سوال: کس فرقے میں کونسی غلط باتیں ہیں جن سے بچا جائے؟ محمد وکیل۔ کہروڑ پکا
جواب: سب سے بڑی غلطی یہ ہے جسے ہم نفسیاتی اعتبار سے تعصب کہتے ہیں۔ تعصب کا معنی یہ ہے کہ ہمارے فرقے کے علماء ہی صحیح لوگ ہیں جبکہ دوسرے فرقے کے تمام لوگ گمراہ بلکہ کافر بلکہ اس قابل ہیں کہ انہیں قتل کیا جائے۔ تعصب ہی سب سے بڑا گناہ ہے جو مذہبی لوگوں میں ہوتا ہے۔ اگر تعصب نہ ہوتا تو پھر صرف اتنی سی بات تھی کہ بعض علماء میں محض اختلاف ہوتا اور پھر محبت کے ساتھ مل کر چلے جاتے۔ لیکن جب ہر عالم کے پیروکاروں نے اپنا گینگ بنا دیا تو دوسرے عالم کے پیروکاروں نے بھی اپنا گینگ بنا دیا۔ اس کے بعد آپس میں ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ یہ بیماری ہے جو تعصب کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔
جن میں تعصب نہیں ہے وہ سب ایک دوسرے سے محبت سے دوستی اور عزت کے ساتھ رہتے ہیں۔ مثلاً فقہاء کے اسکول جیسے حنفی، مالکی، حنبلی، شافعی کے تمام فقہاء ایک دوسرے سے محبت کے ساتھ ملتے ہیں اور اختلاف ہونے کے ساتھ بھی ایک دوسرے سے عزت کرتے ہیں۔ یہ اچھی مثال ہے۔اس میں وہ واقعہ یاد آیا کہ ایک بار امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ حج کے لیے آئے تو مدینہ منورہ بھی گئے اور پھر اپنے لیول کے عالم امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے ملنے گئے۔ انہوں نے تعارف پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ ابوحنیفہ نے فرمایا کہ میں عراق سے آیا ہوں۔ اس پر مالک نے تھوڑا سا کہہ دیا کہ عراق میں تو منافقت زیادہ ہے۔ اس پر ابوحنیفہ نے کہا کہ آپ اجازت دیں کہ میں قرآن مجید کی ایک آیت کی تلاوت کر کے سناؤں۔ انہوں نے کہا کہ جی کریں۔ اس پر ابوحنیفہ نے قرآن مجید کی آیت یہ پڑھی۔
وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ. (101)
ان میں سے ارد گرد جو دیہاتی رہتے ہیں، اُن میں بھی بہت سے منافق ہیں اور مدینہ والوں میں بھی۔ وہ اپنی منافقت میں طاق ہو چکے ہیں۔ آپ اُن کو نہیں جانتے مگر ہم اُن کو جانتے ہیں۔ انہیں عنقریب ہم دو مرتبہ سزا دیں گے۔ پھر وہ ایک عذاب عظیم کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔ (سورۃ التوبہ)
اس میں ابوحنیفہ نے لفظ اس طرح کہہ دیا کہ لفظ مدینہ کو چینج کر کے الکوفہ یعنی عراق کا شہر کوفہ کہہ دیا۔
وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الکوفہ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ. (101)
اس میں امام مالک نے کہا کہ یہ آپ نے غلطی کی ہے۔ یہاں اہل الکوفہ نہیں بلکہ اہل المدینہ کی بات ہے۔ اس پر ابوحنیفہ صاحب نے کہا کہ آپ تو فرما رہے ہیں کہ منافق زیادہ عراق میں ہیں جبکہ آپ نے خود بتا دیا کہ قرآن مجید کے مطابق اہل مدینہ ہی شدید منافق ہیں۔ اس سے یہی معلوم ہوا کہ ہر علاقے میں منافقین ہوتے ہیں۔
اس پر امام مالک کو اپنی غلطی کا اندازہ ہوا کہ انہوں نے علم الفقہ میں اصول عمل اہل مدینہ کا استعمال کیا ہوا تھا۔ انہیں اندازہ ہوا کہ یہ صاحب بھی فقہاء کے بڑے عالم ہوں گے جو ایسی بات کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے نام پوچھا تو معلوم ہوا کہ ابوحنیفہ ہیں۔ اس پر اٹھ کر ایک دوسرے کو گلے لگا کر ملے اور علمی ڈسکشن کرتے رہے۔ انہیں اچھا کھانا کھلایا اور محبت کے ساتھ دونوں الگ ہو گئے۔ اس واقعے سے آپ دیکھیے کہ تعصب نہ ہو تو کس طرح محبت کے ساتھ اختلاف کرتے تھے۔ اس کے الٹ معاملہ ہمارے ہاں ہے ایک دوسرے کے ساتھ بے عزتی اور نفرت کے ساتھ بات کرتے ہیں۔
سوال: انجینئر مرزا علی کے بارے میں آج کل ہر مولانا بات کر رہے ہیں۔ اس کے کیا غلط عقائد ہیں؟
جواب: میں کسی بھی اپنے مسلمان بھائی پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا ہوں۔ ہم سب انسان ہیں اور سب میں غلطی ہو سکتی ہے کیونکہ ہم کوئی نبی نہیں ہیں۔ آپ مرزا صاحب کے نقطہ نظر کو پڑھیں اور قرآن مجید میں پڑھ لیں۔ اگر بات ایک ہی ہے تو درست ہے اور اگر مختلف ہے تو پھر ان کی غلطی ہے۔ اسی طرح آپ میری بات بھی تنقید کے ساتھ پڑھیں اور قرآن مجید میں پڑھیں تو آپ کو مختلف بات آئے تو میری بات کو بھی غلط سمجھ لیں۔ آپ کو میری غلطی سامنے آئے تو مجھے بتا دیجیے گا، اس میں یا تو وضاحت کر دوں گا یا پھر میں اپنی غلطی کو ٹھیک کر لوں گا۔
سوال: تبلیغی جماعت والے صرف فضائل اعمال ہی کیوں پڑھاتے ہیں کوئی اور کتاب کیوں نہیں پڑھاتے؟ محمد وکیل۔ کہروڑ پکا
جواب: فضائل اعمال کی کتاب ان بھائیوں نے عوام کے لیے لکھی ہے، اس لیے ہر تبلیغ میں استعمال کرتے ہیں۔ جن بھائیوں نے یہ کتاب لکھی ہے تو ان سے یہ غلطی ہو گئی کہ انہوں نے جانچ پڑتال کیے بغیر ہی بہت سی جعلی احادیث کو بھی شامل کر دیا۔ اگر وہ جانچ پڑتال کے ساتھ صرف اور صرف قابل اعتماد احادیث ہی لکھتے تو زیادہ اچھا تھا۔ جعلی احادیث میں تو شدید گناہ ہے اور پھر جب وہی عوام تک پہنچتی ہے تو سب لوگوں کو اس گناہ میں حصہ مل جاتا ہے۔ ابھی ان بھائیوں کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ آپ ایک بار پھر اپنی کتاب میں جانچ پڑتال کر کے جعلی احادیث کو نکال دیں اور صرف قابل اعتماد احادیث ہی کو شامل رکھیں۔
سوال: سر جی کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کونسی منگھڑت احادیث ہیں جو فضائل اعمال میں ہیں؟
جواب: اس طرح یہ بھائی بہت ناراض ہو جاتے ہیں کہ ان کی کتاب پر بیٹھے بیٹھے کوئی تنقید کرے۔ اس لیے یہ مشورہ آپ کو دوں گا کہ آپ خود فضائل اعمال کی احادیث کا مطالعہ جب کریں گے، تواس سے پہلے حدیث کی جانچ پڑتال کے اصول کو سمجھ کر پھر کیجیے گا۔ اس میں آپ کو واضح نظر آ جائے گا کہ کہاں کہاں منگھڑت احادیث ہیں۔ سادہ طریقہ یہ ہے کہ وہ حدیث جس میں معمولی عمل پر جنت کی بہت بڑی کامیابی کی بات ہو یا معمولی غلطی پر جہنم میں بہت بڑی سزا کی بات ہو تو یہ عموماً جعلی حدیث ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہا کہ فلاں سورت کی تلاوت کرو تو تم آسمان پر پہنچ جاؤ گے وغیرہ۔ اس کے لیے میں کچھ نہیں کہہ رہا بلکہ صحیح مسلم کتاب کے مالک امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ کے طریقہ کار کو آپ دیکھ لیجیے۔ وہ فرماتے ہیں:
https://www.islamicurdubooks.com/hadith/ad.php?bsc_id=4088&bookid=2
اگر ہم نے اپنے آپ کو محدث کے منصب پر فائز کرنے والے بہت سے لوگوں کی ضعیف احادیث اور منکر روایات کے بیان کو ترک کرنے جیسے معاملات میں، جن کا التزام ان کے لیے لازم تھا، غلط کارروائیاں نہ دیکھی ہوتیں، اور اگر انہوں نے صحیح روایات کے بیان پر اکتفا کو ترک نہ کیا ہوتا، جنہیں ان ثقہ راویوں نے بیان کیا جو صدق وامانت میں معروف ہیں، وہ بھی ان کے اس اعتراف کے بعد کہ جو کچھ وہ (سیدھے سادھے) کم عقل لوگوں کے سامنے بے پروائی سے بیان کیے جا رہے ہیں، اس کا اکثر حصہ غیر مقبول ہے۔
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا غندر ، عن شعبة . ح وحدثنا محمد بن المثنى وابن بشار ، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، عن ربعي بن حراش ، انه سمع علي رضي الله عنه يخطب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تكذبوا علي، فإنه من يكذب علي، يلج النار۔
ابو بکر بن ابی شیبہ، نیز محمد بن مثنیٰ اور ابن بشار نے کہا: ہم سے محمد بن جعفر (غندر) نے شعبہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے منصور سے، انہوں نے ربعی بن حراش سے روایت کی کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا، جب وہ خطبہ دے رہے تھے: کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر جھوٹ نہ بولو، بلاشبہ جس نے مجھ پر جھوٹ بولا وہ جہنم میں داخل ہو گا۔
https://www.islamicurdubooks.com/hadith/ad.php?bsc_id=4091&bookid=2
وحدثني محمد بن ابي عتاب، قال: حدثني عفان، عن محمد بن يحيى بن سعيد القطان، عن ابيه، قال: لم نر الصالحين في شيء، اكذب منهم في الحديث، قال ابن ابي عتاب: فلقيت انا محمد بن يحيى بن سعيد القطان، فسالته عنه، فقال عن ابيه: لم تر اهل الخير في شيء، اكذب منهم في الحديث، قال مسلم: يقول: يجري الكذب على لسانهم، ولا يتعمدون الكذب
محمد بن ابی عتاب نے کہا: مجھ سے عفان نے محمد بن یحییٰ بن سعید قطان سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، کہا: ہم نے نیک لوگوں (صوفیا) کو حدیث سے بڑھ کر کسی اور چیز میں جھوٹ بولنے والا نہیں پایا۔ ابن ابی عتاب نے کہا: میں محمد بن یحییٰ بن سعید قطان سے ملا تو اس (بات کے) بارے میں پوچھا، انہوں نے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہا: تم اہل خیر (زہد و ورع والوں) کو حدیث سے زیادہ کسی اور چیز میں جھوٹا نہیں پاؤ گے۔ امام مسلم نے کہا کہ یحییٰ بن سعید نے فرمایا: ان کی زبان پر جھوٹ جاری ہو جاتا ہے، وہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے۔
https://www.islamicurdubooks.com/hadith/ad.php?bsc_id=4095&bookid=2
اس میں امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا تجربہ جو بتا دیا ہے۔ اس میں یہ تھا کہ ان کے زمانے میں بہت سے نیک لوگ ، جعلی احادیث کو بڑے زور سے بیان کرتے تھے لیکن خود انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ جعلی ہیں۔ پھر یہ بہت سی جعلی احادیث ہمارے ہاں بھی تبلیغی بھائی انہی کو بیان کرتے ہیں حالانکہ وہ جانچ پڑتال نہیں کرتے ہیں۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com