سوال: حلال و حرام کا ضابطہ بیان کرتے ہوئے قران میں جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیا مثلاً خنزیر،خون،غیر اللہ کے نام پہ ذبح کرنا وغیرہ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کے بارے میں انسانی عقل فیصلہ نہیں کر سکتی۔ اور اِسکے علاوہ جو جنرل قانون ہے وہ یہ ہے کہ تمام طیب چیزیں حلال ہیں اور تمام خبائث حرام ہیں ۔ طیب وہ چیزیں ہیں جو انسانی فطرت پسند کرتی ہے اور خبائث وہ ہیں جن سے انسانی فطرت اباح کرتی ہے۔
سوال اب یہ پیدا ہوتا ہے کہ مختلف علاقوں میں انسانی فطرت مختلف پائی جاتی ہے مثلاً ترکی میں لوگ گھوڑے کا گوشت کھاتے ہیں اور برصغیر میں ایسا نہیں ہے۔ تو پھر کیا علاقہ بدلنے سے حلال و حرام کا فرق ہو سکتا ہے جن کے بارے میں قران خاموش ہے اور انسانی فطرت پر فیصلہ چھوڑتا ہے؟
ڈاکٹر ثوبان انور، فیصل آباد
جواب: آپ کا دلچسپ سوال ہے۔ اللہ تعالی نے اکثر احکامات جو قرآن مجید میں ہیں، وہ اصول پرنسپل کی شکل میں ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ اصول پر اپلائی کر کے پروسیجر بھی بنایا ہے جیسے نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ۔
اس کے بعد پھر مزید سوالات پیدا ہوتے رہے ہیں اور اسکالرز نے اپنے تجربے کے لحاظ سے اپلائی کیا ہے۔ اس میں علم الفقہ میں اصول یہی ہے کہ قرآن و سنت کے احکامات کو اپلائی کرنے میں جو بھی کوشش کر رہا ہے جسے اجتہاد کہتے ہیں۔ اس کا اجر اسے ملے گا جیسا کہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اجتہاد جو کرے گا اور غلطی بھی ہو گئی تو تب بھی اسے اپنی کاوش کا اجر ملے گا۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر نیت درست ہے تو پھر اجتہادی غلطی پر بھی اجر مل جاتا ہے۔
جانوروں کے معاملے میں ایسا ہی ہے۔ خنزیر میں انسان کو غلط فہمی رہی تو اللہ تعالی نے فیصلہ بتا دیا۔ آپ اب سائنس میں اسٹڈی کر کے سمجھ لیتے ہیں کہ خنزیر، مویشی قسم کا ہے لیکن اس میں چیتے کی طرح صلاحیت بھی ہے اور وہ پھاڑ کر گوشت کھا لیتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے فیصلہ دے دیا۔ اب مزید جتنے جانور ہیں، انہیں آپ نے ہی اجتہاد کرنا ہے۔ اصول یہی ہے کہ وہ جانور ناپاک ہے جو دیگر جانوروں کو پھاڑ کر گوشت کھاتا ہے۔ باقی سب حلال ہیں۔ اب گھوڑے کا فیصلہ آپ فرما سکتے ہیں کہ وہ مویشی ہے یا شکاری جانور؟ اس میں فقہاء کی نسبت بہتر بتا سکتے ہیں کہ آپ اس کے اسپیشلسٹ ہیں۔ اسی طرح پرندوں اور پانی کے جانوروں میں آپ ہی فیصلہ کر سکتے ہیں۔
میری اسٹڈیز یہی ہے کہ گھوڑا گدھا وغیرہ مویشی ہی ہیں۔ کچھ احادیث میں ملتا ہے کہ انہیں اس لیے منع کیا گیا کیونکہ یہی سواری کے اہم ترین جانور تھے جو عرب میں تھے۔ لیکن احادیث ہی میں جنگلی گدھے تو شکار کر کے ذبح کر کے کھا لیتے تھے۔ اسی طرح گوہ کو شکار میں استعمال کرتے تھے اور کھاتے تھے۔
تاجکستان، ازبکستان، ترکی وغیرہ میں گھوڑا اتنا زیادہ ہے تو انہوں نے اجتہاد یہی کیا ہے کہ یہ جائز ہے اور اس سواری کی کمی بھی نہیں ہے۔
سوال: اگر ایسا ہے تو قران پاک کا یہ قانون نہیں رہے گا بلکہ کنفیوز ہو جائے گا؟
جواب: اصول یہی ہے کہ شکاری جانور حرام ہے اور مویشی جائز ہیں۔ باقی گرے ایریاز آ جاتے ہیں اور اجتہاد ہی کرنا پڑتا ہے کہ اس اصول کو اپلائی کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہی جانوروں پر ارشاد فرما دیا جو عرب علاقے میں بتا دیا کہ یہ کھانے والے جانور ہیں اور یہ نہیں۔ اس میں یہ بتا دیا کہ گھوڑے گدھے وغیرہ سواری کے جانور ہیں۔ اس لیے اسے نہیں کھایا البتہ جنگلی گدھے کھا لیتے تھے کہ وہ سواری نہیں کرتے تھے۔
دیگر ممالک میں فقہاء نے اجتہاد کیا کیونکہ یہ نئی چیزیں تھیں۔ اس کی یہی مثال ہے کہ تاجکستان وغیرہ کے علماء گھوڑے کا گوشت کھاتے ہیں جبکہ انڈیا پاکستان میں نہیں کھاتے ہیں کیونکہ وہ گرے ایریا ہے۔ اسی طرح پرندوں اور سمندری جانور میں بھی گرے ایریاز ہو سکتے ہیں اور اس میں ہر ریسرچر چیک کر کے بتا سکتے ہیں کہ یہ شکاری جانور ہے یا مویشی۔ اسی میں اجتہاد ہوتا ہے اور ہر ٹائم اور ہر علاقے کے ریسرچز میں اختلاف ہو سکتا ہے۔
اس میں ایک دلچسپ کیس ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں پر زکوۃ بتا دی کہ اونٹ، گائے اور بکرے کی زکوۃ اتنی ہے۔ دیگر ممالک میں نئے جانور نظر آئے تو پھر فقہاء نے اجتہاد کیا کہ اس پر زکوۃ کتنی ہو۔ اس میں بھینس پر زکوۃ وہی ادا کی جو گائے والی زکوۃ ہے۔ اسی طرح ہرن کو بکرے کی بنیاد پر قیاس کر لیا۔
سوال: ٹھیک ہے سر آپ نے جو اجتہاد کا حوالہ دیا وہ ٹھیک ہے کہ اگر اجتہادی غلطی بھی ہو جائے تو قابلِ گرفت نہیں۔ مگر میرا ایک مزید سوال یہ ہے کہ اِس اجتہاد کی بنیاد کسے بنایا جائے؟ یقیناً قران و سنت کو ہی بنیاد بنایا جائے گا۔ اور قران میں یہ ایک مسلم اصول ہے کہ تمام طیب چیزیں حلال ہیں اور خبائث حرام ۔ اور اسی اصول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپلائی کیا درندوں کے معاملے میں۔ اور کیونکہ عرب کے لوگ جن چیزوں سے اباحت رکھتے تھے تو وہ ہی حرام قرار دیے گئے۔ لہذا کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ جب عرف تبدیل ہو( عرب جن چیزوں سے اباحت کھاتے تھے وہ اگر آج کے مسلمانوں کے ہاں عام طور پر کھائی جانے لگیں) تو جن چیزوں کی حرمت قرانی نص سے ثابت نہیں ہے اُن کو حلال سمجھا جا سکتا ہے؟ اور یہ ملتے جلتے چیز ہے جو عرف کے مطابق تبدیل ہو سکتی ہے؟
اجتہاد کے طریقے پر تو آپ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب میں پڑھ لیجیے۔
لوگوں کی اباحت سے حرام نہیں ہو سکتے ہیں بلکہ وہ دلچسپ حدیث خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ہے۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھانا رکھا گیا جس میں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔ اس کھانے میں گوہ کا گوشت تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کھایا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یہ کیا حرام ہے تو آپ نے فرمایا کہ نہیں، ہمارے ہاں یہ نہیں کھایا جاتا ہے لیکن ہے جائز۔ اس پر خالد رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پلیٹ کو اپنی پلیٹ پر الٹا دیا اور خوب کھایا۔
اصول یہی ہے اور پالتے ہوئے گدھے کو بھی سواری کے طور پر اسے کھانا منع فرمایا ورنہ اسے حرام نہیں قرار دیا۔ اسی بنیاد پر سنٹرل ایشیا کے فقہاء نے گھوڑے کو کھا لیتے ہیں۔
سوال: اور دوسری بات جو آپ نے ارشاد فرمائی کہ میں اپنے دوستوں کے اجتہاد پر تبصرہ نہیں کرتا۔ ٹھیک ہے ۔مگر میں نے اُس آرٹیکل کا حوالہ اِس لیے دیا تھا کہ اگر آپ اسے ریڈ کر لیں تو میرا سوال زیادہ واضح ہو جائیگا ۔ میرا مقصد آپ سے تنقید کروانا نہیں تھا۔
جواب: مجھے یہ آرٹیکل ملا ہی نہیں۔ آپ اس کا لنک بھیج دیجیے اور ساتھ ہی اپنا سوال اس سے متعلق ضرور پوچھ لیجیے۔
3- سوال: میرے دوست نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ سٹار فش حلال ہے یا حرام۔ تو میں نے جواب میں کہا کہ اس میں مچھیروں یا سائنسدانوں کی رائے لینی ہو گی کہ وہ سٹار فش کو مچھلی کہتے ہیں یا Arthropod.اگر وہ اسے مچھلی کہتے ہیں تو حلال ہے اگر Arthropod کہتے ہیں تو حرام ہے کیونکہ جس طرح لال بیگ، جھینگے ،بچھو وغیرہ حرام ہیں اسی طرح اگر اِس category میں سٹار فش بھی آ جائے تو یہ بھی حرام ہو جائیگی.
اسٹار فش کی تفصیل آپ خود سرچ کر لیجیے کہ وہ جانوروں کو چیر کر کھاتی ہے یا کوئی پودے ہی کھاتی ہے۔ اگر محض پودے ہی کھاتی ہے تو جائز ہے لیکن اگر وہ شارک فش کی طرح جانوروں کو چیرپھاڑ کر لیتی ہے تو حرام ہے۔ مجھے اس کا علم نہیں ہے۔
جھینگے پر تو تمام فقہاء میں اتفاق ہے کہ وہ اسے جائز ہی سمجھتے ہیں کیونکہ وہ چیر پھاڑ نہیں کرتا ہے۔ مجھے بھی بہت پسند ہے۔ میں تو سعودی عرب میں جھینگے زیادہ کھا لیتا تھا کہ وہاں بہت سستا تھا۔
http://www.albaik.com/en/meal/our-menu/shrimp-sandwich-3.html
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com