السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال: میں نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر39 -50 تک پڑھی ہے۔ اس میں بنی اسرائیل کی تفصیلات کیوں ہیں اور اس کا ہمارے ساتھ کیا تعلق ہے؟
جواب: اب آپ نے سورۃ البقرۃ میں 40-141 آیات کا اکٹھا مطالعہ کیجیے گا۔ اس میں آپ کو واضح ہو جائے گا کہ پرانی امت مسلمہ بنی اسرائیل میں آخری وارننگ چل رہی ہے۔ اس میں ان کی اپنی لکھی تاریخ کے حوالے سےبتایا گیا کہ ان سے اللہ تعالی کا معاہدہ یہ تھا کہ وہ دیگر اقوام تک اللہ تعالی کی دعوت کو پہنچائیں۔ جب وہ اس پر عمل کرتے رہے تو انہیں موجودہ زندگی میں اجر ملتا رہا اور جب انہوں نے شریعت کے مطابق عمل نہیں کرتے رہے تو انہیں موجودہ زندگی میں سزا جاری رہی۔ پوری امت پر جزا یا سزا کا سلسلہ اس لیے کیا کہ باقی تمام انسانوں کو معلوم ہو کہ ان کے ساتھ آخرت میں یہ جزا یا سزا کا سلسلہ ہو کر رہنا ہے۔
یہ بالکل اس طرح لیبارٹری میں تجربہ کر کے تمام انسانوں کو دکھا دیا گیا کہ ہر انسان پر اسی طرح جزا یا سزا کا سلسلہ ہو کر رہنا ہے اور اس کی مثال کے طور پر بنی اسرائیل پر تاریخ میں مسلسل اجر اور پھر مسلسل سزا کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ پھر آپ آخر میں یہ دیکھیں گے کہ اب نئی امت مسلمہ کو یہی ذمہ داری دی جا رہی ہے جس میں انہیں قبلہ کی تبدیلی کا حکم ہے۔ یہی قرآن مجید کا موضوع ہے۔
جب آپ قرآن مجید کا مکمل مطالعہ کر لیں گے تو پھر آپ تاریخ کو مطالعہ کیجیے کہ بنی اسرائیل کے ساتھ جیسا کہ جزا اور سزا کا سلسلہ ہوا، بالکل وہی معاملہ ہماری امت پر ہوا کہ جزا اور سزا کا سلسلہ جاری ہے۔
بنی اسرائیل کی تاریخ قبل مسیح
۔۔۔۔۔۔۔ کنعان اور فلسطین کی طرف دعوت ۔۔۔ 2000-1900 قبل مسیح
۔۔۔۔۔۔۔ حضرت یعقوب اور یوسف علیہما الصلوۃ والسلام کی دعوت مصر کی طرف
۔۔۔۔۔۔۔ حضرت یوسف ، موسی اور ہارون علیہم الصلوۃ والسلام کی دعوت 1900-1200 قبل مسیح
۔۔۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل کی ٹریننگ ۔۔۔ حضرت موسی، ہارون، کالب اور یوشع علیہما الصوۃ والسلام
۔۔۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل کے لیے جزا کا عروج ۔۔ حضرت داؤد اور سلیمان علیہما الصلوۃ والسلام کی حکومت اور دعوت ۔۔۔۔۔۔۔ 1000-926 قبل مسیح
۔۔۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل کے لیے سزا اور زوال
۔۔۔۔۔۔۔ پہلا فساد: حضرت الیسع، الیاس، عاموس، یسعیاہ، یرمیاہ، حزتی ایل علیہ الالصلوۃ والسلام کی دعوت لیکن ایمان نہ لانا ۔۔۔۔۔۔۔ 750-598 قبل مسیح
۔۔۔۔۔۔۔ بہتری: زوالقرنین رحمۃ اللہ علیہ کی حکومت اور حضرت عزیر علیہ االصلوۃ والسلام کی دعوت ۔۔۔۔۔۔۔ 522-458 قبل مسیح
۔۔۔۔۔۔۔ دوسرا فساد: حضرت زکریا، یحیی اور عیسی علیہم الصلوۃ والسلام کی دعوت لیکن ان کے انکار کے نتائج ۔۔۔۔۔۔۔ 198 قبل مسیح اور 70 بعد مسیح
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرآن مجید کے ذریعے دعوت 609-632 بعد مسیح
۔۔۔۔۔۔۔ مدینہ منورہ میں ہجرت اور دعوت 622-632
۔۔۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل کے لیے مسلسل سزا اور ان پر حضرت عیسی اور محمد رسول اللہ علیہما الصلوۃ والسلام کے ذریعے آخری دعوت 70 بعد مسیح سے لے کر آج تک
۔۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح 630-680
سوال: بنی اسرائیل پر دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے ذریعے سزا ملی ہے۔ یہ جرمن کا بنی اسرائیل والوں کے ساتھ کیا ایشو تھا؟
جواب: آپ کی اسٹڈیز بہت عمدہ ہے ۔ کیا یہ سب مکمل سمجھ چکے ہیں کہ اس میں سوالات کیوں نہیں پیدا ہوئے؟
جرمنی میں دوسری جنگ عظیم کی لڑائی یورپ کی دونوں سپر پاورز انگلینڈ اور فرانس کے ساتھ تھی۔ اس وقت بہت سے کمزور ممالک جیسے آسٹریا وغیرہ اس جنگ کی لپیٹ میں آ گئے۔ ان ممالک میں بہت سے بنی اسرائیل رہ رہے تھے۔ اب انہوں نے یہ سمجھا کہ ہم اگر انگلینڈ اور فرانس کی مدد کریں تو جان چھٹے گی۔ اس لیے وہ اس میں شامل ہوئے تو جرمن کے ڈکٹیٹر ہٹلر نے دشمنی کر دی۔ ہٹلر نے اپنی فوج کو طاقتور کرنے کے لیے نسل پرستی کو استعمال کیا اور انہیں بتایا کہ ہم ہی زمین کی سب سے اعلی نسل ہے اور پورے زمین پر حکومت جرمن قوم کو ہونی چاہیے۔
اس فلسفے کے ساتھ اس نے بتایا کہ سامی نسلوں کو تباہ کرنا ضروری ہے۔ ان کے قریب ہی سامی نسل میں بنی اسرائیل قریب ہی تھے جو آسٹریا، ہنگری، فرانس ، سپین اور سوئزرلینڈ میں رہتے تھے۔ یہی آسان ٹارگٹ تھا تو جرمنوں نے انہیں شدید تعداد میں بنی اسرائیل کو قتل کیا۔ اسی مدد کی بنیاد پر انگلینڈ نے انہیں فلسطین میں اسرائیل ملک بنوا دیا جو اب امریکہ کے غلام ہیں۔
اب آپ کے ذہن میں سوال ہو گا کہ سامی نسل کیا ہے؟ پورے زمین میں انسانوں کی تین نسلیں پیدا ہوئی ہیں جو حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے تین بیٹوں سے پیدا ہوئے ہیں۔ تین بیٹے تھے سام، حام اور یافث رضی اللہ عنہم۔ سام رضی اللہ عنہ کی نسل کو سامی نسل کہتے ہیں اور انہی میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام جاری ہوئے بالخصوص ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، موسی، عیسی اور محمد علیہم الصلوۃ والسلام۔ بنی اسرائیل چونکہ حضرت اسحاق علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل سے تھے، اس لیے انہوں نے اپنا ٹائٹل بنی اسرائیل بنا دیا۔یہ لوگ عراق، عرب ممالک، فلسطین میں پھیل گئے۔ بنی اسرائیل نے چونکہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے دشمن بنتے رہے، اس لیے مسلسل سزا جاری رہی ہے اور آج تک ہے۔ اسے آپ سورۃ النساء میں پڑھیں گے۔
دوسری نسل حام رضی اللہ عنہ کی اولاد ہوئے جنہیں حامی نسل کہتے ہیں۔ ان کی بڑی تعداد افریقہ میں پھیلی اور اسی نسل میں سب سے بڑی طاقتور بادشاہ فرعون کہلاتے ہیں۔
تیسری نسل یافث رضی اللہ عنہ کی اولاد ہوئے ۔ ان میں دو بڑے بادشاہ مشہور ہوئے ہیں جن کا نام ہے یاجوج اور ماجوج۔ اس وجہ سے یہ یاجوج ماجوج کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ آرمینیا، روس، یورپ، امریکہ، چین، ایران، انڈیا، منگول سب ہی اس نسل سے آئے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ پیش گوئی ہے کہ قیامت سے کچھ عرصہ پہلے یاجوج ماجوج کا فروغ ہو گا۔ یہ سلسلہ 850-2023 تک جاری ہے۔ ان میں مسلمان بھی ہیں اور غیر مسلم بھی۔ یورپ کی اکثریت یاجوج ماجوج کی نسل سے ہے۔ ہٹلر نے نسل کو اپنی طاقت بنائی تو قریب ٹارگٹ سامی نسل بنی جو بنی اسرائیل رہے ہیں۔ تفصیل آپ اس میں پڑھ سکتے ہیں۔
بائبل میں آپ کو یہ ملے گا کہ بنی اسرائیل کو ذمہ داری تھی کہ وہ یاجوج ماجوج میں دین کی دعوت پہنچائیں۔ پہلے وہ اچھے لوگ تھے تو دعوت پہنچاتے رہے، پھر جب وہ انحرافات میں آئے اور گمراہ ہوئے تو چھوڑ دیا۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو یہ ذمہ داری ختم کر دی اور اس کی جگہ بنی اسماعیل کو ذمہ داری دے دی۔ اس کا مطالعہ آپ سورۃ البقرۃ میں کر چکے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی اسماعیل کی نسل سے تھے۔ بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل آپس میں کزن ہی تھے کہ وہ سب حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل سے تھے۔ ہم لوگ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے تو ہم آپ کی امت بن گئے ہیں۔ اگرچہ ہماری نسل تو بنی اسماعیل نہیں ہے لیکن اس امت کا حصہ ہیں۔ ہماری ذمہ داری یہ ہوئی کہ ہم نے حام اور یافث کی نسلوں میں دین کی دعوت قرآن مجید کے ذریعے پہنچانی ہے اور یہ ہم کر رہے ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہی کام کیا تھا اور پھر اگلی نسلوں میں یہ دعوت پہنچاتے رہے تو حام اور یاجوج ماجوج کی بڑی تعداد ایمان لے آئے ہیں۔ آپ افریقہ میں مسلم ممالک دیکھیے، پھر ازبکستان، تاجکستان، آرمینیا، ترکی، یورپ، روس، چین، جاپان، آسٹریلیا، امریکہ ، کینیڈا اور دیگر ممالک تک یہ دعوت کرتے رہے ہیں اور ان کی اکثریت یاجوج ماجوج کی ہے۔ پاکستان کی اکثریت بھی یاجوج ماجوج کی نسل سے ہیں اور وہ ایمان لا چکے ہیں۔
سوال: میں نے آج سورہ بقرہ کی آیات 123-40 کی تلاوت کی۔ اس میں جو ترجمے پڑھا وہ تو بلکل ویسے ان میں تفرقے تھے جیسے آج ہمارے پاس فرقہ واریت میں دوسرے مسلک والوں کو کافر اور مرتد کہتے ہیں؟ آیت نمبر 108-107 میں کہا گیا کہ اے اہل ایمان اپ ایسی باتیں پوچھتے ہیں۔ اس چیز کی سمجھ نہیں آئ۔ کونسی باتیں تھیں جو وہ پوچھتے تھے؟
جواب: آپ کی تعلیم بہت زیادہ خوشی ہوئی ہے اور آپ کے سوال سے بھی یہ اندازہ ہوا ہے کہ آپ تفصیل سے مطالعہ کر رہے ہیں۔ اس میں بہت خوشی ہوئی ہے۔ اللہ تعالی آپ کو کامیاب فرمائے۔ آپ کے انہی سوالات کی بنیاد پر آپ کے کلاس فیلوز بھی سمجھ لیں گے کہ سارے دینی سوالات کو ہم میگزین میں پبلش کرتے ہیں تاکہ سب کو فائدہ حاصل ہو۔ ہاں آپ نے کوئی ذاتی سوال کیا تو وہ کسی کو پبلش نہیں کرتا ہوں۔
اہل ایمان سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے اور بالخصوص مدینہ منورہ کے نئے اہل ایمان تھے۔ یہ صدیوں سے بنی اسرائیل سے متاثر تھے کیونکہ دین کے علماء بنی اسرائیل ہی میں تھے۔ اب انصار کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تربیت حاصل کر رہے تھے تو ان کے ذہن میں سوالات پیدا ہوتے تھے جو اپنے بیک گراؤنڈ میں بنی اسرائیل سے سیکھ چکے تھے کہ اللہ تعالی کی شریعت تو تورات میں موجود ہے۔ اب تبدیلیاں محسوس ہونے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھنے لگے کہ اللہ تعالی نے شریعت میں تبدیلی کیوں کر دی ہے؟ اس کے جواب میں اللہ تعالی نے اس کا جواب دیا ہے۔
مثلاً ابھی آپ تورات کو مطالعہ کریں تو وہ بائبل کی پانچویں کتاب استثناء کے نام پر ہے جس میں تورات کی تفصیلات ہیں۔ اس میں بڑی تبدیلی کچھ نہیں ہوئی ہے بلکہ صرف معمولی تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ بنی اسرائیل پر ہفتے میں ایک دن مسلسل عبادت کا حکم تھا جسے سبت کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے یہ تبدیلی کی کہ اب نئی امت مسلمہ کو پورے دن تک عبادت کا حکم نہیں دیا بلکہ ایک گھنٹے کی عبادت کا حکم دیا جو جمعہ کی نماز ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بنی اسرائیل میں زیادہ تربیت کی ضرورت تھی تو اس لیے انہیں ایک دن عبادت کا حکم دیا تھا۔ نئی امت مسلمہ کے لیے عبادت کے دن جمعہ میں کم ٹائم کا حکم دیا کیونکہ اب اسے تمام انسانوں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو پہنچنا تھا۔
اس کے علاوہ بنی اسرائیل میں اپنی فرقہ واریت اور ان کے فقہاء نے اپنے فتووں کو دین کا حصہ بنا دیا تھا جو تالمود کتاب میں موجود ہے۔ اللہ تعالی نے یہ بتا دیا کہ یہ کوئی دین کا حکم ہے ہی نہیں بلکہ ان کے فقہاء کا آئیڈیا ہی ہے اور اس کی کوئی دینی حیثیت نہیں ہے۔ مثلاً انہوں نے اپنے فرقہ عیسائی اور یہودیوں میں وہی اختلاف پیدا ہوا تھا کہ مسجد اقصی کے مشرقی دیوار کو قبلہ بناؤ جبکہ یہودی اسے مغربی دیوار وسٹرن وال کو قبلہ بناتے تھے۔ ابھی بھی ان کے ہاں یہ بڑا ایشو ہے لیکن اللہ تعالی کے نزدیک یہ کوئی ایشو ہی نہیں ہے اور وہیں پر وہ توبہ کرتے ہیں۔ اسی کو اللہ تعالی نے 115 آیت میں اسی کو ذکر کیا ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اسی غلطیوں کو اس وجہ سے رکھا تاکہ مسلمانوں میں وہ فرقہ واریت سے بچ سکیں اور مولانا کے فتووں کو دین کا حصہ نہ سمجھیں۔ اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ فرقہ واریت لوگوں میں صرف فتووں کی وجہ سے اختلاف ہوتا ہے، ورنہ سچ مچ دین کا کوئی ایشو ہی نہیں ہوتا ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ جو کسی بھی فرقہ کے مولوی صاحب فرما رہے ہوں تو ان سے صرف اتنا پوچھ لیں کہ قرآن مجید میں یہ حکم کہاں پر لکھا ہوا ہے اور اگر حدیث ہے تو وہ کس کتاب میں کہاں پر حدیث موجود ہے؟
اول تو وہ بتا نہیں سکیں گے بلکہ آپ پر غصہ کریں گے۔ پھر اگر وہ بتا دیں تو آپ نوٹ کر لیجیے۔ پھر خود قرآن مجید میں صرف اسی ایک آیت نہیں بلکہ اگلی پچھلی آیات کے ساتھ مطالعہ کریں۔ اسی طرح اس ٹاپک پر حدیث ہے، اس ٹاپک کی تمام احادیث کا مطالعہ کریں تو وہ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ دین میں کیا حکم ہے اور غلطی کہاں ہے؟
سوال: آیت 134-133 میں ذکر ہے کہ وہ ایک گروہ تھا جو گزر گیا۔ انکی ذمےداری وہی تھی جو انھوں نے کیاور آپکی ذمےداری ہے جو اپ کر رہے۔ آپ سے یہ نا پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے؟
جواب: یہاں بنی اسرائیل کے تبصرے کا جواب ہے۔ انہوں نے اپنے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور ان کے نیک بندوں کا ذکر کر کے کہا کہ ہم تو اللہ تعالی کے پیروکار اور دیندار لوگ ہیں۔ اس پر اللہ تعالی نے جواب دیا کہ آپ کے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام ابراہیم، اسحاق، یعقوب علیہم الصلوۃ والسلام تو گزر گئے ہیں۔ انہوں نے اپنا عمل کیا اور ان کا اجر انہیں ملے گا۔ تم اپنے عمل کے حساب سے سوچ لو کہ تم نے اچھا عمل چھوڑ کر اللہ تعالی کے دشمن بن چکے ہو۔
یہ بالکل وہی بیماری ہمارے ہاں بھی ہے۔ ہم قدیم عمدہ عمل پر اپنا دعوی کر لیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہا کہ ابوبکر، عمر، عثمان، علی، معاویہ رضی اللہ عنہم ہیں اور ہم ان کے پیروکار ہیں تو ہم بھی جنت میں جائیں گے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہمارے ہاں کسی فرقہ کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پر عاشق النبی اور لبیک النبی کہہ دیتے ہیں۔ کوئی خود کو صحابہ کرام کا لشکر کہہ دیتے ہیں اور کوئی اہل بیت کا لشکر بنا دیتے ہیں۔ اسی پر مسلمان آپس میں لڑتے ہیں جیسا کہ آپ کو معلوم ہو گا کہ 1990-2005 تک جھنگ شہر میں فسادات ہوئے اور اب بھی ہوتے ہیں۔
بالکل یہی بیماری بنی اسرائیل کے ہاں تھی اور ابھی تک ہے۔ سب بنی اسرائیل حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے پیروکار کہتے ہیں لیکن پھر یہودیوں نے حضرت عزیر علیہ الصلوۃ والسلام پر فوکس کر دیا۔ عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے نام پر عیسائی کہلانے لگے۔ اسی طرح صابی حضرت یحیی علیہ الصلوۃ والسلام کے پیروکار کہلاتے ہیں اورآپس میں جنگیں کرتے رہے۔ آپ خود کسی یورپی اسکالر کی تاریخ کو پڑھیں تو وہ بتاتے ہیں کہ یورپ میں مسلسل عیسائی اور یہودیوں میں بڑی شدید جنگیں ہوتی رہیں۔ صرف اسپین میں مسلمانوں کی حکومت میں ہمیں سکون حاصل ہوا ہے۔
سوال: حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو مصر میں داخل ہوتے ہوے مختلف دروازوں سے داخل ہونے کا کیوں کہا تھا؟
جواب: حضرت یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے بیٹوں کو مصر میں داخل ہونے کے لیے احتیاط کے طور پر مختلف دروازوں میں داخل ہونے کا مشورہ دیا۔ اس وقت انہیں بتایا گیا تھا کہ ان کے چھوٹے بیٹے کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس لیے انہوں نے احتیاط کے لیے باقی بیٹوں کو فرمایا تھا۔ آپ کے بیٹے حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام تو کافی عرصہ پہلے غائب ہو چکے تھے۔ اتنے سالوں بعد وہی مصر کے وزیر خزانہ بن چکے تھے اور انہوں نے اپنے سگے بھائی کو روک دیا تھا تاکہ اپنے بھائی سے ملاقات کر سکیں۔ پھر انہوں نے اپنے سب بھائیوں اور والدین کو مصر میں سیٹل کر دیا تھا۔ اس طرح ان کی دعوت مصر میں بہت تیزی سے پھیلنے لگے۔
سوال: اہل کتاب سے کون لوگ مراد تھے؟
جواب: اہل کتاب سے مراد پرانی امت مسلمہ ہے جس میں اللہ تعالی کی کتاب نازل ہوئی تھی۔ بالخصوص تورات، زبور اور انجیل۔ ظاہر ہے کہ اس میں یہودی اور عیسائی حضرات ہیں جنہیں اللہ تعالی کی کتابیں نازل ہوئی تھیں ۔ وہ سب انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے پیروکار تھے اور ان کی امت تھی۔ سورۃ آل عمران میں زیادہ تر عیسائیوں سے گفتگو ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ضمنی طور پر یہودیوں سے بھی ڈسکشن جاری رہی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت عرب علاقے میں یہودیوں اور عیسائیوں سے ہوئی تھی۔ پھر نجران شہر کے عیسائیوں کے بڑے علماء مدینہ منورہ پہنچے تھے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت سن رہے تھے تو اس وقت سورۃ آل عمران نازل ہوئی۔
سوال: سورۃ آل عمران کی آیت 66 میں ہے کہ بحث کرتے ہیں۔ کس بارے میں بحث تھی؟
یہودی اور عیسائی دونوں ہی خود کو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی امت کے پیروکار تھے۔ اس وقت یہ بحث کرنے لگے کہ ہم تو اہل ایمان ہیں اور ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام عیسائی ہیں اور یہودی کہنے لگے کہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام تو یہودی تھے۔ اس پر اللہ تعالی نے فرمایا کہ آپ کیا بحث کر رہے ہیں کہ آپ خود کو تورات اور انجیل کے پیروکار ہیں جبکہ یہ سب تو بعد میں نازل ہوئی تھیں۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے مسلمان کا ٹائٹل تھا اور انہی کے پیروکاروں کا تھا۔ پھر جب اس امت میں گمراہیاں پیدا ہوئیں تو فرقہ واریت ہوئی۔ ایک فرقہ نے اپنا ٹائٹل کو یہودی بنا دیا اور دوسرے فرقہ نے اپنا ٹائٹل عیسائی کہنا شروع کیا۔
ان کی اسی احمقانہ حرکت پر اللہ تعالی نے تبصرہ فرمایا کہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کس طرح یہودی اور عیسائی ہو سکتے تھے حالانکہ تورات اور انجیل تو بعد میں نازل ہوئی ہے۔ ان کی غلطیوں کی وضاحت اس لیے کر دی کہ ان کے مخلص لوگ صحیح طریقہ سے فرقہ واریت چھوڑ کر تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام بالخصوص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں۔ رہے وہ لوگ جو مخلص نہیں ہیں، تو ان پر سزا موجودہ زندگی میں ہوئی کہ وہ مغلوبیت میں آ گئے۔ اسے آپ آگے سورۃ النساء میں پڑھیں گے کہ یہودیوں پر سزا یہی آئی کہ وہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے پیروکاروں کے انڈر رہیں گے۔ اسی طرح عیسائی پھر مسلمانوں کی مغلوبیت میں آ گئے۔
خود یہودی اسکالرز نے تاریخ کی ریسرچ کی ہے تو وہ بھی یہی مانتے ہیں کہ وہ عیسائی یا مسلمانوں کی مغلوبیت میں رہے ہیں۔ مختلف صدیوں میں وہ عیسائیوں کے ہاتھوں مارے گئے اور جو بچے تو وہ مسلمانوں کے ممالک میں رہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ ان کی تاریخ میں سب سے بڑا سکون ہمیں مسلمانوں کے اسپین میں رہا ہے۔ ابھی وہ خود کو آزاد اسرائیل کہہ رہے ہیں لیکن حقیقتاً عیسائی امریکہ کی مغلوبیت میں رہے ہیں۔
اسی طرح عیسائیوں کی سب سے بڑی سپر پاور رومن ایمپائر پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتح کر دی اور وہ مسلمانوں کی مغلوبیت میں رہے ہیں۔ انہوں نے بڑی کوشش کرتے رہے لیکن وہ مسلمانوں کے انڈر ہی رہے ہیں۔ ہاں 1500 بعد مسیح کے زمانے میں مسلمانوں میں گمراہیاں زیادہ عام ہوئیں تو پھر آہستہ آہستہ مسلمانوں پر مغلوبیت کی سزا آئی ہے۔ 1700 میں یورپی اقوام نے مسلم ممالک کو قابو کر دیا ۔ پھر خود یورپی آپس میں لڑ بیٹھے تو اب امریکہ کا غلبہ مسلم ممالک پر اب تک موجود ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Institute of Intellectual Studies & Islamic Studies (ISP)
Learn Islam to make your career in the afterlife
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com