گیا تھا اس کو کس نے یہ اختیار دیا تھا کہ ملک رے کی سلطنت عمر بن سعد کو تفویض کر دے؟
اس کے علاوہ عمر بن سعد رشتے میں حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نانا لگتے تھے۔ ملک کے لیے قتلِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ پر آمادہ ہو جانا اور قرابتِ قریبہ تک کو بالائے طاق رکھ دینا محض افتراء ہے،جبکہ روایات سے ثابت ہے کہ عمر بن سعد بھی مصالحت کے لیے از حد کوشاں تھے ۔اس پرآپ کیا کہنا چاہیں گے؟
جواب: اس میں بہت سی جعلی باتیں بھی آ گئیں اور کچھ معقول باتیں بھی رہ گئیں۔ عبیداللہ بن زیاد بھی بنو امیہ کی نسل میں تھے۔ جناب امیہ صاحب ، جناب ہاشم صاحب کے سگے بھائی تھے۔ اس طرح بنو امیہ اور بنو ہاشم دونوں فیملی کے کزن ایک ہی ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کا بنو امیہ کے ساتھ رشتہ تھا جسے آپ کزن ہی کہہ دیجیے۔ اب باغیوں نے اگلی نسلوں میں روایات میں عبیداللہ بن زیاد کے خلاف پورا پراپیگنڈا ایجاد کر دیا۔
ورنہ یہ دیکھ لیجیے عبیداللہ بن زیاد صاحب کے پاس حسین رضی اللہ عنہ کی فیملی اور بچوں کو لایا گیا اور انہوں نے کوئی تعصب کا عمل نہیں کیا بلکہ بڑی عزت کے ساتھ قافلہ بھیج کر دمشق پہنچا دیا۔ ورنہ وہی اگر زبردستی جبراً بیعت کروانا چاہتے تو فیملی سے زبردستی بیعت تو کروا لیتے۔ لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا اور پھر امیر یزیدصاحب تک پہنچا دیے۔ ادھر یزید صاحب کا دکھ اور غم ویسا ہی تھا جیسا کہ حسین رضی اللہ عنہ کی فیملی کا۔ یہی وجہ ہے کہ اگلی نسلوں تک بنو امیہ اور حسین رضی اللہ عنہ کی نسلوں میں محبت ہی رہی۔
اس کی مثال آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سانحہ کربلا کے 45 سال 105 ہجری بعد مدینہ منورہ میں یہ ہوا کہ وہاں کے گورنر نے حسین رضی اللہ عنہ کی پوتی (یا شاید پڑپوتی) پر دباؤ ڈالا کہ مجھ سے شادی کر لیں۔ سیدہ کو یہ رشتہ پسند نہیں تھا تو انہوں نے انکار کیا اور گورنر نے پھر پریشر کروایا۔ اس پر خاتون نے اس زمانے کے خلیفہ بنو امیہ کو خط لکھ کر صورتحال بتا دی۔ اس پر خلیفہ نے اس گورنر کو نکال دیا اور پھر اس کی آمدنی کو ضبط بھی کر دیا کہ اس نے ایسی حرکت کیوں کی؟ اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی فیملی کی بنو امیہ کے لوگوں سے کتنی عزت اور اچھا سلوک تھا۔
بنو امیہ کے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کا احترام تو شیعہ حضرات بھی کرتے ہیں ۔ ان کے علماء نے بنو امیہ کے خلاف بہت کچھ جعلی پراپیگنڈا کیا لیکن صرف عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کو چھوڑ گئے۔ سانحہ کربلا کے دو سال بعد ہی جب یزید صاحب فوت ہوئے تو مدینہ منورہ میں بغاوت شروع ہو گئی۔ اس وقت زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ ہی نے مدینہ کے گورنر مروان صاحب اور ان کی فیملی کو بچایا اور اپنی حویلی میں چھپائے رکھا۔ پھر مروان صاحب کے بیٹے عبدالملک بن مروان خلیفہ بنے اور انہی کی نسل سے بنو امیہ کے خلیفہ بنتے رہے اور سب ہی حسین رضی اللہ عنہ کی فیملی کا احترام کرتے رہے۔
پلیز آپ میری پوری کتاب کو مکمل طور پر پڑھ لیجیے تو وہاں کی اصل صورتحال سامنے آ جائے گی۔ باقی ساری روایات کو چھوڑ کر ابن خلدون کے عصبیت کے تجزیے کو دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کونسی روایات درست ہے اور کونسی جعلی کہانی ہے۔
سوال: کیا یہ بات درست ھے کہ یزید نے دریائے فرات کے پانی پر قبضہ کیا تھا اور پانی کی بندش کردی تھی ؟
جواب: یہ بہت سی جعلی کہانیاں بنائی ہوئی ہیں تاکہ لوگوں کو جذباتی طور پر استحصال کیا جا سکے۔ لوگوں میں غصہ اور نفرت آئے تو پھر لوگ بغاوتوں میں استعمال ہوتے رہے۔
یزید صاحب پر تو عراق میں کوئی کنٹرول نہیں تھا اور وہاں بغاوت چلی ہوئی تھی۔ ان کے گورنر بھی عراق کو قابو نہیں کر سکے تھے اور حسین رضی اللہ عنہ اصلاح کے لیے تشریف لائے تھے تاکہ بغاوت ختم کر سکیں۔ پھر باغیوں نے جو حرکتیں کیں تو ان کی حرکتوں کو حکومت کے خلاف استعمال کیا گیا۔ آپ تفصیل سے میری کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔
ابھی آپ موجودہ زمانے میں حسین رضی اللہ عنہ کی قبر کو دیکھتے ہیں کہ جہاں وہ شہید ہوئے، وہاں سے دریائے فرات کتنا دور ہے۔ آپ تصویر دیکھ لیجیے اور اس میں آپ سوچ سکتے ہیں کہ جب پانی پینے کی ضرورت ہو تو انسان اس کے لیے 20 کلومیٹر دور جا کر پانی لینا پڑے گا؟ اس زمانے میں صحرا میں بھی پانی پہلے ہی لے کر چلتے ہیں۔
سوال: ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جنتی عورتوں کی سردار ہوں گی اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہوں گے۔ کیا جنت میں بھی سرادی کا نظام ہوگا؟ جس طرح دنیا میں سرداری ہوتی ہے؟ کیا ہر جنتی اپنی جنت کا خود سردار/ حکمران نہیں ہوگا؟
جواب: موجودہ زندگی میں سرداری، جاگیردارانہ اور حکمرانی وغیرہ کے الفاظ ہیں جبکہ جنت میں ایسی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ عربی میں الفاظ اس طرح اس حدیث میں ہیں۔
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279) نے کہا۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الحَسَنُ وَالحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الجَنَّةِ» حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ يَزِيدَ، نَحْوَهُ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.[سنن الترمذي ت شاكر 5/ 656]
اس حدیث میں لفظ یہ ہے کہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اہل جنت میں شباب اور سید ہوں گے۔ عربی میں لفظ شباب کا معنی ہے کہ نوجوان اور سید کا معنی ہے اچھی عزت دینا۔ لفظ “سید” عربی میں یہ ہوتا ہے جسے ہم اسٹیٹس کے طور پر دوسروں کو کہتے ہیں جیسے انگلش میں آپ کسی کو Sir, Dr, Great, Grand قسم کا لفظ کہتے ہیں۔ فارسی میں لفظ سید کا مطلب سردار، بادشاہ قسم کا استعمال کرنے لگے کیونکہ ان کے زمانے میں یہی سب سے بڑا اسٹیٹس ہوتا تھا۔ یہی ترجمہ پھر فارسی سے اردو میں آ گھسا۔ اس لفظ میں ایک لطیفہ بھی ہوا کہ سید ابوالاعلی مودودی صاحب جب عرب ممالک میں گئے تو عربوں نے عزت اور اسٹیٹس کے طور پر “شیخ” کہنے لگے۔ مودودی صاحب کہتے ہیں کہ عرب لوگ عجیب بولتے ہیں کہ ہمیں شیخ بنا دیا اور سید مانتے نہیں ہیں۔ لطیفہ اسی لیے بن گیا کہ اردو پنجابی میں شیخ اور سید کا تصور کیا ہے۔
سوال: کیا تمام انبیاء اور خود رسول اللہ ﷺ جنت میں بوڑھے ہوں گے؟ اگر نہیں تو کیا حسن و حسین رضی اللہ عنہما ان سب پر بھی سرداری کریں گے؟
جواب: انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام بوڑھے کیوں ہوں گے؟ احادیث میں یہی ملتا ہے کہ جنت میں تمام لوگ ہمیشہ جوان ہی رہیں گے۔ حضرات حسن اور حسین رضی اللہ عنہما نے اپنی زندگی میں دینی خدمت جو کی ہے تو یہی ہو گا کہ وہ جنت میں پہنچ کر اعلی اسٹیٹس حاصل ہو گا۔ اب ظاہر ہے کہ اعلی اسٹیٹس کے حضرات میں ایک دوسرے کے ساتھ عزت ہی کریں گے جس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ملیں گے اور سب اچھی طرح انہیں عزت سے ملیں گے۔
سوال: کیا خاندانِ رسول کے مقام و مرتبہ صرف اسی لئے ہے کہ وہ رسول کی اولاد ہیں؟ جبکہ قرآن و حدیث میں دیگر شخصیات کی قربانیاں اور فضیلتیں بھی بہت زیادہ بیان ہوئی ہیں۔
جواب: یہ کسی نسل پرست انسان کا آئیڈیا ہے ورنہ سیدہ فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو جنت میں انٹری انہی کے عمل کی بنیاد پر ہو گی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے واضح کر دیا ہے کہ جنت میں کسی رشتے اور دوستی کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی بلکہ ہر انسان کے عمل کی بنیاد پر ہی جنت میں داخل ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فیملی میں امہات المومنین اور اولاد رضی اللہ عنہم ایمان لائے اور بڑی مشکلات میں زندگی گزاری ہے تو انہی کے اچھے عمل کی بنیاد پر ہی جنت میں ان کا اسٹیٹس ہو گا۔
قرآن مجید میں خود بتا دیا کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی اولاد میں جو ایمان نہیں لائے تو وہ جہنم میں ہی پہنچیں گے۔ اس کی مثال حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹے کا ذکر ہے۔ پھر سورۃ البقرۃ میں بنی اسرائیل کا ذکر ہے جو مسلسل انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی نسل سے ہیں اور اس کے بڑے بزرگ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام تھے۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رشتہ بھی یہی تھا تو بنی اسرائیل آپ کے دور سے قریش اور بنی اسرائیل کزن ہی رہے۔ ان کا تبصرہ آپ پڑھ سکتے ہیں۔ اس سے آپ خود انہی آیات کو پڑھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں۔
انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی اولاد کا رزلٹ اور ان کا اسٹیٹس
وَهِيَ تَجْرِي بِهِمْ فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ وَنَادَىٰ نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يَا بُنَيَّ ارْكَبْ مَعَنَا وَلَا تَكُنْ مَعَ الْكَافِرِينَ. 42
قَالَ سَآوِي إِلَىٰ جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ ۚ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَنْ رَحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ. 43
وہ جہاز پہاڑوں کی طرح اٹھتی ہوئی موجوں کے درمیان اُن کو لے کر چلنے لگا اور نوح نے اپنے بیٹے کو آواز دی، جو (کچھ فاصلے پر ان سے) الگ تھا۔ بیٹا، ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور اِن منکروں کے ساتھ نہ رہو۔
اُس نے پلٹ کر جواب دیا: میں ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لوں گا جو مجھے اِس پانی سے بچا لے گا۔
نوح نے کہا: آج اللہ کے حکم سے کوئی بچانے والا نہیں ہے، مگر جس پر وہ رحم فرمائے۔ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا۔ (سورۃ نوح)
ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل کا رزلٹ اور ان کا اسٹیٹس
فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ. 79
وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ. 80
سو تباہی ہے اُن کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شریعت تصنیف کرتے ہیں، پھر کہتے ہیں:یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اِس کے ذریعے سے تھوڑی سی قیمت (پولیٹیکل ، فائنانشل اور سائیکولوجیکل فوائد)حاصل کر لیں۔ سو تباہی ہے اُن کے لیے اُس چیز کی وجہ سے جواُن کے ہاتھوں نے لکھی اورتباہی ہے اُن کے لیے اُس چیز کی وجہ سے جو (اُس کے ذریعے سے) وہ کماتے ہیں۔
ا ور (یہ وہ لوگ ہیں کہ) انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز نہ چھوئے گی۔ ہاں، گنتی کے چند دنوں کی تکلیف، البتہ ہو سکتی ہے۔ اِن سے پوچھ لیجیے: “کیا اللہ تعالی سے آپ نے کوئی عہد لیا ہے ؟ اِس لیے کہ اگر عہد لیا ہے تو اللہ کسی حال میں اپنے عہد کی خلاف ورزی نہ کرے گا یا آپ اللہ تعالی پر ایسی تہمت باندھ رہے ہیں جس کے بارے میں آپ کچھ نہیں جانتے۔ ” (سورۃ البقرۃ)
بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ. 112
ہاں ، یہ ضرور ہے کہ اپنی ہستی جن لوگوں نے اللہ تعالی کے سپرد کر دی، اور وہ اچھی طرح سے عمل کرنے والے ہیں، اُن کے لیے اُن کا اجر اُن کے رب کے ہاں محفوظ ہے ، اور اُن کے لیے نہ وہاں کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ کبھی غمزدہ ہوں گے۔ (سورۃ البقرۃ)
تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا رزلٹ
وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ. 10
آپ کو کیا ہوا ہے کہ آپ اللہ تعالی کی راہ میں خرچ نہ کرتے ہیں، درانحالیکہ زمین اور آسمانوں کی میراث، سب اللہ تعالی ہی کو لوٹنے والی ہے۔ (آپ پر واضح ہونا چاہیے کہ)آپ میں سے جو لوگ فتح (عرب ممالک) کے بعد (نیکی پر) خرچ کریں گے اور (راہ حق میں) جنگ کریں گے، وہ کبھی اُن لوگوں کے برابر نہ ہوں گے جنہوں نے فتح سے پہلے (شدید مشکلات کے زمانے میں بھی نیکی پر) خرچ کیا اور (راہ حق میں) لڑے۔
اُن کا درجہ یقینا اُن لوگوں سے بڑا ہو گا جو اِس کے بعد نیکی پر خرچ کریں گے اور جہاد کریں گے ، اگرچہ اللہ تعالی کا وعدہ دونوں ہی سے اچھا ہے۔ (یاد رکھیے کہ) جو کچھ آپ کرتے ہیں، اللہ تعالی اُس سے خوب با خبر ہے۔ (سورۃ الحدید)
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بچپن میں ہی ایمان لائیں اور ان کے بچے بھی اہل ایمان رہے۔ اپنی زندگی میں دینی خدمت کے لیے کتنی مشکلات ادا کرتے رہے۔ اس لیے ان حضرات کا وہی اجر نظر آتا ہے کہ وہ اعلی اسٹیٹس کے ساتھ جنت میں داخل ہو گے انشاء اللہ اور حدیث میں اسی کا ذکر ہے جو سورۃ الحدید میں بیان ہوا ہے۔ یہی اجر سابقون الاولون صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہے۔
سورۃ الحدید میں جو پرفارمنس کے لحاظ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا رزلٹ ہے، اسی کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ اس میں بھی اصل کی ورڈ ہے سید یعنی اعلی عزت جنت میں۔
وعن حذيفة قال: قلت لامي: دعيني آتي النبي صلى الله عليه وسلم فاصلي معه المغرب واساله ان يستغفر لي ولك فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فصليت معه المغرب فصلى حتى صلى العشاء ثم انفتل فتبعته فسمع صوتي فقال: «من هذا؟ حذيفة؟» قلت: نعم. قال: «ما حاجتك؟ غفر الله لك ولامك إن هذا ملك لم ينزل الارض قط قبل هذه الليلة استاذن ربه ان يسلم علي ويبشرني بان فاطمة سيدة نساء اهل الجنة وان الحسن والحسين سيدا شباب اهل الجنة» رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب
حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے اپنی والدہ سے کہا: مجھے چھوڑ دیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے ساتھ نماز مغرب ادا کروں، اور آپ سے درخواست کروں کہ آپ تمہارے لیے اور میرے لیے دعائے مغفرت فرمائیں، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے ساتھ نماز مغرب ادا کی، آپ (نفل) نماز پڑھتے رہے حتیٰ کہ آپ نے نماز عشاء ادا کی، پھر آپ واپس گھر جانے لگے تو میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری آواز سنی تو فرمایا: ”کون ہے؟ کیا حذیفہ ہے؟“ میں نے عرض کیا، جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تمہاری اور تمہاری والدہ کی مغفرت فرمائے، کیا کام ہے؟ (پھر فرمایا) یہ ایک فرشتہ ہے، جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا، اس نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ وہ مجھے سلام کرے اور مجھے بشارت سنائے کہ فاطمہ اہل جنت کی خواتین کی سردار ہیں۔ اور حسن و حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ “ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله
«إسناده حسن، رواه الترمذي (3781)»
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سوال: حضرت امام حسن نے حضرت معاویہ کے خلاف کبھی لشکر کشی کی؟
جواب: یہ کبھی نہیں ہوا اور اس میں کوئی روایت ہے بھی نہیں۔ اس کا الٹ البتہ ہے کہ جب حسن اور معاویہ رضی اللہ عنہما میں خطوط کے ذریعے ڈسکشن ہوئی اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے باکل بلینک پیپر میں سائن کر دیا اور فرمایا کہ جو شرائط آپ چاہیں، وہ خود ہی لکھ دیں۔ اس کے کچھ عرصے بعد قسطنطنیہ جہاد کا لشکر چلا تو اس کے امام یزید تھے۔ اسی لشکر میں حسن، حسین، عبداللہ بن زبیر اور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے۔
اس معاہدے کے مطابق معاویہ رضی اللہ عنہ بڑا فنڈ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو دیتے تھے جو پھر عراق میں جا کر سیلری یا دیگر بونس انہی باغیوں کو دیتے رہتے تھے تاکہ یہ لوگ بغاوت نہ کریں۔ اس زمانے میں بغاوت کا مسئلہ یہ تھا کہ چند آدمی بھی باغی بنتے تو ان کا اپنا قبیلہ ان کے ساتھ ہی آ جاتا اور وہ چند سے بڑھ کر ہزاروں باغی بن جاتے تھے۔
سوال: باغیوں نے جب خطوط لکھ کر حضرت امام حسین کو کوفہ بلایا تا کہ حکومت کے خلاف بغاوت کریں لیکن بعد میں یہ باغی تحریک نے ابن زیاد کا ساتھ کیوں دیا حالانکہ یہ لوگ امام حسین کی قیادت میں ابن زیاد کو شکست دے سکتے تھے؟
جواب: یہ سب باغی ملٹری کا حصہ تھے۔ اس زمانے میں یہ تو ہو چکا تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے تمام سپاہیوں کو سیلری دینی شروع کر دی تھی۔ لیکن ان کے ہاں وہی پرانی عادت باقی تھی کہ وہ اپنی آزادی سے رہتے۔ جب بھی کوئی جنگ ہوتی، تب وہ ملٹری میں آ جاتے تھے۔ اگرچہ عمر رضی اللہ عنہ نے کینٹ بھی بنا دیے تھے لیکن ان کے ہاں وہی پرانی قبائلی کلچر باقی تھے۔ کینٹ کے اندر بھی انہوں نے ہر قبیلے نے اپنے محلے بنا دیے تھے۔
اب جا کر اسٹینڈنگ ملٹری کا کارنامہ تو یورپی لوگوں نے 1700 عیسوی سے شروع کیا ورنہ ان کی فوجیں بھی اسی قبائلی فوجیں ہی تھیں اور جو آپس میں لڑتے رہتے تھے۔
سوال: اگر باغی بنو امیہ کے خلاف بغض رکھتے تھے تو پھر انعام کی لالچ میں یہ کیسے آ گئے ابن زیاد کی طرف سے؟
جواب: بنو امیہ سے ان کا کوئی ذاتی مسئلہ تو نہ تھا۔ ہوا یہی کہ جب ان کی پارٹیوں نے بغاوت بنانے کا سلسلہ شروع کیا تو سب سے اچھی صلاحیت کے گورنر معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے اصلاح کر کے، چھوٹی چھوٹی سزائیں اور بونس بھی دے کر ان کی بغاوت کو شروع نہیں کرنے دیا۔ لیکن ان کا علاقہ تو آج کل کا سیریا، لبنان، فلسطین اور اردن ہی تھا تو یہاں کبھی بغاوت نہیں ہوئی۔ لیکن عراق، مصر اور یمن میں وہ باغی کامیاب ہو گئے۔
دیگر گورنر ان بغاوتوں کی تیاری کو نہیں روک سکے لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ نے کر دیا تھا۔ اس لیے انہیں باغیوں کو بغض معاویہ رضی اللہ عنہ پر رہا کہ وہ ان کی طاقت کو اٹھانے ہی میں کامیاب ہو گئے۔
قبائلی عادت والے لوگوں کی بغاوت کو ختم کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ اس کے لیے آپ ابھی دیکھ سکتے ہیں کہ افغانستان کی حکومت اور امریکہ مل کر کیا کر رہے ہیں اور پھر بھی بغاوت ختم نہیں کر سکے ہیں۔
سوال: جہاں تک میرا خیال ہے جب عمر ابن سعد نے حضرت حسین کی تجاویز قبول کر لیں تو ابن زیاد نے بھی آمادگی ظاہر کر دی تھی۔ لیکن شمر اور باقی باغیوں نے ابن زیاد کو کہا کہ آپ خود حسین سے بیعت لیں کیونکہ اگر حسین یزید کے پاس چلے جاتے تو ان باغیوں کا پول کھل جانا تھا اور پھر یزید نے انھیں گن گن کے مارنا تھا۔؟
جواب: باغی لوگ بھی ایک جیسے انسان نہیں تھے۔ کچھ 100% شدت پسند تھے اور کچھ کو آپ 90% یا 82% یا 50% بھی کہہ سکتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی تھے جو صرف ان باغیوں کے پراپیگنڈا کے اثرات قبول کر چکے تھے لیکن وہ حسین رضی اللہ عنہ سے محبت بھی کرتے تھے۔ اب تجزیہ یہ لگتا ہے کہ جو لشکر کربلا میں آیا تھا، اس کی اکثریت انتہائی شدت پسند تھے اور اکا دکا ہی لوگ محبت والے تھے۔
اس میں یہی لگتا ہے کہ جب حسین رضی اللہ عنہ نے یزید سے ملاقات کرنے کا فرمایا اور پھر ان کے خطوط بھی دکھا دیے تو ان کی لٹیا ڈبو دی۔ انہیں پھر حل یہی لگا کہ حسین رضی اللہ عنہ کو ہی شہید کر دیں اور خطوط کو ڈیلیٹ کر دیں۔
سانحہ کربلا کے بعد یزید تین سال تک ہی حکمران رہے لیکن ان کا کنٹرول عراق میں مضبوط ہو ہی نہیں سکا کہ وہ کوئی ایکشن کر لیتے۔ ان کی وفات کے بعد جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے حجاز میں حکومت بنا لی تو پھر 63-73 ہجری کے عرصے میں عراق میں بغاوتیں ہی ہوتی رہیں۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کچھ عرصے کے لیے بغاوتیں ختم کیں لیکن ان کی وفات کے بعد پھر وہی ہو گیا۔
یہی کہہ سکتے ہیں کہ عبدالملک بن مروان ہی کنٹرول کر سکے لیکن عراق کا سکون 73-130 ہجری تک رہا۔ پھر بنو عباس نے عراق فتح کیا تو اسی کو اپنا دارالحکومت بنا لیا لیکن ان کے پورے عرصے میں 133-656 ہجری تک عراق میں یہی بغاوتیں ہوتی رہیں۔ اس کے بعد بھی آج تک یہی صورتحال عراق کی ہے۔ بلکہ بنو امیہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سیریا اور فلسطین کی صورتحال بھی آج تک ایسی ہی ہے۔ یہی حالت افغانستان، یمن، لیبیا، الجزائر، پاکستان، انڈیا وغیرہ کی حالت بھی یہی رہی ہے۔
سوال: شمر ابن جوشن اگر جنگ صفین میں حضرت علی کا حامی تھا تو پھر یہ حضرت امام حسین کے خلاف کیوں ہو گیا؟ کیا جیسے یہ علی کو استعمال کرنا چاہتے تھے ویسے ہی امام حسین کو بھی انھوں نے استعمال کیا؟؟
جواب: ہر انسان کا رویہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا ہے۔ آپ اپنے دوستوں کو دیکھ لیجیے کہ کبھی بڑے مثبت اور محبت والے ہوں اور کبھی لڑائی بھی کر لیتے ہوں۔ جب بھی مفاد تبدیل ہوتا ہے تو انسان کا رویہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ شاید ہی کبھی ملیں جو پچپن سے لے کر بڑھاپے تک ایک ہی رویے میں رہے ہوں۔ بہرحال ہمیں احتیاط ہی کرنی چاہیے کہ معلوم نہیں کہ وہ صاحب نے سچ مچ یہ حرکتیں کیں یا نہیں۔ اس لیے اس معاملے کو آخرت تک اللہ تعالی کے حضور جا کر پوچھ لیں گے۔ ابھی تک تاریخی روایات میں بہت سی جعلی کہانیاں شامل ہو گئی ہیں۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com