سوال: سر مسافر کی قصر نماز کے حوالے سے سوال تھا۔ مجھے جو پتا ہے وہ یہ ہے کہ 92 کلو میٹر سے زیادہ سفر ہو تو شرعی مسافر کہلاتا ہے۔ اور منزل پر 15 دن یا اس سے کم رکنے کا ارادہ ہو تو وہ شرعی مسافر ہے اور وہ قصر نماز پڑھے گا۔
میں سر 92 کلو میٹر سے زیادہ سفر کر کے فیصل آباد سے لاہور جاتا ہوں اور بعض اوقات 15 دن پورے ہونے سے پہلے ہی واپس آ جاتا ہوں ۔ لیکن کیونکہ میری ڈگری 5 سال کی ہے اس لیے لاہور بھی میرا وطنِِ اصلی بنا لہذا میں لاہور اور فیصل آباد میں پوری نماز پڑھتا ہوں اور دورانِ سفر جو نماز قضاء ہو جائے اسکی قصر نماز ہی قضاء ادا کرتا ہوں۔
کیا میری یہ جو بیان کی گئی رائے ہے یہ صحیح ہے؟؟
اور دوسرا یہ دو حدیثیں ہیں سفر کے بارے میں انکو کیسے اپلائی کیا جائے گا قصر نماز پر؟؟
ڈاکٹر ثوبان انور، فیصل آباد
جواب: آپ نے دلچسپ سوال کیا ہے۔ فقہاء نے اس پر سوچنے کی کوشش کی کہ قصر نماز کی بنیاد کیا ہے؟ حنفی فقہاء نے اسے کیلکولیٹ کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کے خیال میں اس زمانے میں میل کتنا تھا اور پھر انہوں نے اندازہ کیا ہے کہ تین میل 90 کلومیٹر ہے۔ اس لحاظ سے وہ اس سے کم سفر میں قصر کو نہیں درست نہیں سمجھتے ہیں۔ دیگر تمام اسکول آف تھاٹ میں ایسا نہیں ہے بلکہ بس شہر سے نکلیں تو اسے اس میں وہ قصر کی اجازت سمجھتے ہیں۔ آپ دیکھ لیجیے کہ قصر کی اجازت کی وجہ پر غور کر لیجیے تو پھر آپ فیصلہ کر سکیں گے۔
اس میں جاوید صاحب نے قرآن مجید کی آیت سورۃ النساء 4:101 میں وجہ تلاش کی ہے۔ ان کے نزدیک آپہ دھاپی ہی اصل وجہ ہے ۔ جنگ کی حالت میں آپہ دھاپی ہی ہوتی ہے تو اللہ تعالی نے اجازت دی کہ نماز کو کم کر سکتے ہیں۔ اسی کو اپلائی کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر میں قصر کی اجازت دی کہ اس میں بھی آپا دھاپی ہوتی ہے۔
وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُبِينًا. 101
آپ لوگ (اِس جہاد کے لیے) سفر میں نکلیں تو آپ پرکوئی حرج نہیں کہ نماز میں کمی کر لیں، اگر اندیشہ ہو کہ منکرین آپ کو (اچانک کسی وقت) تنگ کریں گے، اِس لیے کہ یہ منکرین آپ کے کھلے دشمن ہیں۔ (سورۃ النساء)
اسی علت یعنی وجہ کی بنیاد پر کافی فقہاء کا یہ اجتہاد ہے کہ آپا دھاپی کی شکل کوئی اور ہو سکتی ہے۔ اگر ایسی حالت نہ ہو بلکہ سکون ہو تو پھر پوری پڑھنی چاہیے۔ سفر کے علاوہ کوئی اور صورت بھی بس سکتی ہے جیسے آپ ڈاکٹر ہیں اور آپریشن کر رہے ہیں کہ نماز کا ٹائم آ گیا ہے۔ اب آپ پیشنٹ کو چھوڑ نہیں سکتے تو کیا کریں؟ اس طرح آپ اور بھی صورتحال کو دیکھ سکتے ہیں۔
سعودی عرب کے فقہاء نے اسے محض سفر کو سمجھا ہے۔ اب وہ معمولی سے سفر میں بھی قصر کرتے ہیں۔ ہم لوگ جب کنگ عبداللہ اکنامک سٹی 130 کلومیٹر میں آفس پہنچتے تو عرب بھائی روزانہ ہی قصر کرتے تھے حالانکہ وہاں کوئی آپا دھاپی تو تھی نہیں۔ حنفی حضرات نمازوں کو اکٹھا کرنے کو درست نہیں سمجھتے لیکن حنبلی فقہاء احادیث کی بنیاد پر اسے درست سمجھتے ہیں کہ ظہر عصر کو اکٹھا اور مغرب عشا کو اکٹھا سمجھتے ہیں۔ چنانچہ عرب بھائی ایسا ہی کرتے تھے لیکن میں اسی علت پر نارمل الگ الگ چار رکعت والی پڑھتا رہا ہوں۔
پندرہ دن والا معاملہ بھی حنفی فقہاء کا اجتہاد ہے۔ دیگر فقہاء کے نزدیک کوئی لمٹ نہیں ہے۔ احادیث میں انس رضی اللہ عنہ نے اپنا تجربہ بیان فرمایا ہیں۔ ذو الحلیفہ تو مدینہ منورہ کے پاس عمرہ کی میقات ہے جو مسجد نبوی سے صرف 10 کلومیٹر ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک ہی عمل رہا ہے۔ فقہاء کو یہ دین کا حکم محسوس ہوا تو انہوں نے اسے لازمی کر دیا کہ دو رکعت ہی پڑھیں۔ لیکن اس زمانے کے سفر کو دیکھ لیجیے تو صورتحال واضح ہوتی ہے۔ سفر اونٹ یا گھوڑے پر ہوتا تھا اور اس میں ہر جگہ روکنا مشکل کام تھا کیونکہ لمبے سفر تو ہمیشہ قافلوں کی شکل میں جاتے تھے۔ اکیلا آدمی یا دو تین آدمی سفر کرنا مشکل تھا۔ سفر میں روکنا مشکل کام تھا کیونکہ اونٹ کا سفر پورے دن میں صرف 50 کلومیٹر ہی ہوتا تھا۔ احادیث میں معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ سے مکہ تک 8 دن لگتے تھے جبکہ دونوں شہروں میں تقریباً 415 کلومیٹر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی مناسب سمجھا کہ ایک ہی جگہ پر روک دیتے اور دو نمازوں کی جماعت کر لیتے تھے اور پھر آگے چلتے کیونکہ نفل کے لیے قافلے کو زحمت ہوتی۔ بخاری اور مسلم کی سفر کی احادیث پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نفل کو اپنے اونٹ پر ہی پڑھ لیتے تھے کہ وہاں جماعت کی ضرورت نہیں تھی۔ اب جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل بیان ہوا ہے، تو وہ بھی روک کر فرض ہی اکٹھے پڑھ لیتے تھے۔ نفل کا کوئی علم نہیں ہے اس حدیث میں لیکن یہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے پڑھنا ہو تو وہ سواری ہی میں پڑھ لیتے ہوں گے۔ فرض کے لیے جماعت کرتے تھے تو پھر آگے چلنے لگتے تھے۔
اسی دلیل پر میں بھی عمل یہی کرتا ہوں کہ موٹر وے میں جہاں روکتے ہیں تو فرض نماز پڑھ لیتے ہیں اور نفل کو اپنی گاڑی ہی میں پڑھ لیتے ہیں۔ کبھی ایمرجنسی یا مجبوری کی وجہ سے جیسی حالت ہو فرض بھی گاڑی ہی میں پڑھ لیتے ہیں۔ آج کل یہ صورتحال شہر میں بھی بن جاتی ہے جب فرض نماز کا ٹائم کم ہے اور ہم ٹریفک میں پھنس جاتے ہیں۔ اب ٹریفک میں پارکنگ بھی نہیں ملتی ہے۔ اگر ٹائم ہو تو پھر انتظار کر کے جگہ ڈھونڈ کر مسجد میں پڑھ لیتے ہیں ورنہ پھر گاڑی ہی میں یہ معاملہ آتا ہے۔
ہاں یہ عرض کروں کہ اسے سنت نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ جائز عمل کہنا چاہیے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم سفر میں ائرپورٹ پر رکے ہیں اور فلائٹ میں کئی گھنٹے ہیں۔ اس میں ہم پر فرض نہیں ہے کہ ہم لازماً قصر ہی پڑھیں۔ اس میں پابندی نہیں ہے۔
کچھ فقہاء نے ایک حدیث کا مطلب سمجھا ہے کہ جس میں یہ فرمایا گیا کہ اللہ تعالی نے آپ کو جو آسانی کی ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ حدیث تو صحیح ہے اور یہاں اصل ہدایت تو اپنی توہم پرستی سے بچنے کی ہے۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی دی گئی آسانی سے فائدہ اٹھانا چاہیے کہ یہ بھی تحفہ ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com