سوال: ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جنتی عورتوں کی سردار ہوں گی اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہوں گے۔ کیا جنت میں بھی سرداری کا نظام ہوگا؟ جس طرح دنیا میں سرداری ہوتی ہے؟ کیا ہر جنتی اپنی جنت کا خود سردار/ حکمران نہیں ہوگا؟
جواب: سرداری، جاگیرداری اور حکمرانی وغیرہ موجودہ زندگی میں استعمال ہونے والے الفاظ ہیں، جبکہ جنت میں ایسی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس حدیث میں عربی میں الفاظ اس طرح ہیں۔
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى 279 ہجری) نے کہا۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الحَسَنُ وَالحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الجَنَّةِ۔ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ يَزِيدَ، نَحْوَهُ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ۔ [سنن الترمذي ت شاكر 5/ 656]
اس حدیث میں لفظ یہ ہے کہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اہل جنت میں شباب اور سید ہوں گے۔
عربی میں لفظ شباب کا معنی ہے کہ نوجوان اور سید کا معنی ہے اچھی عزت والا۔ عربی میں لفظ سید اسی طرح استعمال ہوتا ہے جیسے ہم اسٹیٹس کے طور پر دوسروں کو چودھری صاحب، میاں صاحب، جناب وغیرہ کہتے ہیں، جیسے انگلش میں آپ کسی کو سر، ڈاکٹر، گریٹ وغیرہ قسم کا لفظ کہتے ہیں۔ فارسی میں لفظ سید کا مطلب سردار، بادشاہ قسم کا استعمال کرنے لگے، کیونکہ ان کے زمانے میں یہی سب سے بڑا اسٹیٹس ہوتا تھا۔ یہی ترجمہ پھر فارسی سے اردو میں آ گھسا۔
اس لفظ کے حوالے سے ایک لطیفہ بھی ہوگیا تھا۔ ہوا یوں کہ سید ابوالاعلی مودودی صاحب جب عرب ممالک میں گئے تو عر بی لوگ عزت اور اسٹیٹس کے طور انہیں شیخ کہنے لگے۔ مودودی صاحب کہتے ہیں کہ عرب لوگ بھی عجیب بولتے ہیں کہ ہمیں شیخ بنا دیا اور سید مانتے ہی نہیں ۔ یہ لطیفہ اسی لیے بن گیا کہ اردو پنجابی میں شیخ اور سید کا تصور ان کی نسبت کچھ اور تھا۔
سوال: کیا تمام انبیاء اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت میں بوڑھے ہوں گے؟ اگر نہیں تو کیا حسن و حسین رضی اللہ عنہما ان سب پر بھی سرداری کریں گے؟
جواب: انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام جنت میں بوڑھے کیوں ہوں گے؟ احادیث میں یہی ملتا ہے کہ جنت میں تمام لوگ ہمیشہ جوان ہی رہیں گے۔ حضرات حسن اور حسین رضی اللہ عنہما نے اپنی زندگی میں دینی خدمت جو بھی کی ہے تو اس کا اجریہی ہو گا کہ انہیں جنت میں پہنچ کر اعلی اسٹیٹس حاصل ہو گا۔ اب ظاہر ہے کہ اعلی اسٹیٹس کے حضرات ایک دوسرے کے ساتھ بھی عزت ہی سے پیش آئیں گے۔ جس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی جب آپس میں ملیں گے تو آپس سب اچھی طرح عزت سے ہی ملیں گے۔
سوال: کیا خاندانِ رسول کے مقام و مرتبہ صرف اسی لئے ہے کہ وہ رسول کی اولاد ہیں؟ جبکہ قرآن و حدیث میں دیگر شخصیات کی قربانیاں اور فضیلتیں بھی بہت زیادہ بیان ہوئی ہیں۔
جواب: یہ کسی نسل پرست انسان کا آئیڈیا ہوسکتاہے ورنہ سیدہ فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو جنت میں انٹری انہی کے عمل کی بنیاد پر ہو گی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے واضح کر دیا ہے کہ جنت میں کسی رشتے اور دوستی کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی ،بلکہ تمام انسان اپنے عمل کی بنیاد پر ہی جنت میں داخل ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فیملی میں امہات المومنین اور اولاد رضی اللہ عنہم ایمان لائے اور بڑی مشکلات میں زندگی گزاری ہے تو انہی کے اچھے عمل کی بنیاد پر ہی جنت میں ان کا اسٹیٹس ہو گا۔
قرآن مجید میں خود بتا دیا کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی اولاد میں جو ایمان نہیں لائے تو وہ جہنم میں ہی پہنچیں گے۔ اس کی مثال میں نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹے کا ذکر ہے۔ پھر سورۃ البقرۃ میں بنی اسرائیل کا ذکر ہے جو مسلسل انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی نسل سے ہیں اور اس کے بڑے بزرگ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام تھے۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رشتہ بھی یہی تھا تو بنی اسرائیل دور سے آپ کے اورقریش کےکزن ہی رہے۔ ان کا تبصرہ آپ پڑھ سکتے ہیں۔ اس سے آپ خود انہی آیات کو پڑھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں۔
انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی اولاد کا رزلٹ اور ان کا اسٹیٹس
وَهِيَ تَجْرِي بِهِمْ فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ وَنَادَىٰ نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يَا بُنَيَّ ارْكَبْ مَعَنَا وَلَا تَكُنْ مَعَ الْكَافِرِينَ. قَالَ سَآوِي إِلَىٰ جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ ۚ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَنْ رَحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ۔
وہ جہاز پہاڑوں کی طرح اٹھتی ہوئی موجوں کے درمیان اُن کو لے کر چلنے لگا اور نوح نے اپنے بیٹے کو آواز دی، جو (کچھ فاصلے پر ان سے) الگ تھا۔ بیٹا، ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور اِن منکروں کے ساتھ نہ رہو۔اُس نے پلٹ کر جواب دیا: میں ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لوں گا جو مجھے اِس پانی سے بچا لے گا۔نوح نے کہا: ’’آج اللہ کے حکم سے کوئی بچانے والا نہیں ہے، مگر جس پر وہ رحم فرمائے۔ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا۔ (سورۃ ھود 42, 43)
ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل کا رزلٹ اور ان کا اسٹیٹس
فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ۔ وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ۔
سو تباہی ہے اُن کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شریعت تصنیف کرتے ہیں، پھر کہتے ہیں:یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اِس کے ذریعے سے تھوڑی سی قیمت (پولیٹیکل ، فائنانشل اور سائیکولوجیکل فوائد)حاصل کر لیں۔ سو تباہی ہے اُن کے لیے اُس چیز کی وجہ سے جواُن کے ہاتھوں نے لکھی اورتباہی ہے اُن کے لیے اُس چیز کی وجہ سے جو (اُس کے ذریعے سے) وہ کماتے ہیں۔ا ور (یہ وہ لوگ ہیں کہ) انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز نہ چھوئے گی۔ ہاں، گنتی کے چند دنوں کی تکلیف، البتہ ہو سکتی ہے۔ اِن سے پوچھ لیجیے: کیا اللہ تعالی سے آپ نے کوئی معاہدہ لے لیا ہے؟ اِس لیے کہ اگر عہد لیا ہے تو اللہ کسی حال میں اپنے عہد کی خلاف ورزی نہ کرے گا یا آپ اللہ تعالی پر ایسی تہمت باندھ رہے ہیں جس کے بارے میں آپ کچھ نہیں جانتے۔ (سورۃ البقرۃ 79, 80)
بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ. 112
ہاں ، یہ ضرور ہے کہ اپنی ہستی جن لوگوں نے اللہ تعالی کے سپرد کر دی، اور وہ اچھی طرح سے عمل کرنے والے ہیں، اُن کے لیے اُن کا اجر اُن کے رب کے ہاں محفوظ ہے ، اور اُن کے لیے نہ وہاں کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ کبھی غمزدہ ہوں گے۔ (سورۃ البقرۃ)
تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا رزلٹ
وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ. 10
آپ کو کیا ہوا ہے کہ آپ اللہ تعالی کی راہ میں خرچ نہ کرتے ہیں، درانحالیکہ زمین اور آسمانوں کی میراث، سب اللہ تعالی ہی کو لوٹنے والی ہے۔ (آپ پر واضح ہونا چاہیے کہ)آپ میں سے جو لوگ فتح (عرب ممالک) کے بعد (نیکی پر) خرچ کریں گے اور (راہ حق میں) جنگ کریں گے، وہ کبھی اُن لوگوں کے برابر نہ ہوں گے جنہوں نے فتح سے پہلے (شدید مشکلات کے زمانے میں بھی نیکی پر) خرچ کیا اور (راہ حق میں) لڑے۔اُن کا درجہ یقینا اُن لوگوں سے بڑا ہو گا جو اِس کے بعد نیکی پر خرچ کریں گے اور جہاد کریں گے ، اگرچہ اللہ تعالی کا وعدہ دونوں ہی سے اچھا ہے۔ (یاد رکھیے کہ) جو کچھ آپ کرتے ہیں، اللہ تعالی اُس سے خوب با خبر ہے۔ (سورۃ الحدید)
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بچپن میں ہی ایمان لائیں اور ان کے بچے بھی اہل ایمان رہے۔ اپنی زندگی میں دینی خدمت کے لیے کتنی مشکلات ادا کرتے رہے اور اللہ تعالی کی عبادت کرتے رہے۔ اس لیے ان حضرات کا وہی اجر نظر آتا ہے کہ وہ اعلی اسٹیٹس کے ساتھ جنت میں داخل ہو گے انشاء اللہ اور حدیث میں اسی کا ذکر ہے جو سورۃ الحدید میں بیان ہوا ہے۔ یہی اجر سابقون الاولون صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہے۔
سورۃ الحدید میں جو پرفارمنس کے لحاظ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجر اور انعام بیان کیا گیا ہے، اسی کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ اس میں بھی اصل کی ورڈ ہے سید یعنی جن میں اعلی عزت والے جس میں تمام نیک لوگ ہی سید ہوں گے اور اعلی درجہ اپنے نیک عمل کی بنیاد پر انہیں جنت میں مل جائے گا۔
وعن حذيفة قال: قلت لامي: دعيني آتي النبي صلى الله عليه وسلم فاصلي معه المغرب واساله ان يستغفر لي ولك فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فصليت معه المغرب فصلى حتى صلى العشاء ثم انفتل فتبعته فسمع صوتي فقال: «من هذا؟ حذيفة؟» قلت: نعم. قال: «ما حاجتك؟ غفر الله لك ولامك إن هذا ملك لم ينزل الارض قط قبل هذه الليلة استاذن ربه ان يسلم علي ويبشرني بان فاطمة سيدة نساء اهل الجنة وان الحسن والحسين سيدا شباب اهل الجنة» رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب
حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے اپنی والدہ سے کہا: مجھے چھوڑ دیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے ساتھ نماز مغرب ادا کروں، اور آپ سے درخواست کروں کہ آپ تمہارے لیے اور میرے لیے دعائے مغفرت فرمائیں، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے ساتھ نماز مغرب ادا کی، آپ (نفل) نماز پڑھتے رہے حتیٰ کہ آپ نے نماز عشاء ادا کی، پھر آپ واپس گھر جانے لگے تو میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری آواز سنی تو فرمایا: کون صاحب ہیں؟ کیا حذیفہ ہیں؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی آپ اور آپ کی والدہ کی مغفرت فرمائے، کیا کام ہے؟ (پھر فرمایا) یہ ایک فرشتہ ہے، جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا، اس نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ وہ مجھے سلام کرے اور مجھے بشارت سنائے کہ فاطمہ اہل جنت کی خواتین کی سردار ہیں۔ اور حسن و حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: إسناده حسن، رواه الترمذي (3781) قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔ قرآن مجید کے ارشادات اور ان احادیث سے یہی واضح ہوتا ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن میں سیدہ فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم سب ہی جنت کے اعلی درجے میں ہوں گے۔ اس کا تعلق ان کے رشتے سے نہیں بلکہ ان کے ایمان اور نیک عمل کی بنیاد پر جنت میں اسٹیٹس ملے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com