سوال: قرآن میں بارہا کہا گیا ہے کہ غوروفکر کرو۔ تو میں غوروفکر کرنا چاہتا ہوں مگر غوروفکر کیسے کرنا ہے وہ نہیں پتا۔ تو آپ رہنمائی فرما دیں کہ غوروفکر کیسے کرنا ہے۔ محمد وکیل، کروڑ پکہ
جواب: آپ کے ارشادات کا انتظار کر رہا تھا اور ابھی آپ کی ای میل دیکھی ہے تو بہت خوشی ہوئی ہے۔ یہیں سے یہ کنفرم ہو رہا ہے کہ آپ کا مطالعہ عمدہ طریقے سے جاری ہے۔
غور و فکر کا جو ہمیں حکم دیا گیا ہے، اس کے لیے اللہ تعالی نے آپ کے ذہن میں صلاحیت دی ہوئی ہے جس میں آپ نے غور کرنا ہے اور اس صلاحیت کے ساتھ غور و فکر کرنا ہے۔ اس کے لیے نفسیات میں برین سٹارمنگ کہا جاتا ہے۔ ذہن کے اندر آئیڈیا آتا ہے تو وہ اس طرح آتا ہے جیسے آپ پانی یا گیس کے پائپ میں بٹن دباتے ہیں تو وہ بہت تیز سے پانی نکلتا ہے۔
سوال: ہمیں مولوی صاحب کہتے ہیں کہ غور و فکر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے مسلک کے مطابق ہی عمل کریں۔
جواب: غور و فکر میں بس ایک احتیاط کی ضرورت ہے کہ کسی بھی فرقہ کے لوگوں نے جو تعصب پیدا کیا ہوتا ہے، اس سے بچنا ہے کیونکہ اسی برین سٹارمنگ میں آئیڈیا غلط طرف چلا جاتا ہے اور اس میں اس میں گٹر شامل ہو جاتا ہے۔
تعصب کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں سے نفرت کرنا۔ دوسرے آدمی کا آئیڈیا غلط ہے تو تب بھی صرف اتنا ہی سمجھنا چاہیے کہ اس بھائی کو غلط فہمی ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ محبت کرنی چاہیے۔ تعصب کی وجہ سے لوگوں میں مناظرے ہوتے ہیں اور پھر آپس میں نفرتیں بڑھتی ہیں۔ اس لیے آپ قرآن مجید کا جب مطالعہ کریں تو کسی سے بھی نفرت کیے ہوئے اپنے خالی ذہن کے ساتھ برین سٹارمنگ کیجیے گا۔ اس میں مزید ڈسکشن کیجیے کہ کیا آئیدیا غلط ہے اور کیا درست ہے؟ پھر فیصلہ آپ نے خود تعصب کے بغیر کرنا ہے۔ کسی بھی ٹیچر اور میں نے بھی جو کہا ہے، اسے آپ نے کریٹیکل طریقے سے سوچنا ہے اور فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔
تعصب کی وضاحت ان سوال جواب میں حاضر خدمت ہے۔
سوال: میں قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنا چاہتا ہوں۔ اس سلسلے میں مَیں نے کافی مفتی صاحبان اور علماء کرام سے اس بارے میں پوچھا ہے کہ کیا میں قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھ لوں۔ تو ان سب کا جواب سن کے مجھے بہت دکھ ہوا۔ ان سب حضرات نے ایک ہی جواب دیا کہ اگر قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔ مجھے اب یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ جو کتاب اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجی ہے، وہ کس طرح لوگوں کو گمراہ کر سکتی ہے۔ اللہ پاک کا کلام کس طرح لوگوں کو گمراہ کر سکتا ہے۔ براہ مہربانی اس چیز پے روشنی ڈال دیں اور آپکا اس بارے میں کیا خیال ہے۔
جزاک اللہ خیرا
جواب: آپ سے یہ درخواست ہے کہ آپ پرانی ای میل سے آگے چلانے کی بجائے نئی میل بنا دیا کریں اور اسمیں ٹائٹل لکھ دیا کریں۔ اس میں جلدی سے مجھے مل جائی گی اور جواب دے دوں گا۔
جیسا کہ آپ نے خود جواب دے دیا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بتا دیا کہ یہ قرآن اللہ تعالی نے لوگوں کو ہدایت کے لیے بھیجی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی بھی انسان یہ کہے کہ قرآن کے ترجمے میں گمراہی ہو سکتی ہے تو پھر اس انسان کی بات درست سمجھیں یا اللہ تعالی کے ارشاد کو درست سمجھیں؟
اللہ تعالی ہی کا ارشاد بالکل درست ہے کہ قرآن مجید میں کبھی گمراہی نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اسے کھول کر واضح کر دیا ہے۔ اب رہا ترجمہ تو اس میں یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ انسان نے جو ترجمہ کیا ہے، اس میں اس سے غلطی ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر بڑے سے بڑا عالم بھی غلطی کر سکتا ہے کیونکہ وہ نبی نہیں ہوتا ہے۔ صرف انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام ہی غلطی نہیں کر سکتے تھے کہ اگر ان کے ذہن میں غلطی آ بھی جاتی تو اللہ تعالی ان کی غلطی کو ٹھیک کروا دیتا تھا۔ رہے عالم دین تو وہ نارمل انسان ہیں، اور ان سے غلطی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کا حل موجود ہے جو آپ کے لیے ہے۔
آپ جس عالم کے ترجمے کا مطالعہ کر رہے ہیں تو بس اتنا چیک کر لیں کہ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ کوئی عالم اگر کسی فرقہ متاثر ہے تو وہ اس فرقہ کا تصور شامل کر سکتا ہے۔ لیکن وہ ترجمے میں کچھ نہیں کر سکتا بلکہ وہ تفسیر یا وضاحت میں کر سکتا ہے۔ یہ آئیڈیا آپ کے ذہن میں فوراً آ جائے گا کہ یہ ا س فرقے کی بات ہے۔ اس لیے آپ صرف انہی علماء کا ترجمہ پڑھیں جو کسی بھی فرقہ سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔ ہر فرقے میں ایسے کھلے ذہن کے علماء ہیں جو اپنے تعصب کو ترجمہ یا تفسیر میں نہیں ڈالتے ہیں۔
اس میں آپ مثال کے طور پر بڑے کھلے ذہن والے علماء تقی عثمانی صاحب اور ان کے والد شفعی عثمانی صاحب، مودودی صاحب، کرم شاہ صاحب، امین احسن اصلاحی صاحب ان سب کا ترجمہ آپ خود پڑھ لیجیے تو کوئی فرق آپ کو محسوس نہیں ہو گا۔ ترجمہ اگر ہو گا تو محض اردو لفظ کا فرق ہو گا، لیکن اصل آئیڈیا ایک ہی آئے گا۔ اردو لفظ مثلاً آپ دیکھ لیجیے کہ کوئی عالم تجارت کہہ دے اور دوسرا اسے “بزنس” کہہ دے تو دونوں الفاظ میں کیا فرق ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی آپ کے ذہن میں بات کلیئر نہ ہو تو آپ نے صرف کتنا کرنا ہے کہ آپ دوسرے عالم کے ترجمے کو پڑھ لیجیے تو بات واضح ہو جائے گی۔ اگر پھر بھی کلیئر نہ ہو تو پھر تفسیر میں دیکھ لیجیے۔ اگر نہ دیکھنا چاہیں تو اپنے کسی استاذ سے اس کا معنی پوچھ لیں او راپنے سوال کا جواب مل جائے۔ اگر آپ پھر بھی مطمئن نہ ہوں تو آپ دوسرے استاذ سے پوچھ لیجیے۔ وہیں واضح آ جائے گا۔
اس لیے ان بھائی کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ ترجمے میں گمراہی ہو جاتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا ہے بلکہ صرف اتنا ہوا ہے کہ کسی متعصب آدمی کے آئیڈیا کی غلطی واضح آ جاتی ہے۔ اس میں ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ اس متعصب آدمی کا آئیڈیا غلط ہے تو وہ پھر آپ کو کہے گا کہ تم گمراہ ہو۔ اس طرح آپ کو کنفیوژن کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس میں اس متعصب آدمی ہی کی غلطی ہے اور آپ کو نہیں ہے۔ اس کی مثال آپ دیکھ لیجیے۔
قرآن مجید میں بہت تفصیل سے ساتھ ذکر ہے کہ شرک کتنا بڑا جرم ہے۔ اس کی تفصیل آتی ہے تو آپ کو واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمان لوگ مشرکانہ عمل کرتے ہیں۔ آپ سمجھ لیں گے کہ جس طرح جاہلیت کے مشرک مجسمہ پر پوجا کرتے تھے، بالکل ایسا ہی کام مسلمان سجدہ کر کے کسی قبر یا مزار پر کر رہا ہے اور دعا اللہ تعالی سے کرنے کی بجائے اس بزرگ سے کر رہے ہیں تو وہ بھی شرک کر رہا ہے۔ اس میں اس مزار پرستی سے وہ آپ کو کہے گا کہ تم گمراہ ہو گئے ہو۔
آپ قرآن مجید پڑھ کر کہیں گے تو وہ کہے گا کہ تم قرآن کے ترجمے میں گمراہ ہوئے ہو۔ یہ اس شخص کی غلطی ہے۔ اس میں آپ بریلوی عالم کرم شاہ صاحب کا ترجمہ پڑھ لیں تو وہ بھی یہی واضح کر دیں گے کہ آپ کا خیال درست ہے۔ اس سے احمد رضا بریلوی صاحب کے ترجمے کو پڑھ لیں تو وہ بھی وہی آپ کو درست سمجھا دیں گے اور دوسرے شخص کی غلطی کو واضح کر دیں گے۔
اس لیے آپ بلا تکلف پڑھیے اور جہاں واضح نہ ہو تو آپ بلا تکلف مجھ سے پوچھ لیجیے۔ اگر میری بات درست محسوس ہو تو عمل کیجیے اور اگر درست نہ لگے تو آپ دوسرے علماء سے پوچھ لیجیے اور جسے درست سمجھیں، اس پر عمل کریں۔ بس یہی مشورہ دوں گا کہ آپ صرف انہی علماء سے پوچھیں جو کسی سے تعصب نہ رکھتا ہو۔ آپ کا آخرت میں رزلٹ اپنی سمجھ اور اپنے عمل کے لحاظ سے جنت میں جانا ہے۔ اس میں غلط فہمی بھی ہوئی لیکن تعصب نہیں ہوا تو پھر آپ کی غلطی معاف ہو جائے گی۔ اسے اللہ تعالی نے واضح کر دیا ہے۔
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ. 286
یہ حقیقت ہے کہ اللہ کسی پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ (اُس کا قانون ہے کہ) اُسی کو ملے گا جو (نیکی) اُس نے خریدی ہے اور وہی (گناہ) بھرے گا جو اُس نے خریدا ہو۔
اے رب!ہم بھول جائیں یا غلطی کر جائیں تو اُس پر ہماری گرفت نہ کیجیے۔
اے رب! آپ ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈالیے گا جو آپ نے ہم سے پہلوں (بنی اسرائیل) پر ڈالا تھا۔
اے ہمارے رب!کوئی ایسا بوجھ جس کو ہم اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے، تو ہم سے نہ اٹھوا ئیے گا۔
ہم سے درگذر فرما ، ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم فرما دے۔
آپ ہمارا آقا ہے ، سواِن منکروں کے مقابلے میں (جو ہمارے دشمن بن کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں،) آپ ہماری مدد فرما دے۔ (سورۃ البقرۃ 2:286)
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com