سوال: کیا کسی سینئر یا معزز شخص کے استقبال لئے کھڑے ہوا جاسکتا ہے؟ خاص طور پر جب یہ چیز ثقافت اور قانون بن چکی ہو، نہ کھڑے ہونے والے کو سزا یا تادیب کا ڈر ہو؟
جواب: اس سوال کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ہر کلچر کے لحاظ سے الگ الگ معاملہ ہوتا ہے۔ ماڈرن کلچر میں استقبال کے لیے کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں ہے ،لیکن پرانے کلچر میں یہ لازمی سمجھا جاتا تھا۔ اپنے شہر اور محلے کے کلچر کے حساب سے خود ہی سوچنا چاہیے۔ عموماً میں یہی کرتا ہوں کہ کوئی بوڑھے بزرگ پاس آئیں تو میں استقبال کے لیے کھڑا ہو جاتا ہوں۔ دوست کبھی کبھار آئیں تو تب بھی کھڑا ہو جاتا ہوں۔ جو دوست، کولیگ اور میرے باس آ جائیں تو بیٹھے ہی ہاتھ ملا لیتا ہوں کیونکہ گلوبل کلچر یہی ہے۔
سرکاری اداروں میں پاکستان میں وہی کلچر جاری ہے جو بادشاہوں اور انگریزوں نے کھڑے ہو کر سلوٹ کرتے ہوئے جاری کیاتھا۔ لیکن اب انگلینڈ اور امریکہ میں یہ اتنا مشکل نہیں رہا ہے۔ ہمارے ہاں دہلی کے پرانے کلچرمیں بہت ہی مشکلات ایجاد کی ہوئی تھیں اور آداب پر بہت سختی کی جاتی تھی۔ اب بھی بعض حضرات اس پر عمل کرتے ہوں گے اور کافی نے چھوڑ دیا ہو گا۔
سوال: غریبی اور مفلسی سے نجات کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
جواب: غربت اور مفلسی کے لیے اللہ تعالی سے دعا کرتے رہیں کہ اس سے نجات عنایت فرمائے۔ اس کے ساتھ اپنے صلاحیتوں کو بہتر کرنے کی کوشش کریں تاکہ مزید کام کر سکیں اور زیادہ آمدنی آئے۔ مثلاً ہم علمی ذوق رکھتے ہیں تو مزید ایسی ڈگری لیں جس میں نوکری کے چانس زیادہ ہوں۔ ہمیں علمی ذوق نہیں ہے تو کوئی ہنر سیکھیں جس کیلئے لوگوں کی ڈیمانڈ ہو ۔ اپنے ملک میں معاشی مشکلات ہیں تو دوسری ملک جانے کی کوشش کریں۔
سوال: کون سی قسم کھاناجائز ہےیا ناجائز ہے؟
جواب: قَسم کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح کر دیا ہے کہ صر ف اور صرف قسم اللہ تعالی ہی کی جائز ہے۔ کسی اور شخص یا اشیاء کی قسم جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے۔ ہاں بغیر سوچے ہی قسم “واللہ” کہہ دی تو پھر اس میں معافی ہے۔
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ. 225
اللہ تعالی آپ کی اُن قسموں پر تو نہیں پکڑے گا جو آپ بے ارادہ کھا لیتے ہیں [جیسے عرب والے بے ارادہ قسم ’’واللہ‘‘ کہہ دیتے ہیں،] لیکن وہ قسمیں جو اپنے دل کے ارادے سے کھاتے ہیں، اُن پر لازماً آپ پر مواخذہ کرے گا اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی بخشنے والا ہے ، وہ بڑا بردبار ہے۔ (سورۃ البقرۃ)
سوال: کیا قرآن مجید کو بے وضو پڑھا اور پکڑا جاسکتا ہے؟
جواب: اس میں دین کا کوئی حکم نہیں ہے بلکہ فقہاء نے اپنا اجتہاد کیا ہے۔ کچھ علماء قرآن کو بے وضو پکڑنے کو بے ادبی کی بنیاد پر جائز نہیں کہتے ہیں۔ جبکہ دیگر فقہاء یہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی بے ادبی نہیں ہے کیونکہ انسان قرآن مجید کا مطالعہ ہمیشہ وضو کے ساتھ نہیں کر سکتا ، بلکہ یہ نارمل ہے۔ اس اجتہاد کا انتخاب آپ اس بنیاد پر کر سکتے ہیں کہ آپ کو یہ بے ادبی کیوں لگ رہی ہے؟ علامہ اقبال نے تو اس بارےمیں یہ کہا تھا کہ آفس میں ہر وقت قرآن مجید میں سے شریعت کو پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ہر وقت وضو کرنا مشکل ہوتا ہے۔ فقہاء کے دلائل کو آپ میری کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔
سوال: اگر دوران نماز ذہن میں ماضی اور مستقبل کے خیالات چھائے رہیں تو ان سے چھٹکارے کے لئےکیا کرنا چاہئے؟
جواب: یہ ممکن نہیں ہے کہ انسانی ذہن آئیڈیاز سے چھٹکارا حاصل کر سکے۔ اس کے لیے بہترین طریقہ یہی ہے کہ نماز کے دوران ذہن میں ماضی و مستقبل کا آئیڈیا آئے تو پھر اسی آئیڈیا سے متعلق دعا کر لیں۔ مثلاً آئیڈیا آیا کہ مستقبل میں نقصان ہو گا، پھر سجدہ کے دوران ہی اللہ تعالی سے مشکلات کے حل کے لئےدعا کر لیں۔ نماز میں کسی وقت بھی دعا کر سکتے ہیں۔ اگر عربی میں وہ دعا یاد نہ ہو تو اپنی زبان میں بھی کر سکتے ہیں۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com