سوال: جہیز کی شرعی حیثیت کیا ہے اور درست طرز عمل کیا ہونا چاہئے؟ اس مسئلے کو تفصیل سے بیان فرما دیجئے۔
جواب: اس کی دین میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ عہد رسالت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں کلچر یہی تھا کہ جہیز تیار کرنا شوہر کی ذمہ داری تھی اور آج تک عرب کلچر میں یہی جاری ہے۔ شوہر ہی پر پابندی ہوتی ہے کہ وہ شادی سے پہلے لڑکی کے لیے گھر اور فرنیچر تیار کرے تو پھر جاکرقانونی نکاح ہوتا ہے۔نکاح سے پہلے ہی خاتون اور ان کے والدین اس گھر کو بھی دیکھ لیتے ہیں جس میں لڑکی نے شادی کے بعد رہنا ہے۔
ہمارے ہاں خواتین پر جہیز کی پابندیاں ایجاد ہو گئیں تو وہ ایک ظلم ہی ایجاد ہوا تھا اور آج تک جاری ہے۔ یہ ہندو کلچر میں جہیز کی عادت تھی، ایمان لانے کے بعد مسلمانوں میں بھی یہی جاری رہا اور آج تک ہے۔ اس لعنت سے ہمیں خود کو بچانا چاہیے۔ دین میں پابندی صرف یہی ہے کہ مرد یا خاتون کسی پر بھی جہیز کی پابندی نہیں لگانی چاہیے۔ اپنی نارمل حالات میں خود فیصلہ کر لیں کہ شوہر پر کیا ذمہ داری ہے اور خاتون پر بھی۔
جہیز کے معاملے میں بعض مذہبی علماء جہیز کو سنت بنا بیٹھے ہیں اور اس میں دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہیز دیا تھا۔ اس لیے ہمارے لئے بھی یہ سنت ہے۔
ان بھائیوں نے یہ غور نہیں فرمایا کہ اگر یہ دینی سنت ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی تمام بیٹیوں کو جہیز عنایت فرماتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آپ کی تینوں بیٹیوں کی شادی ابو العاص اور عثمان رضی اللہ عنہما سے ہوئی اور وہ دونوں بزنس کرتے تھے اور اسٹیبل تھے۔ انہوں نے ہی گھر اور معاش کی ذمہ داری لی۔ صرف سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ مختلف ہوا اور اس کی وجہ علی رضی اللہ عنہ کی صورتحال پر تھا۔ نبی ﷺ اپنی چاروں بیٹیوں کو تحفے کے طور پر ہمیشہ زیورات یا کوئی اور اشیاء ضرور دیتے رہے لیکن شادی کے دن نہیں، بلکہ پوری زندگی میں۔
علی رضی اللہ عنہ کی صورتحال پیدائش کے وقت سے یہ ہوئی کہ جب وہ پیدا ہوئے، ان کے والد صاحب معاشی مشکلات میں تھے۔ چنانچہ ان کے اپنے بھتیجے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری لے لی کہ اس بچے کی پرورش میں کروں گا۔ اس لیے علی رضی اللہ عنہ اگرچہ رسول اللہ ﷺ کےکزن تھے لیکن اب ان کی حیثیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹے کی ہو گئی۔ بزنس کی وجہ سے معاملہ چلتا رہا۔ نبوت کے بعد اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پابندی لگا دی کہ اب آپ بزنس نہیں کریں گے بلکہ صرف نبوت کی دعوت ہی پہنچائیں گے۔ اس کے بعد ہجرت بھی ہو گئی۔ اب جو کچھ بھی بچت تھی تو اس سے گزارا کرنے لگے۔
مدینہ منورہ میں علی رضی اللہ عنہ دین کی خدمت بھی کرتے اور مزدوری یا کوئی اور معاملہ کر کے گزارا کر رہے تھے۔ انہیں عثمان رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ وہ شادی کر لیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری معاشی مشکلات جاری ہیں تو عثمان رضی اللہ عنہ نے پھر بھی تاکید کی۔ پھر داماد کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشورہ دیا کہ علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما میں شادی کروا دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند آیا اور آپ نے شادی کر دی۔
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نئے داماد جن کی حیثیت اپنے بیٹے کی تھی، تو انہیں اپنے گھر میں کمرا بھی دے دیا اور فرنیچر وغیرہ بھی دیا۔ یہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز نہیں دیا بلکہ اپنے بیٹے اور داماد کی مدد کی گئی تھی اور انہیں تحفے میں کمرا اور اشیا ء دے دیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سات سال معاشی مشکلات کے رہے لیکن جنگ خیبر کے بعد زندگی آسان ہو گئی۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پابندی تھی کہ وہ بزنس نہیں کریں گے اور ساتھ ہی حکومتی فنڈ یعنی زکوۃ کو بھی آپ اور آپ کی فیملی پر حرام کر دیا تھا اور اسے مہاجرین کو دیتے رہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے سورۃ الانفال اور سورۃ الحشر میں یہ حکم دیا کہ جنگوں میں جو خمس یعنی 20% حصہ حکومتی فنڈ میں ہو گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فیملی کو ملے گا۔ اب آپ کی فیملی کو معاشی مشکلات کے لیے دینی خدمت کی بنیاد پر سیلری ملنی شروع ہوئی۔ اس غنیمت میں ایک باغ کی آمدنی حضرت علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کو ملنا شروع ہوئی، جو ان کی تنخواہ بن گئی۔
وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ. 41
(اہل ایمان! آپ نے پوچھا ہی تھا تو) سن لیجیے کہ جو کچھ مال غنیمت آپ نے حاصل کیا تھا، اُس کا پانچواں حصہ (20%) اللہ تعالی کےلیے، اُس کے رسول،(رسول کی) فیملی، یتیم، مسکین اور مسافروں کے لیے خاص رہے گا۔(یہ اللہ تعالی کا حکم ہے، اِس کی بے چون و چرا تعمیل کر دیجیے)اگر آپ اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہیں اور اُس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلے کے دن اتاری تھی۔جس دن دونوں گروہوں میں جنگ ہوئی تھی، اور(جان رکھیے کہ) اللہ تعالی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ (سورۃ الانفال)
ایک بار بچپن میں حسن رضی اللہ عنہ نے کھجور پکڑی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روک دیا کہ بیٹا! یہ آپ کے لیے حلال نہیں ہے کیونکہ یہ کھجور بھی زکوۃ کا حصہ تھا۔ علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کی آمدنی اس باغ سے ہوتی تھی اور اس آمدنی کا بڑا حصہ بھی وہ لوگ غریب فیملیوں کو دیتے رہے۔
یہی وہ باغ تھا جو بعد میں بڑے پراپیگنڈا کا حصہ بن گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خیال آیا کہ یہ وراثت کا حصہ ہے۔ اس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سمجھایا کہ یہ وراثت کا حصہ نہیں ہے بلکہ اس باغ کی آمدنی آپ کی فیملی کے لیے ہے۔ یہ سلسلہ بعد میں علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بھی ایسے ہی جاری رہا۔ بہت عرصے بعد اگلی نسلوں میں اختلاف پیدا ہوا تو حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ نے سب کو سمجھایا کہ میری ملاقات ہوتی تو دادی صاحبہ رضی اللہ عنہا کو قائل کر لیتا کہ ان کا خیال غلط تھا لیکن خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں سمجھا دیا تھا اور وہ قائل ہو گئی تھیں۔ ان دلائل کو آپ دیکھ سکتے ہیں۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com