دینی علماء میں اختلاف کیوں پیدا ہوتا رہا ہے اور ہم کیا کریں؟

سوال: سر میرا ایک دوست ہے اسے دینی علم کا بہت شوق ہے۔ وہ کلاسیکل اسلامک ٹریڈیشن کو بہ فالو کرتا ہے۔اس کا مطالعہ بھی بہت وسیع ہے کلاسیکل اسلام کا۔ اس کے ساتھ  میری دینی معلو مات پر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ ہمارا کافی اختلاف ہوتا ہے کیونکہ میں چیزوں کو ماڈرن انداز میں بھی دیکھتا ہوں اور پھر مذہب کا دائرہ کار دیکھتا ہوں کہ یہ چیز مذہب کا موضوع ہے بھی یا نہیں۔ لیکن وہ ہر چیز کو تقلیدی انداز میں دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ عام انسان کو تقلید ہی کرنی چاہیے۔ 

ڈاکٹر ثوبان انور، فیصل آباد

جواب: ان بھائی کے لیے مشورہ یہ دوں گا کہ ان سے بحث اور مناظرہ نہ کیجیے گا کیونکہ عموماً روایت پسند بھائی بڑے جذباتی ہوتے ہیں اور وہ لڑنے لگتے ہیں۔  ان سے اگر بحث کی حد تک آ پہنچے تو پھر لکھ کر ہی بات کیجیے گا۔  

سوال: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے کہ میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی۔جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج تک جن امور پر جمہور علماء متفق ہیں ان مسائل کو موضوع بحث نہیں لانا چاہیے کیونکہ وہ چیز اسٹیبلشڈ ہو چکی ہے۔ مثلا یزید کو سب آئمہ نے کافر اور فاسق و فاجر لکھا ہے سوائے امام ابو حنیفہ کے ۔ وہ لوگ ہم سے زیادہ جانتے تھے اس لیے اب ہمیں ان کی رائے سے اتفاق کرنا ضروری ہے۔

جواب: اس حدیث میں یہ دیکھ لیجیے کہ یہاں ’’امت‘‘ سے کیا مراد ہے؟ عربی زبان میں امت گروہ کو کہتے ہیں اور جب نبی کی امت کی بات ہو تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان پر ایمان لائے ہیں۔ یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں امت فرمایا ہے اور وہ کبھی گمراہی میں جمع نہیں ہوئے۔ اسی طرح اگلی نسلوں میں امت مسلمہ میں گمراہی پر اتفاق کبھی نہیں ہوا ہے۔ 

جہاں تک فقہ قانون اور تاریخ کا تعلق ہے تو اس کا تعلق دین سے ہے ہی نہیں۔ اس میں دین کی  جو بات ہے، وہ تو قرآن مجید میں ہے۔ فقہ کا جو حصہ قرآن و سنت کے مطابق ہے، اس میں واقعی امت میں گمراہی نہیں ہوئی ہے اور وہ متفق ہیں۔ اختلافات ہمیشہ اجتہاد میں پیدا ہوئے ہیں۔ اسی طرح تاریخ بھی ایک سوشل سائنسز کا علم ہے، جس میں اختلاف ہو سکتے ہیں۔ یہاں کسی دینی گمراہی کا تعلق ہی نہیں ہے بلکہ  ایسے ہی اختلافات ہیں جیسا کہ فزکس، کمسٹری، سوشل سائنسز میں ہوتے ہیں۔ 

یزید صاحب یا ابوحنیفہ صاحب پر تجزیہ تو محض تاریخی علم سے متعلق ہے۔ اس میں جو بھی ریسرچ آپ کریں، اس میں اگر اخلاقیات پر عمل کر کے تجزیہ کیا ہو تو اس میں کوئی بھی گمراہی نہیں بنتی ہے۔ کچھ بھائی جعلی روایات پر تجزیہ کر لیتے ہیں اور کوئی قابل اعتماد روایات پر تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ علمی کام ہے، جس میں گمراہی کسی کو نہیں کہہ سکتے ہیں۔ 

سوال: سب سے بہترین زمانہ زسول اللہ کا ہے اس کے بعد صحابہ کا پھر تبع تابعین کا۔ بعد کی امت میں تقوی باقی نہیں رہا اس لیے جیسے انہوں نے دین بیان کیا ہمیں بھی اسے ہی فالو کرنا چاہیے آج کے دور میں اپنی عقل سے نئی چیزیں نہیں نکالنی چاہییں۔ 

جواب: یہ صحیح فرمایا ہے۔ دین میں کوئی اضافہ حرام ہے۔ دین تو بس وہی ہے جو قرآن اور سنت متواترہ میں ہے اور اس میں امت میں کوئی اختلاف بھی نہیں ہے۔ اختلاف اجتہاد ہی میں ہوتا ہے اور اس میں کوئی گمراہی نہیں ہے۔ اس میں تو پھر صرف دلیل ہی کا فیصلہ ہو سکتا ہے کہ کیا درست ہے اور کیا نہیں لیکن وہ دین کا حکم ہی نہیں ہے۔  

سوال: دوسری  تیسری صدی میں جب فقہ مدون ہوئی تو اس وقت کے لوگ احادیث کے ساتھ صحابہ کے اقوال و اعمال سے بھی زیادہ واقف تھے اور آج ہم حدیث سے تو واقف ہیں لیکن فقہاء کی طرح متواتر عمل سے واقف نہیں ہیں اس لیے انھیں اٹھارٹی حاصل ہے ہم پر ان کی تقلید لازم ہے۔

جواب: یقیناً وہ واقف ہوں گے لیک ن وہ صرف قرآن و سنت متواترہ ہی کا علم ہی حاصل تھا۔ رہے ان کے اجتہادات تو وہ ان کا انسانی عمل ہی تھا۔ اس کے لیے یہی دلچسپ مثال آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سوال پیدا ہوا کہ شوہر غائب ہو گیا ہے تو بیوی کا کیا کیا جائے؟ اس میں کہا جاتا ہے کہ

۔۔۔۔۔۔ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی رائے یہ کہی جاتی ہے (لیکن انہوں نے لکھا نہیں ہے مگر کہا جاتا ہے کہ) عورت 90 سال انتظار کرے۔ تب جا کر کنفرم ہو گا کہ شوہر مر گیا ہے، اب وہ چاہیں تو شادی کر لیں۔ 

۔۔۔۔۔۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کی رائے یہ ہے کہ خاتون چار سال تک انتظار کریں۔ پھر یہ فرض کر لیا جائے کہ شوہر فوت ہو گئے ہیں اور وہ بیوہ  ہو گی چاہے تو شادی کر لے۔ 

اب دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان انڈیا کے حنفی اسکالرز اس اجتہاد میں امام مالک ہی کی رائے کو مانتے ہیں اور امام ابوحنیفہ کی رائے کو چھوڑ دیتے ہیں۔   ویسے مجھے یہی لگتا ہے کہ ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے اتنی نامعقول رائے ہو گی نہیں بلکہ کسی اور کی ہو گی جو ان کے نام پر منسوب ہو گئی ہے۔ 

سوال: یہ جو چار فقہ مدون کی گئی ہیں یہ امت کو جوڑنے کے لیے ہیں کیونکہ فقہ تو بہت  ساری تھیں سب کو ملا کے یہ چار بنائی گئی ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو امت میں کئی فرقے بن جاتے۔ اسی لیے عام آدمی کو اجتہاد سے منع کیا جاتا ہے کہ نئی نئی فقہ وجود میں نہ آئے اور فرقے نہ بن سکیں۔

جواب: جن حضرات نے فرقہ واریت سے بچانے کے لیے تقلید کا اصول بیان فرمایا تو تب بھی پریکٹیکل یہی ہوا ہے۔ اب آپ دیکھیے کہ انڈیا اور پاکستان میں صرف حنفی علماء کے ہاں دو مشہور فرقے بن گئے بریلوی اور دیوبندی۔ ایسا ہی دیگر ممالک میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ فقہ ایک ہی ہے لیکن فرقے کئی بنے ہوئے ہیں۔ اس سے یہی تجزیہ نظر آتا ہے کہ تقلید کا حل نہیں ہے بلکہ اصل رویہ ٹھیک کرنے کا ہے۔ اجتہاد میں اختلاف بھی ہو تب بھی دوسروں کی عزت کرتے رہیں اور محبت کرتے رہیں۔ 

اسے ایک غیر مسلم عالم نے یورپ کی بات کہی ہے کہ سائنسدانوں میں اختلاف بھی ہوتا ہے تب بھی دوستی رہتی ہے لیکن مذہبی لوگ اختلاف کی بنیاد پر دشمن بن جاتے ہیں۔   اسے آپ میری اس کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔ 

سوال: ان 4  فقہ پر جمہور کا اتفاق ہے اس لیے یہ اسٹیبلشڈ ہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ پانچویں یا چھٹے فقہ کی کیا غلطی ہے کہ انہیں بھی شامل کر لیں۔ اس وقت امت میں مزید 10 اسکول آف تھاٹ موجود ہیں۔ ان چاروں فقہ میں جو اصول بیان ہوئے ہیں وہ  زیادہ سے زیادہ اصول تھے جو بن سکتے تھے اب کوئی نیا اصول نہیں بن سکتا۔

جواب: میری رائے جو میں نے اسے بتائی وہ یہ تھے۔

اسلام میں دو چیزیں ہیں ایک مجرد حقائق ہیں جیسے کہ ایمانیات اور دوسری چیزیں کچھ ایسی ہیں جو وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہیں۔

ان چیزوں کے حوالے سے مذہب ہمیں اصولی ہدایات دیتا ہے اور ہر دور کے اہل علم اپنی دینی فکر کی بنیاد پر  اجتہاد کے ذریعے ان احکامات میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔ اور بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو تمدنی ہوتی ہیں اور یہ چیزیں مذہب کا موضوع نہیں ہوتیں۔ مثلا انسان کا لباس جو کہ ہر دور کے لحاظ سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔

میں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے اسے مزید بتایا کہ آج سے دس سال پہلے یہ بحث ہوتی تھی کہ پینٹ شرٹ کے ساتھ نماز ہوتی ہے یا نہیں لیکن آج یہ بحث بالکل مفقود ہے کیونکہ یہ مذہب کا موضوع نہیں ہے کہ لباس کس طرح کا ہونا چاہیے بلکہ یہ ایک تمدنی چیز ہے جو وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتا ہے۔

آپ کے دلائل مضبوط ہیں اور اسی پر میں بھی قائل ہوں۔ ایک دلچسپ واقعہ شیئر کرتا ہوں کہ بچپن میں کئی فقہاء نے فرمایا کہ ٹائی پہننا حرام ہے کیونکہ یہ عیسائیوں کا مذہبی عمل ہے کہ وہ سلیب پر عقیدت رکھتے ہیں۔ میں بھی مان گیا اور کبھی ٹائی نہیں پہنی۔ جب جاب ملی تو اس کا کہا گیا تو میں پھر ریسرچ کے لیے عیسائی علماء سے ملا۔ ان سے پوچھا کہ ٹائی  آپ کیوں پہنتے ہیں۔ سب کیتھولک اور پروٹسٹنٹ علماء نے یہی بتایا کہ بھائی یہ عام لباس ہے، اس میں دین  یا سلیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سلیب کی عقیدت پر وہ لکڑی سے بنا کر گردن پر پہنتے ہیں۔ 

یہ کنفرم ہوا تو معلوم ہوا کہ مسلم فقہاء کو غلط فہمی ہوئی ہے ورنہ تمام مسلم ممالک میں ٹائی اب نارمل عمل بن گیا ہے اور اس میں سلیب اور ٹائی سے کسی کو معلوم بھی نہیں ہے۔ 

میری اس رائے پر اس نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا۔

اس نے کہا کہ حدیث میں ہے کہ جس قوم نے جس دوسری قوم کی مشابہت اختیار کی اس کا انجام اس کے ساتھ ہی ہو گا۔ اس حدیث کے لحاظ سے پہلے پینٹ شرٹ کو  کیونکہ مغربی لباس کی حیثیت حاصل تھی اس لیے ہم اسے پہن کر نماز نہ پڑھنے کا کہتے تھے لیکن آج کیونکہ یہ ایک انٹر نیشنل لباس کی حیثیت اختیار چکا ہے اس لیے اب یہ عرف ہوا اور اب ہم نماز پڑھ سکتے ہیں۔ 

گویا کہ میرے دوست نے ایک تمدنی چیز کو بھی مذہبی پہلو دے دیا۔ 

پھر یہ بھی سوچ لیجیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لباس وہی تھا جو مکہ مکرمہ کے عرب لوگ پہنتے تھے اور اس میں دین کا کوئی حکم نہیں تھا۔ سب ہی دھوتی اور لمبی سی شرٹ پہنتے تھے۔ مسلمان پھر جب دیگر ممالک میں سیٹل ہوئے تو انہوں نے اسی ملک کا لباس پہننا شروع کر دیا۔ انڈیا ہی میں دیکھیے کہ قدیم ہندو حضرات کا جو لباس شلوار قمیص، پگڑی اور دھوتی استعمال کرتے تھے اور ابھی پہنتے ہیں۔ یہی مسلم علماء اور فقہاء یہی پہنتے رہے ہیں۔

 اس سے یہی واضح ہے کہ اس میں دین کا کوئی حکم ہے ہی نہیں۔ ہاں اتنا حکم ہے کہ اس میں اعضاء رئیسہ کو چھپانا ہے اور اس پر وہ ہمیشہ عمل کرتے ہیں۔  

جو بھائی ماننا چاہیں چاہتے تو ہم کسی پر زبردستی نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم بس اپنا نقطہ نظر اور دلیل ہی دے سکتے ہیں، فیصلہ وہ خود ہی کریں جو بھی بہتر سمجھ رہے ہیں۔ 

ایک بڑا ایشو سنی حضرات میں ہے۔ حنفی مالکی فقہاء کے نزدیک صرف ایک  دو افراد حدیث کی بنیاد پر سنت کنفرم نہیں ہوتی ہے جبکہ حنبلی یعنی پاکستان کے اہل حدیث فقہاء کے نزدیک یہ بھی سنت ہوتی ہے۔ اس میں پھر بڑا فرق نظر آتا ہے۔ 

ان پر پھر اعتراض یہی ہوتا ہے کہ  یہ کیسے ممکن ہے کہ دین کا پوری امت کے لیے حکم ہو تو صرف ایک دو صحابہ ہی کو معلوم ہو اور باقی سب کو معلوم نہ ہو۔

 اس طرح تو نعوذ باللہ یہ سمجھا جائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام انسانوں تک اللہ تعالی کا پیغام نہیں پہنچایا ہے، معاذ اللہ۔ اسی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ دین کا حکم وہی ہے جو تواتر کے ساتھ پوری امت کو پہنچا ہے۔  احادیث  کی نوعیت اسی قرآن و سنت کی  وضاحت ہی ہے جسے امام شافعی نے بیان کیا ہے۔ اس میں بس ان بڑے ایشوز میں آتا ہے کہ  کچھ صحیح احادیث میں پورا سیاق و سباق نہیں ہوتا ہے تو لوگ اسے اوپن کر دیتے ہیں حالانکہ وہ کسی خاص صورتحال سے متعلق ہو۔ 

آپ نے سنا ہو گا کہ کئی پرانی روایت والے فقہاء اس طرح کر دیتے ہیں تو پھر مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ جیسے کئی بھائی برش پیسٹ کو حرام سمجھتے ہیں کہ  احادیث اور تواتر میں مسواک کا حکم ہے۔  اسی طرح حنفی بھائی یہ سمجھتے ہیں کہ پاؤں میں مسح صرف چمڑے والی جرابوں میں ہو سکتا ہے۔ باقی کسی اور قسم کی جرابوں پر مسح غلط ہے۔ اسی بنیاد پر آپ کو نظر آئے گا کہ تبلیغی جماعت والے بھائیوں کی مسجد ہی میں چمڑے کے جرابیں مل سکتی ہیں، باقی کہیں نہیں ملتی ہیں۔ 

اس پر جاوید صاحب نے دلچسپ اعتراض ان سے کیا کہ بھائی، جب بھی آپ تشریف لائیں تو گھوڑے یا گدھے ہی میں آئیے گا، گاڑی میں نہ آئیے گا کہ آپ کے اصول میں سنت تو اسی میٹریل سے ہے جو عہد رسالت میں تھا۔ اس میں یہ اعتراض میں نے ایک بھائی سے کیا کہ جب آپ جہاد کے لیے جائیں تو  صرف تلوار ہی سے کیجیے گا، بندوق اور جہازوں کے ذریعے نہ کیجیے گا خواہ دشمن کے پاس سب کچھ ہو۔ 

سوال: تین طلاق میں علماء میں اختلاف کیوں ہے؟

جواب: تین طلاق میں سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوگا کہ وہ صاحب سوچ سمجھ کر پورا تجزیہ کر کے تین طلاق دے رہے ہیں یا محض غصے ہی میں کوئی بکواس کے طور پر کر کہہ بیٹھے ہیں۔ اگر واقعی سوچ سمجھ کر لاجیکل تین طلاق ہی دینا چاہتے تھے تو پھر تمام عدالت اسی کو مان لے گی۔ 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تو یہ تھا کہ لوگ غصے میں طلاق کہہ دیتے تھے۔ پھر جب شعور میں آتے تو بتاتے کہ وہ طلاق نہیں دے رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بہت سے ایسے مقدمے آئے تو انہوں نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو ورنہ پھر میں تمہاری طلاق کو قانونی طور پر نافذ کر دوں گا۔ اس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ محض غصے میں طلاق کچھ سرے سے تھی ہی نہیں۔ انہوں نے لوگوں کے غصے کو کنٹرول کرنے کے لیے طریقہ بنایا تھا۔ اس کے لیے بخاری کی وہی حدیث پڑھ لیجیے جس میں یہ فیصلہ انہوں نے فرمایا۔ 

اس میں دلچسپ کیس آپ کے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہوا تھا۔ انہیں بھی کوئی غصہ ہی آیا تھا اور انہوں نے پیریڈ کے دوران طلاق کہہ دی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا کہ  میرے سامنے ہی قرآن پر مذاق کیا جا رہا ہے؟ اسے رجوع یعنی کینسل کریں اور اگر طلاق دینی ہی ہے تو پھر پیریڈ کے بعد دیجیے گا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو افسوس ہوا، انہوں نے توبہ کی اور اس طلاق کو کینسل کر دیا۔ 

اسی میں لطیفہ ہوا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ زخمی ہو چکے تھے اور آپ اگلے خلیفہ کا سوچ رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ آپ عبداللہ بن عمر کو خلیفہ بنائیں۔ آپ نے فرمایا کہ اسے طلاق دینے کا طریقہ نہیں آتا تو میں اسے تمہارا حکمران بنا دوں؟ 

سوال: حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے دوبارہ تشریف لانے میں اختلاف کیوں ہے؟

جواب: حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کا دوبارہ آنا ایک  اختلافی مسئلہ ہے۔ اس میں یہ تو کنفرم ہے کہ اگر وہ دین  میں ایمان کا کوئی حصہ ہوتا تو پھر قرآن مجید میں بیان ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تواتر کے ساتھ ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بتا دیتے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معلوم ہے اور ان کی احادیث ہیں۔ آپ بخاری اور مسلم کی تمام احادیث کو پڑھ لیجیے اور خود فیصلہ کر لیجیے۔ اس میں میں نے ابھی ریسرچ نہیں کی ہے۔ ڈاکٹر عقیل بھائی نے اس میں کام کیا ہے، ان سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ کو وہ اپنا آرٹیکل بھیج دیتے ہیں۔ 

اس میں یہ ضرور ہوا ہے کہ بہت سے فتنے پیدا ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے اندر بھی مسیح کا دعوی کرنے والے پیدا ہوئے ہیں، پھر یہودی اور عیسائیوں کے ہاں بھی ہے۔ آج کل پولینڈ کے ایک صاحب نے بھی دعوی کیا ہوا ہے اور روس کی حکومت نے انہیں پکڑ بھی لیا ہے۔ 

مزید اصول دیگر فقہاء نے کیے ہیں لیکن وہ زیادہ مشہور نہیں ہوئے ہیں۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا الرسالہ اس لیے مشہور ہوا کہ انہوں نے اپنے زمانے میں امام مالک اور امام محمد رحمتہ اللہ علیہما سے پڑھا اور دونوں کا تقابلی مطالعہ کر کے انہوں نے اپنی کتاب لکھ دی۔ دیگر فقہاء نے اصول تو بنائے ہوں گے لیکن مشہور نہیں ہوئے ہیں۔ جہاں تک غلطیاں ہیں تو وہ بھی علماء میں ہوئی ہیں مثلاً دو غلطیاں مجھے یاد آئی ہیں۔

امام مالک کا اصول غلط ہے جو انہوں نے ’’مدینہ منورہ کا عمل‘‘ انہوں نے اختیار کیا۔ وہ کسی اجتہاد میں دیکھتے کہ مدینہ منورہ میں کیا عمل ہوا ہے۔ اس میں  پھر فوکس اسی پر کرتے رہے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک مدینہ منورہ کا علم و عمل تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آیا ہے۔ دیگر شہروں کے عمل کو  نہیں مانتے رہے۔  حنفی اور شافعی علماء کا اختلاف اسی پر رہا ہے کہ  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو مختلف شہروں میں چلے گئے تھے اور انہوں نے ایجوکیشن ہر شہر میں کی ہے، اس لیے یہ ممکن ہے  کہ دوسرے شہروں میں کوئی اجتہاد زیادہ بہتر ہو۔ 

شیعہ فقہاء کا اصول  ہے امامت کا عقیدہ۔ ان کے نزدیک جو امام گزرے ہیں، ان کے ارشاد کو وہ حدیث نبوی کے برابر سمجھتے ہیں اور اس پر عقیدت کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔ انہیں اگر کسی بھی امام کی کوئی روایت ملی ، تو وہ اسے اللہ تعالی کا حکم سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔ 

یہ بالکل ایسا ہی طریقہ ہے جو  کیتھولک عیسائی فقہاء نے کیا۔  ان کا  اصول انہوں نے سمجھ لیا کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد جو بھی پوپ گزرے ہیں، ان کا ارشاد وہ اللہ تعالی کا حکم قرار دیتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔  اب یہی ہوا کہ مشہور صحابی برناباس رضی اللہ عنہ کے ارشادات کو وہ نہیں مانتے ہیں اور سینٹ پال کے عقائد اور عمل پر تقلید کرتے ہیں۔ سینٹ پال ہی نے تورات کو صرف بنی اسرائیل کے لیے قرار دیا اور شریعت کو چھوڑ دیا۔ اس کے بعد ان کے پوپ ہی کے ارشادات کو شریعت مان لیتے ہیں۔ پروٹسٹنٹ حضرات نے اختلاف کیا اور وہ شریعت کو بالکل ہی چھوڑ چکے ہیں۔ 

آپ یہ تو پڑھ ہی چکے ہوں گے کہ برناباس رضی اللہ عنہ کی کتاب انجیل برناباس میں   حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات  میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیش گوئی موجود ہے لیکن عیسائی اسے نہیں مانتے ہیں۔  ابھی 1979 کے پوپ نے یہ مان لیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچے رسول تھے لیکن ان کی شریعت صرف عربوں کے لیے ہے۔  یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ سینٹ پال نے شریعت سے الگ ہو گئے تھے۔  سب حضرات کو دیکھیے تو سب ہی نے تقلید کا اصول مان کر پرانے بزرگوں کی تقلید ہی کرتے ہیں۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

 اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔

www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com

تعلیمی و تربیتی کورسز کے ویب لنکس

 اسلامک اسٹڈیز کی کتابیں اور لیکچرز

Islamic Studies – English

Quranic Studies – English Books

علوم القرآن ۔ کتابیں

علوم القرآن اردو لیکچرز

Quranic Studies – English Lectures

Quranic Arabic Language 

Quranic Arabic Language Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice English

Methodology of Hadith Research English

علوم الحدیث سے متعلق کتابیں

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات

علوم الحدیث اردو لیکچرز

علوم الفقہ پروگرام

Islamic Jurisprudence علم الفقہ

مسلم تاریخ ۔ سیاسی، تہذیبی، علمی، فکری اور دعوتی تاریخ

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ لیکچرز

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات

تعمیر شخصیت کتابیں، آرٹیکلز اور لیکچرز

تعمیر شخصیت کا طریقہ کار

Personality Development

Books https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1ntT5apJmrVq89xvZa7Euy0P8H7yGUHKN

علوم الحدیث: ایک تعارف

مذاہب عالم  پروگرام

Impartial Research امت مسلمہ کے گروہوں کے نقطہ ہائے نظر کا غیر جانب درانہ تقابلی مطالعہ

تقابلی مطالعہ پروگرام کی تفصیلی مضامین کی فہرست

کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse
Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse
Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse
Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us
Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33
Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114
Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War
Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory
Quranic Studies
Comments on “Quranic Studies Program”
Quranic Arabic Program – Lectures

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2
علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33
علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

Hadith Research English Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice
Methodology of Hadith Research

علوم الحدیث اردو لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات
اصول الحدیث لیکچرز
علوم الحدیث: ایک تعارف

Personality Development

تعمیر شخصیت لیکچرز

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی
تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات
اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ
Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟
قرآن اور بائبل کے دیس میں
 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر
سفرنامہ ترکی
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات
Social Sciences سماجی علوم
مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز 
 (Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ سیاست 
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ

BC 250,000 to 610CE نبوت محمدی سے پہلے کا دور ۔۔۔ حضرت آدم سے لے کر محمد رسول اللہ کی نبوت تک
571CE-632CE عہد رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی، علمی، دعوتی، سیاسی  اور تہذیبی تاریخ
عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات
عہد صحابہ اور تابعین کی سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 632-750
 امت مسلمہ کی تہذیبی عروج کا دور : سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ750-1258
 تہذیبی جمود اور زوال کا دور اور پھر  ریکوری: سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1258-1924
 امت مسلمہ  کی  ریکوری  کا دور  ۔۔۔  سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1924سے آج تک
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی
نفسیاتی، فکری اور ذہنی غلامی کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟
Comments on “The History of Abolition of Physical & Intellectual Slavery in Islam”
دینی علماء میں اختلاف کیوں پیدا ہوتا رہا ہے اور ہم کیا کریں؟
Scroll to top