سوال: میں نے قرآن میں آیت پڑھی ہے جس کا مفہوم ہے کہ اگر دین پر چلنا ہے تو کامل چلو ، ورنہ دین سے نکل جاؤ تو اس میں کامل کی شرائط کیا ہیں؟ مثلاً ایک انسان جھوٹ نہ بولے، چوری نہ کرے، غیبت نہ کرے، ہر گناہ سے پاک ہو، سنت نبی پر کامل چلےاور شریعت کے مطابق لباس ہو، شریعت کے مطابق اس کی داڑھی ہو، تب وہ کامل ہوگا؟ یا اگر خدا نخواستہ اس اس کی داڑھی نہیں ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں ایمان لایا ہوں۔ کیا اسی صورت میں وہ ایمان میں کامل شمار ہوگا کہ نہیں ہوگا؟ جبکہ جنت میں تو کامل ایمان والے داخل ہوں گے کیونکہ اللہ نے تو کامل ایمان کا ہی مطالبہ کیا ہے، تو کیا جو پینٹ شرٹ پہنتے ہیں یا بغیر داڑھی والے ہیں کیا وہ بھی کامل ایمان والوں میں شامل ہیں کہ نہیں؟ عبدالرحمٰن
جواب: دین میں کامل ہونے کا معنی وہی ہے جو شریعت میں دینی احکامات دے دیے ہیں، انہی پر عمل کریں اور جس گناہ کا بتا دیا گیا ہے، اس سے بچیں تو ان کا ایمان کامل ہے۔ شریعت کے احکامات کی لسٹ جس میں تمام مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اس کی لسٹ میں پہلی فقہی کتاب میں لکھ چکا ہوں۔ اس میں تمام ممالک کے مسلم علماء متفق ہیں۔
اب دوسرا مرحلہ یہ آتا ہے کہ جب شریعت کے احکامات میں فقہاء وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس وضاحت میں اختلاف ہو سکتا ہے اور وہ مسئلہ اجتہاد کے لیول پر آتا ہے۔ اس میں اصول یہی ہے کہ آپ کو جو وضاحت درست محسوس ہو تو اسی پر عمل کریں تو آپ کا دین کامل ہوتا ہے۔ اس میں کوئی غلطی بھی ہوئی ہے، تب بھی اجتہاد کرنے میں ثواب ہوتا ہے اور اگر صحیح اجتہاد ہوا تو اس میں ڈبل اجر ملتا ہے۔ حدیث ہے۔
عن عمرو بن العاص، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:إذا حكم الحاكم فاجتهد، ثم اصاب فله اجران، وإذا حكم فاجتهد، ثم اخطا فله اجر۔
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جب کوئی حکمران فیصلہ کرے اور اجتہاد (حقیقت کو سمجھنے کی بھرپور کوشش) کرے، پھر وہ حق فیصلہ کرے تو اس کے لیے دو اجر ہیں: جب وہ فیصلہ کرے اور اجتہاد کرے، پھر بھی وہ (فیصلے میں) غلطی کر جائے تو اس کے لیے ایک اجر پھر بھی ہے۔ (مسلم، کتاب الاقضیہ، 4487)
مثلاً دین میں زکوۃ ایک فرض حکم ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے زمانے میں زکوۃ کا فارمولا بتا دیا ہے تو پوری امت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اختلاف وہاں پیدا ہوتا ہے جب کوئی نئی حالت ہوئی ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آمدنی پر 10% اگر اخراجات نہ ہوں اور اگر اخراجات ہوئے تو 5% زکوۃ بتائی ہے۔ ہماری اشیاء میں بھی زکوۃ ہے جو عموماً ویلیو پر 2.5% زکوۃ ہے۔ اب نئی حالت یہ پیدا ہوئی کہ جب فیکٹریاں بنیں تو پھر سوال ہوا کہ اسے آمدنی والا فارمولا استعمال کریں یا انونٹری کا 2.5% زکوۃ ہو گی؟ اس کے جواب میں فقہاء میں اختلاف ہوا۔ اب آپ کو جس عالم کا نقطہ نظر ان کے دلائل کو پڑھ کر درست لگے تو پھر کو اس پر عمل کرنا ہے اور اسی میں آپ کو اجر ملے گا۔
اب آپ کا سوال لباس اور داڑھی سے متعلق ہے۔ اس میں یہ کنفرم ہے کہ وہاں سنت میں صرف اصول بتایا گیا ہے اور اس کی تفصیل ہر زمانے اور ہر علاقے میں کلچر سے متعلق ہے۔ پھر فقہاء میں اجتہاد کرتے ہوئے اختلاف ہوا کیونکہ ہر عالم کا تعلق کسی دوسرے ملک اور دوسے زمانے سے تعلق تھا۔ مثلاً لباس پر سنت کا حکم یہی ہے کہ شرم گاہ کو چھپا کر رکھیں اور اچھے لباس میں نماز پڑھیں۔ اب ظاہر ہے کہ ہر علاقے اور ہر زمانے میں اچھا لباس مختلف ہو سکتا ہے لیکن شرمگاہ کو چھپانے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
تو آپ دونوں علماء کے نقطہ نظر کے متعلق دلیل کی بنیاد پر خود فیصلہ کر لیجیے کہ کونسی دلیل مضبوط ہے۔ پھر فیصلہ آپ خود کر لیجیے اور اس پر عمل کریں۔ اب تک جتنے اہم ترین سوالات پر اجتہاد میں میں نے علم الفقہ کی دوسری سے لے کر ساتویں کتابوں تک دونوں نقطہ ہائے نظر کے دلائل اکٹھے کر دیے ہیں۔ فیصلہ آپ نے کامک سینس کے ذریعے خود کرنا ہے کہ کونسی دلیل مضبوط ہے۔ وضاحت کے لیے لیکچرز بھی ہیں اور پھر بھی سوال رہے تو میں حاضر خدمت ہوں۔
https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1AiWnZN0yBq-VGbYeJSZNjCZNB027ZxPd
سوال: اگر کپڑوں پر اپنا خون لگ جائے تو کیا ان کپڑوں میں نماز ہوجاتی ہے؟ اور اگر مریض کا پھوڑا وغیرہ پھٹ جائے تو اس میں سے خون اور پیپ دونوں رستے رہتے ہیں ، اگر یہ خون اور پیپ کپڑوں پرلگ جائیں تو کیا تب بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ ڈاکٹر محمد اشفاق۔ فیصل آباد
جواب: خون اور پیپ وغیرہ ناپاک ہوتے ہیں۔ اگر مریض کی حالت مضبوط ہے تو انہیں چاہیے کہ اگر قریب واش روم ہو تو اسے نکال کر جہاں جہاں قطرے موجود ہوں تو اسے صاف کر لینا چاہیے۔ اگر مریض کی حالت کمزور ہے اور وہ اس قابل نہیں کہ کپڑے صاف کر سکیں تو پھر مجبوری ہے۔ اس میں پھر انہیں چاہیے کہ وہ اپنے وقت پر وضو کرکے ٹائم نماز پڑھ لیں۔ روایتی طور پر یہ دیکھ سکتے ہیں کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کو شدید زخمی کر دیا تھا تو انہوں نے نماز پڑھ لی اور پھر کچھ وقت تک حکومتی مشورے دے کر شہید ہو گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ خود یا کوئی اور شخص جسم اور کپڑوں کو صاف کر سکتے کہ ان کی زندگی ہی بہت کم باقی بچی تھی۔
سوال: غسل جنابت میں اگر کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھول جائے تو کیا ایسی صورت میں دوبارہ غسل کرنا چاہئے یا صرف کلی اور ناک میں پانی چڑھا لے کافی ہو جائے گا؟
جواب: کلی اور ناک میں پانی ڈالنا سب ہی منہ کا حصہ ہے۔ وضو یا غسل جو بھی کر رہے ہیں، اس میں ترتیب کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس لیے نارمل غسل یا وضو ہو یا پھر غسل جنابت ہو، اس میں جسم کا کوئی حصہ بھی بھول جائیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے بعد جب وہ یاد آ جائے، اسی وقت کر لیں۔ قرآن مجید میں منہ دھونا بھی وضو کے حکم میں شامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کلی اور ناک کو بھی شامل فرمایا تو یہ سنت بن گئی۔ لیکن احادیث نے یہ نہیں فرمایا کہ کلی یا ناک صاف کرنا چھوڑ دیا تو وضو یا غسل نہیں ہوتا ہے۔اس لیے وضو یا غسل تو ہو گیا ہے، عمدہ طریقہ یہی ہے کہ جب یاد آ جائے، اسی وقت صاف کر لیں۔
سوال: خواتین کا پلکیں بنانا کیسا ہے؟
جواب: یہ دلچسپ سوال ہے جو ایک حدیث کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ نارمل حالات میں ایک فیشن کے طور پر کوئی خاتون ایسا کر رہی ہوں تو اس میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ حدیث میں راوی نے پوری صورتحال واضح نہیں کی تھی، جس کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ اصل میں اہل عرب میں کئی خواتین فراڈ کے طور پر ایسا فیشن کر لیتی تھیں کہ ان کی عمر کم محسوس ہو اور مرد اس سے شادی کر لے۔ اس وجہ سے ان خواتین کو منع کیا گیا تھا۔
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: «لعن النبي صلى الله عليه وسلم الوَاصِلَةَ والمُسْتَوْصِلَةَ، والوَاشِمَةَ والمُسْتَوشِمَةَ» - [متفق عليه]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے: بال جوڑنے والی اور جڑوانے ولی پر، جسم گودنے اور گودوانے والی پر۔ (بخاری ، مسلم)
اصل میں یہی معاملہ ہوا کہ راویوں کو چونکہ اپنے کلچر کا علم تھا، اس لیے انہوں نے اس کی وجہ نہیں بتائی۔ اب نئے کلچر میں آ کر فقہاء نے اس میں غور کیا اور انہوں نے اس کی وجہ بنانے کی کوشش کی جس میں ہر عالم کو اپنا اندازہ لگایا۔ کسی نے سمجھا اور فتوی میں کہہ دیا کہ شاید یہ یہودیوں کی طرح فیشن ہو گا، کسی نے سمجھا کہ فطرت کے خلاف ہے وغیرہ وغیرہ۔ اصل طریقہ یہ تھا کہ اس زمانے کے کلچر کا مطالعہ کرتے تو اصل وجہ سامنے آ جاتی۔ اس میں پھر جاہلیت کی تاریخ کو پڑھ لیجیے تو اصل وجہ یہی سامنے آئی ہے کہ اس فیشن کے ذریعے دوسرے علاقوں کے لوگوں کو گھیرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔ کوئی اس طرح شادی کرنا چاہتیں اور کوئی طوائف ایسی حرکتیں کرتی تھیں۔ اس وجہ سے ان پر سختی سے لعن یعنی اللہ تعالی انہیں عنایت نہیں فرمائے گا۔
احادیث میں جن امور پر ایسا سخت حکم ملا ہے تو اس میں اس کی وجہ کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ اس کے لیے احادیث کے لیے پورا سیاق و سباق دوسری احادیث میں مل جاتا ہے ورنہ پھر کسی پرانے عالم نے عربی میں شرح یعنی وضاحت کرنے والی عرب کتابوں میں لکھا ہوا ہے اور سب میں کوئی غیر اخلاقی وجہ سامنے آ جاتی ہے۔ یہ میں یہ بھی اضافہ کر لیجیے کہ موجودہ زمانے میں امیر لوگوں کو گھیرنے کے لیے اور بھی بہت سے طریقے ایجاد ہو گئے ہیں جس میں طوائف یا دیگر خواتین بھی استعمال کرتی ہیں۔ ان پر بھی وہی لعنت ہو سکتی ہے۔ بلکہ کئی مرد بھی ایسی طرح فراڈ کرنے کی اسی طرح کئی طریقوں پر کوشش کرتے ہیں تو ان پر بھی وہی لعنت ہو سکتی ہے۔
سوال: جسم کے دوسرے بال یعنی سینے اور لاتوں کے بالوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ محمد وکیل۔ کہروڑ پکا
جواب: اس بارےمیں دین کے کوئی احکامات نہیں ہیں۔ اس میں آپ نے خود ہی فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کو سینے اور لاتوں کے بالوں کا کیا کرنا ہے؟ اگر آپ کو کاٹنا اچھا لگے تو یہ کر سکتے ہیں اور سیدھا ہی رکھنا چاہیں تو آپ کی مرضی ہے۔ اس میں آپ کا اپنا ہی ذوق ہے۔ اس میں مشورہ میں یہی کروں گا کہ اسے نہ کاٹیں کہ آپ کی شادی کے بعد آپ کی بیگم کو زیادہ اچھا لگے گا۔ گاٹنے کے بعد بیگم کو کانٹوں پر تکلیف ہو گی۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com