سوال: سر آج سورۂ نساء کا مطالعہ کیا ہے۔ اس میں تعدد ازواج کے متعلق میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا ہے۔ آیت نمبر3 میں اللہ نے جو حکم دیا ہے چار تک شادیاں کرنے کا وہ اس لیے ہے کہ یتیموں کی کفالت ہو سکے اور ساتھ ہی انصاف کی شرط بھی لگائی ہے۔اور اسی اجمال کو آیت نمبر 127 میں اللہ نے کھول کر بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح بھی کرنا چاہتا ہے اور اسے مہر بھی ادا نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی یتیموں کے حقوق ادا کرنا چاہتا ہے تو اسکے متعلق خدا کا فتویٰ ہے کہ اُن عورتوں کے حقوق بھی پورے کرنے ہونگے اور یتیموں کے ساتھ بھی انصاف پر قائم رہنا ہو گا۔یعنی کہ کوئی شخص ان شرائط کے بغیر ایک سے زیادہ شادیاں نہیں کر سکتا۔
اِن ساری باتوں سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر معاشرے میں کوئی ایسی نا گزیر صورت پیش آجائے تو ہی تعددِ ازواج کی اجازت ہو گی۔ جیسے کہ غزوۂ اُحد، ورلڈ وار 1 اور 2 میں آئی یا جنگوں کے نتیجے میں آجاتی ہے جب مردوں کی تعداد بہت کم ہو جاتی ہے۔ لہذا اس صورت میں 1 سے زیادہ شادیاں جائز ہونگی اور ان کا مقصد بھی معاشرے کی بقا ہو گا۔
جواب: آپ کے ارشاد سے کافی حد تک متفق ہوں لیکن معمولی سا اختلاف ہے جو نیچے حاضر ہے۔
سوال: اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعددِ ازواج کا حکم عمومی حکم نہیں ہے بلکہ حالات کے لحاظ سے جائز ہو سکتا ہے؟
جواب: تین چار خواتین سے شادی جائز ہے خواہ کچھ بھی حالت ہو۔ پہلے عرب کلچر تو 20-25 خواتین سے شادی کر لیتے تھے۔ ان آیات میں اللہ تعالی نے اس لمٹ کو کم کر دیا اور اس میں یہی بتا دیا کہ یتیموں کی خدمت کے لیے آپ کریں تو تب بھی اسی وقت کریں کہ آپ انصاف کر سکیں ورنہ نہ کریں۔
فطری طور پر ایک مرد و خاتون سے شادی نارمل ہے۔ کسی اور مجبوری کی وجہ سے کرے تو تب بھی دو، تین یا چار تک جا سکتا ہے کہ وہ جائز ہے لیکن اس میں شرط وہی کر دی کہ انصاف لازمی ہے اور اگر انسان سب بیویوں کے ساتھ برابر رویہ اختیار نہیں کر سکتا تو پھر ایک ہی شادی کافی ہے۔
سوال: کوئی شخص محض اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے1 سے زیادہ شادیاں نہیں کر سکتا۔کیونکہ یہ دنیا ضروریات کی تکمیل کے لیے بنائی گئی نہ کہ خواہشات کی تکمیل کے لیے اور فرد کی ضرورت تو 1 ہی بیوی سے بھی پوری ہو جاتی ہے۔ اور تعددِ ازواج تو معاشرتی ضرورت ہے جو حالات کے لحاظ سے پیش آتی ہے ۔ لہذا کوئی شخص اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے اگر ایسا کرے اور اسے قران کا حکم قرار دے کر کرے کہ مجھے تو 4 شادیوں کی اجازت ہے اور میں ہر حال میں 4 شادیاں ہی کروں گا تو یہ 1 غلط بات ہو گی؟
جواب: آپ صحیح فرما رہے ہیں کہ اس میں قرآن کو مسیوز کرنے کا طریقہ ہے اور کئی لوگوں نے اجازت کو مسیوز استعمال کرتے رہے اور اصل مقصد کہ سب کے ساتھ برابر رویہ اختیار کریں تو اسے بھول جاتے ہیں۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ایک بیگم کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ وہ ازدواجی تعلق ہی قائم نہیں کر سکتی ہے اور شوہر میں بڑی طاقت ہے اور ازدواجی تعلق نہ ہو تو وہ کوئی برائی حرکت جیسے بدکاری کر سکتا ہے تو پھر بہتر ہے کہ وہ دوسری شادی کر لے۔ اس طرح اور بھی مجبوریاں آپ سوچ سکتے ہیں۔
قبائل علاقوں میں مجبوری اس وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت جنگ کی حالت میں ہوتے ہیں اور مرد مرتے ہی رہتے ہیں۔ ان خواتین کی خدمت کیسے کریں تو پھر اس کا حل یہی ہے کہ دو شادیاں کر لیں۔ قدیم عربوں کی تاریخ اور شاعری میں پڑھیں تو خواتین اس پر فخر کرتی تھیں کہ دیکھو میرے شوہر کی چالیس بیویاں ہیں۔ ہر خاتون کو الگ گھر دیتے۔
سوال: ہمارے معاشرے میں مطلقاً 4 شادیوں کا حکم سنایا جاتا ہے کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: اسے مطلق نہیں کرنا چاہیے بلکہ جائز ہے جب مجبوری ہو۔ اس کے لیے ملک میں قانون ہونا چاہیے کہ کس صورت میں وہ دوسری تیسری شادی کرے جب فیملی کورٹ میں پہلی بیویوں سے پوچھ کر عدالت فیصلہ کرے۔ سورۃ النساء میں جہاں چار شادیوں کی اجازت دی وہاں شروع سے آخر تک اس سورت کا مطالعہ کر لیں تو تب اجازت دی تھی جب بہت سے مرد جنگ احد میں شہید ہو چکے تھے اور ان کی فیملیز اور یتیم بچوں کو سیٹل کرنا تھا۔ وہاں بھی اللہ تعالی نے لمٹ طے کر لی اور ساتھ ہی انصاف کا اصول ارشاد فرمایا جس سے لوگ عمل نہیں کرتے ہیں۔
إِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا. 3
اگر آپ کو اندیشہ ہو کہ یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کر سکیں گے تو اُن کے ساتھ جو خواتین ہیں، اُن میں سے جو آپ کے لیے موزوں ہوں، اُن میں سے دودو یا تین تین یا چار چار سے نکاح کر لیجیے۔ پھر اگر ڈر ہو کہ (اُن کے درمیان) انصاف نہ کر سکیں گے تو (اِس طرح کی صورت حال میں بھی) ایک ہی بیوی رکھیے یا پھر لونڈیاں [جنہیں بیوی کے حقوق دیں] جو آپ کے کنٹرول میں ہوں۔ یہ اِس کے زیادہ قریب ہے کہ آپ بے انصافی سے بچے رہیں۔ (سورۃ النساء)
ایک دلچسپ مقدمہ شیئر کرتا ہوں جو کیس اسٹڈیز کا حصہ ہے۔ ایک پاکستانی صاحب جدہ میں رہتے تھے اور پھر کمپنی کے کام پر انڈیا چلے گئے۔ وہاں کچھ افراد میں رعب ڈالا کہ وہ بزنس کرتے ہیں۔ انڈین کوئی غریب فیملی تھی تو انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ان سے کر دی۔ وہ بیگم کو لے کر جدہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ پہلی پاکستانی بیگم موجود ہے۔ ان کا خیال تھا کہ پہلے لڑیں گی، پھر معاملہ حل ہو جائے گا۔ انڈین خاتون کافی پڑھی لکھی ہیں تو کام کریں گی تو آمدنی زیادہ ہو جائے گی۔
لیکن الٹا اثر ہوا کہ پاکستان انڈیا میں اتحاد ہو گیا۔ دونوں بیویوں نے اعلان کیا کہ ہم شوہر پر مقدمہ کرنے لگی ہیں کہ وہ ہمارے اخراجات پورے نہیں کرتے۔ ان کے اعلان سے تمام پڑوسیوں کو معلوم ہوا اور وہاں سے دوسری تیسری بلڈنگ سے چلتے ہمیں بھی معلوم ہو گیا کیونکہ وہ سب ہی عزیزیہ جدہ میں رہتے تھے جہاں پاکستان انڈین کمیونٹی کی اکثریت موجود ہے۔ اس کے بعد وہ صاحب دن میں جاب کرتے اور شام میں کسی دکان پر کام کرنے لگے تاکہ اخراجات پورے ہوں۔ اس سے آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے؟
اس مس یوز کو استعمال ایک پیر صاحب نے کیا کہ یہاں دو دو یا تین تین یا چار چار کی اجازت تھی تو انہوں نے ان سب کو ٹوٹل کر کے 18 شادیاں کر بیٹھے۔ وہ قرآن مجید اور عربی زبان نہیں سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے اس کا معنی سمجھ کر غلط حرکت ہی کی تھی۔
سعودی حضرات تو اس لیے زیادہ شادی کرتے ہیں کہ قانونی طور پر ہر بیگم کے لیے گھر لازمی ہے ورنہ شادی نہیں ہوتی۔ اس لیے ان کی سوکنوں میں لڑائیاں بھی نہیں ہوتی ہیں۔
سوال: اس سلسلے میں قانون سازی ہونی چاہیئے۔
جواب: آپ کے ارشاد سے پوری طرح متفق ہوں کہ حکومتوں کو میاں بیوی کے حقوق پر قانون سازی اور پھر پریکٹیکل عدالت کا سلسلہ بھی ہونا چاہیے۔ کئی مسلم ممالک میں ایسا ہو گیا ہے جیسے سعودی عرب، ملیشیا وغیرہ میں یہ ہو گیا ہے۔ سعودی عرب میں تو شادی کرنے سے پہلے نیگوسی ایشن لازمی ہوتی ہے۔ لڑکے نے جو فلیٹ یا گھر لیا ہو، تو پھر شادی سے پہلے خاتون آ کر دیکھ لیتی ہے اور تب جا کر وہ سائن کرتی ہے تو تب نکاح ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ملیشیا میں خاتون کے حقوق کو نکاح سے پہلے ہی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔
سوال: چار شادیاں ہر صورت میں جائز ہیں۔ آخر میں آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ قران کے حکم کا غلط استعمال ہے۔ یہاں تضاد پیدا ہو رہا ہے ایک طرف آپ اسے ہر حال میں جائز قرار دے رہے ہیں اور دوسری طرف آخر میں آپکے بیان سے لگ رہا ہے کہ تعددِ ازواج ایک مشروط حکم ہے؟ برائے مہربانی اسکی تھوڑی وضاحت کیجئے ۔
جواب: مشروط اجازت ہے جو اسی بنیاد پر ہے کہ لڑکے اور لڑکی دونوں کے حقوق پورے کیے جائیں۔ یہ بنیادی اصول ہے جو انسانوں کے آپس میں تعلق کے مطابق ہوتے ہیں۔ ہمارے پرانے کلچر میں غلطی یہی ہے کہ لڑکی کے حقوق کے معاہدے پر کچھ نہیں ہوتا ہے۔ لڑکیوں کے حقوق پر بات ہی نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی معاہدے میں لکھا گیا ہوتا ہے۔ معاہدہ ہو بھی تو شوہر اسے بعد میں اگنور کر دیتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں اس کے الٹ معاملہ بھی شروع ہو گیا ہے کہ شوہر کے حقوق پر خواتین عمل نہیں کرتی ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ فیملی کورٹس صحیح طریقے سے عمل درآمد کروائے اور اس کے لیے فیملی پولیس کی بھی ضرورت ہے تاکہ سب کو حق مل جائے۔
سوال: ایک مزید سوال یہ ہے کہ اگر 1 شخص شادی شدہ ہے اور ضروریات بھی پوری ہو رہی ہیں ۔ اُسے 1 اور لڑکی پسند آجاتی ہے اور وہ دوسری شادی کر لیتا ہے تو کیا یہ سورہ نساء کی رو سے جائز ہے؟ میرے خیال میں ایسا کرنا اسکی خواہش تو ہو سکتا ہے مگر یہ قران کے حکم کے زمرے میں نہیں آئے گا۔کیونکہ قرانی حکم کا پس منظر یہ ہے کہ عرب میں پہلے ہی یہ تعدد ازواج چلی آرہی تھی اور جنگِ احد کے بعد اللہ نے اسکا رخ نیکی کی طرف کر دیا اور معاشرتی بقا کے لیے اس حکم کو خاص کر دیا نہ کہ اس لیے کہ ہم اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے اسے استعمال کرنا شروع کر دیں۔ اور دین کا مقصد بھی تقویٰ ہے اور دوسری بات یہ کہ یہ دنیا ضروریات کی تکمیل کے لیے بنائی گئی ہے نہ کہ ہم قرانی احکام کو اپنی خواہشات نفس کے استعمال کرنے کے لیے ۔ اس سوال کی تھوڑی وضاحت فرمائیں ۔
آپ نے بالکل صحیح فرمایا ہے۔ قرآن مجید کی اس اجازت کو تب ہی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب پہلی بیگم کی اجازت سے ہو۔ اس کے لیے نکاح کے وقت جو معاہدہ کیا جائے، اس میں یہی لکھنا چاہیے اور لڑکیوں کے والدین اسے اگنو ر کر دیتے ہیں جو ان کی غلطی ہے۔ ان بیچاروں کے لیے اس وجہ سے کرنا پڑتا ہے کہ خواتین ساری عمر کے لیے محض قرض ہی ہو جاتے ہیں کہ ان پر خرچا ہی کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ زمانے میں جب خواتین کو جاب مل رہی ہیں تو اب کافی حد تک بہتر معاملہ ہو رہا ہے۔ مسیوز کے لیے خود حکومت کو ایکشن لینا چاہیے۔
آپ جن صاحب کو ملنا چاہ رہے ہیں، ان کے لیے مجھے خود ہی ان کا نام اور وٹس ایپ مانگنا پڑے گا۔ اس کے گواہ میرے کولیگ تھے جن کی بلڈنگ کے پڑوسی تھے۔ اب آپ کہیں تو ان سے پوچھ لوں، اس کے بعد وہ صاحب آپ کو، مجھے اور کولیگ کو بھی گالیاں ہی دیں گے۔
پہلے 2000 کے زمانے میں انڈین مسلم خواتین کافی سمجھدار ہو گئی تھیں اور پاکستانی کمزور تھیں۔ لیکن اب اگلی نسل میں انڈین پاکستانی خواتین سب ہی شعور میں آ گئی ہیں۔ اس کے لیے مین فیکٹر یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ معاشی طور پر مضبوط ہو گئیں، میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا اور پھر انٹرنیٹ کے ذریعے سب کو کافی آزادی ہو گئی ہے۔
سوال: صحیح ۔ویسے میرے خیال میں انڈین عورتیں زیادہ پڑھی لکھی اور سمجھدار ہوتی ہیں ۔کیونکہ ایک تو اُنکا تعلیمی نظام بہت اچھا ہے اور دوسرا وہاں کے مسلمانوں میں انتہا پسندی کا رحجان بھی کم ہے ہم لوگوں سے۔ کیونکہ ہمارے مذہبی لیڈر اکثر لوگوں کو جذبات میں لا کر اکساتے رہے ہیں جیسا کہ آجکل بھی آپ دیکھ رہے ہیں۔ اور دوسری طرف مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا وحید الدین خان جیسے لوگوں نے اُنھیں لیڈ کیا ہے اس لیے میرے خیال میں اُن میں حقیقت پسندی اور معاملہ فہمی ہم سے زیادہ ہے۔
جواب: صوفی ازم کا تجربہ میں نے خود بھی دیکھا اور تاریخ میں بھی معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنی تبلیغ کے لیے کھانے کے ٹول کو استعمال کیا۔ لنگر اسی وجہ سے ہر مزار اور خانقاہ میں بننے لگا تاکہ فری کھانے کے لیے لوگ آئیں اور وہ پھر اپنی تبلیغ پہنچا دیں۔ اسی وجہ سے پنجاب اور دیگر علاقوں کی ہسٹری میں معلوم ہوتا ہے عام غریب آدمی صوفیوں سے محبت کرتے تھے۔ صوفی کھانا بھی کھلاتے، انہیں جادو ٹونا کا حل نکالتے، پھر کسی حد تک میڈیسن بھی دیتے۔ نفسیاتی طور پر ان کے دکھ کو محبت سے سنتے اور حل بھی بتاتے۔ اسی طرح ان کی تبلیغ کامیاب ہوئی اور ان صوفی حضرات سے محبت وہاں سے لے کر آج تک موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت سے صوفی حضرات نے شریعت کو چھوڑ کر مس یوز کیا ہے جس کی مثال میں عرض کر دی کہ 18 شادیاں کر بیٹھے یا پھر لڑکوں سے ازدواجی تعلق استعمال کرنے لگے۔
اس کے لیے میں نے کیتھولک عیسائی تبلیغ کے طریقے کو ڈھونڈا تو وہی طریقہ کار نظر آیا۔ اس وجہ سے ان کی تبلیغ پہلے یورپ میں پھیلے اور اس کے بعد افریقہ اور انڈیا میں پھیلی ۔ اس کے لیے انہوں نے ٹرائبل مشن پر الگ ڈیپارٹمنٹ بھی بنا دیا ہے۔ آپ کے ہاسٹل کے دوست اسی میں جاتے ہیں لیکن ان پر پھر اثر بھی پہنچتا ہو گا۔ انہی کی اپنی تاریخ میں ایسے لوگوں نے مس یوز کیا کہ انہوں نے صوفی سینٹ نرس خواتین سے شادی کیے بغیر ازدواجی تعلق قائم کر لیا۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com