سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛ میرا سوال یہ ہے کہ حدیث میں جو الجماعۃ کا ذکر آیا ہے اس سے کیا مراد ہے، آج اگر کوئی ایسی جماعت ہمیں ملتی ہے جو فرقہ وارانہ خصوصیات سے بالاتر ہو تو کیا ان میں شامل ہونا اس حدیث کا تقاضا نہیں ہے؟
جواب: لفظ الجماعۃ کا معنی ہی غلط سمجھا گیا ہے۔ غلطی یہی ہے کہ ہم نےاسے اردو کا لفظ جماعت بمعنی پارٹی یا گروہ سمجھ لیا ہے۔ اس وجہ سے لوگ اپنی پارٹی یا فرقے کو جماعت کہہ کر دعوی کرتے ہیں کہ وہ اس حدیث پر عمل کر رہے ہیں۔
قدیم عربی زبان کی تعلیم نہیں حاصل کی جاتی ، بلکہ ہمارے جمود اور زوال کے عرصے میں جو کتابیں لکھی گئیں، وہی مدارس میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ اس کے لیے اس عربی زبان کی تعلیم ہونی چاہیے جس میں قرآن مجید نازل ہوا اور احادیث لکھی گئی ہیں۔ اس زمانے میں الجماعۃ کا مطلب تھا کہ متفق نظام یعنی حکومت۔ اس کی مثال اس روایت میں دیکھ لیجیے۔ اس سے بیک گراؤنڈ بھی واضح ہو جائے گا۔
جب عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو مسلمانوں میں یہ اختلاف پیدا ہوا کہ ان دہشت گردوں کو کیسے قابو کیا جائے۔ اس کے برعکس باغی پارٹیاں بہت سی تھیں اور ان کا مقصد یہی تھا کہ انہی کے گورنر بن جائیں تاکہ وہ حکومت پر قبضہ کر سکیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کے نام پر جعلی خطوط لکھ کر گورنرز کو نکال دیا اور اپنے ساتھیوں کو کئی علاقوں کا گورنر بنا دیا۔ صرف معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے اس جعلی خط کو سمجھ لیا اور انہوں نے اس جعلی خط کو قبول نہیں کیا اور انہوں نے اپنے علاقے فلسطین اور پھر مصر میں باغیوں کو فنا کر دیا۔ اب دو حکومتیں بن گئیں۔
ایک طرف فلسطین اور مصر میں معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اور باقی ممالک میں علی رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے لیکن عراق دہشت گردی کا مرکز ہی بنا رہا ۔ یہ لوگ اپنے خلوص کے ساتھ کاوش کرتے رہے لیکن عراق پھر بھی قابو میں نہیں رہا۔ اس لیے علی رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت سے آخری منٹ میں حسن رضی اللہ عنہ کو سمجھا دیا کہ معاویہ ہی کو خلافت دے دیجیے گا۔ اس پر انہوں نے یہی عمل کیا تو اس زمانے کی تاریخ کی تمام روایات میں اس سال کو عام الجماعۃ کہا گیا، کیونکہ پوری امت میں اب ایک ہی خلیفہ معاویہ رضی اللہ عنہ بن گئے تھےاور انتشار ختم ہو چکا تھا۔ پھر عراق میں بھی دہشت گردی کی طاقت ختم ہو گئی تھی۔ اس واقعے سے اس لفظ الجماعۃ کا معنی بھی واضح ہو گیا کہ جب پوری امت کا اتفاق رائے ہو جائے اور مضبوط حکومت بن جائے اور اس کے لیے آپ مزید قدیم روایات بلکہ احادیث میں الجماعۃ کے معنی پر غور کریں۔
ہمارے ہاں جو پارٹی کو الجماعۃ سمجھتے ہیں، وہ اپنی پارٹی کو پھر فرقہ بنا دیتے ہیں۔ اگر اس پارٹی یا فرقہ کے اندر لوگوں میں اختلاف ہوا تو لوگ توڑ توڑ کر اپنی پارٹی یا اپنا نیا فرقہ بنا کر اسی کو الجماعۃ سمجھتے ہیں۔ یہ غلطی ہےاور اسے ٹھیک کرنا چاہیے۔ اس کے لیے میرا ارادہ ہے کہ سیاست سے متعلق تمام احادیث کو اکٹھا کر کے اس لفظ الجماعۃ کے معنی کے ثبوت اکٹھے کروں۔ انشاء اللہ۔
ابھی موجودہ زمانے میں اکنامکس اور فائنانس سے متعلق احادیث کو اکٹھا کرنے کی خدمت کر رہا ہوں، پھر انشاء اللہ سوشل سائنسز، سیاست اور دیگر موضوعات پر کتابیں لکھوں گا انشاء اللہ۔
سوال: کیا دین کا کام کرنے کے لئے کسی مسجد یا مسلک کے ساتھ الحاق کرنا ضروری ہے؟
کیوں کہ حدیث میں آیا ہےکہ؛رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
علیکم بالجماعۃ، وإیاکم و الفرقۃ، فإن الشیطان مع الواحد، وہو مع الإثنین أبعد، من أراد بحبوحۃ الجنۃ فلیلزم الجماعۃ
[أرواء الغلیل 6/215، الجامع الصغیر، ح:4311۔ قال الألباني صحیح، أنظر: صحیح الجامع برقم:2546۔ضلال الجنۃ 1/35۔]
تم پر جماعت کے ساتھ منسلک رہنا واجب ہے، اور اپنے آپ کو تفرقہ بازی سے بچاؤ۔ بیشک شیطان ایک کے ساتھ ہوتاہے، اور وہ دو سے زیادہ دور ہوتا ہے اور جو کوئی جنت کی خوشبو پانا چاہے اسے چاہیے کہ جماعت کو لازم پکڑے۔
ایک دوسری روایت میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
فإن ید اللّٰه علی الجماعۃ
[ الجامع الصغیر، ح:2729۔ قال الألباني صحیح، أنظر: صحیح الجامع برقم:18486۔ضلال الجنۃ 1/33۔]
بے شک جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔
جواب: ان احادیث میں پہلے بھی ڈسکشن ہوئی تھی کہ قدیم عربی میں الجماعۃ کا معنی ہوتا ہے کہ پوری امت کا اجتماعی نظام یعنی حکومت۔
جب بھی حکومت کے ساتھ ہم جماعت ہوتی ہے تو اللہ تعالی کا ہاتھ ہوتا ہے اور اس جماعت سے الگ ہو کر فرقہ بنانا ہی گناہ ہے جس سے آپس میں مسلمان لڑتے جھگڑتے ہیں۔ ہمارے ہاں اپنے فرقے کی پارٹی کو جماعت کہہ دیتے ہیں اور پھر اپنے مریدوں کو یہی احادیث سناتے ہیں کہ اسی پر پیروکار رہو اور اس سے الگ نہ ہو۔ اسی میں گمراہی باقی رہتی ہے اور پھر وہ حقیقتاً کوئی جماعت نہں ہوتی ہے بکہ ہر فرقہ کی پارٹی دوسروں سے جنگیں ہی کرتے ہیں۔
احادیث میں الجماعۃ اجتماعی نظام حکومت ہی کو کہا جاتا ہے۔ احادیث میں حکومت سے بغاوت کرنے کو گناہ بتایا گیا ہے کیونکہ پھر لوگ عوام کو قتل کرتے رہتے ہیں ۔ پھر مسلمان ہی ایک دوسرے کو قتل کرتے رہتے ہیں۔ اس کی مثالیں آپ خود افغانستان، پاکستان، عراق ، سوڈان اور کئی ممالک میں دیکھ سکتے ہیں۔
احادیث میں الجماعتہ کے لفظ کا معنی آپ اس سے دیکھ سکتے ہیں کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف بغاوتیں ہوتی رہیں اور پھر خلفاء راشدین حضرت عثمان اور علی رضی اللہ عنہما شہید ہوئے تو پھر خلیفہ حسن رضی اللہ عنہ نے حکومت معاویہ رضی اللہ عنہ کو دے دی کیونکہ انہیں اپنے والد علی رضی اللہ عنہ نے سمجھایا تھا کہ بغاوتوں کو معاویہ رضی اللہ عنہ ہی ختم کر سکتے ہیں۔ اس سال کو پوری تاریخ میں عام الجماعۃ کہا گیا ہے کیونکہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے بغاوتوں کو ختم کر دیا تھا۔
یہ لفظ تاریخ کی کسی عربی کتاب میں دیکھ سکتے ہیں۔ عربی میں لفظ عام الجماعۃ کا معنی ہے جماعت کا سال یعنی مسلمانوں کی آپس میں بغاوتیں ختم ہوئیں اور مکمل اتحاد ہو گیا۔ جب بھی افغانستان اور فسادات ختم ہوئے اور پورے ملک کے تمام مسلمان کسی بھی حکومت کو قبول کر لیں تو پھر وہ بھی عام الجماعۃ ہو جائے گا۔ اسی طرح پاکستان میں بھی بغاوتیں ختم ہو جائیں اور حکومت پر پوری قوم کا اتفاق ہو جائے تو عام الجماعۃ کا سال ہو جائے گا۔
رہے فرقے تو ان میں آپس میں لڑائی نہیں ہو گی بلکہ اختلاف ہے تو محض علمی اختلاف ہی رہ جائے گا۔ اس میں اختلاف کے ساتھ سب مسلمان آپس میں محبت کے ساتھ رہیں گےاور نفرتیں نہ کریں گے۔ اس وقت کا سال ہی عام الجماعۃ ہو جائے گا۔
سوال:کیا شیعہ، بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث وغیرہ ان جیسے فرقوں سے تعلق رکھنے والوں میں بھی ایسے لوگ بھی ہیں جو عقیدے و عمل کے لحاظ سےاسلام کے سچے پیروکار ہیں اور جنت میں جاسکیں گے؟ کیوں ان میں اور کچھ ہو نہ ہو تصوف کا نظریاتی شرک تو ضرور پایا جاتا ہے۔
جواب: آپ نے بالکل صحیح ارشاد فرمایا ہے۔ اسی بنیاد پر میں نے تقابلی مطالعہ کی کتابیں لکھ دی ہیں تاکہ یہ بھائی بہن جب کھلے ذہن کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہیں تو فائدہ اٹھا سکیں، اس طرح وہ صوفی ازم اور اپنے فرقے کی خرابیوں سے بچ سکیں گے انشاء اللہ۔ کتاب کا لنک یہ ہے؛
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com