سوال: سورۃ یوسف کے مطالبے میں یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کے بے گناہی ثابت ہو گئی تھی، پھر انہیں جیل میں کیوں بھیجا گیا تھا؟ محمد وکیل، کروڑپکہ
جواب: بادشاہوں ، فوجی اور بیوروکریٹس کی حکومتوں میں اکثر لوگ اپنے مفاد پرستی پر گزرتے رہے ہیں اور آج تک ہیں۔ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام پر الزام ایک بڑے وزیر یا بیوروکریٹ کے بندے کی بیگم نے لگایا تھا۔ اس وزیر کو اس بیگم کے رشتے دار نے پاک بتا دیا تھا۔ اب بیوروکریٹ کو مصیبت یہ تھی کہ میں بدنام نہ ہو جاؤں اور پھر اس خوبصورت لڑکے سے بعد میں پھر بیگم نہ گھیر دے۔ اس لیے اس نے حل یہی نکالا کہ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کو جھوٹ الزام لگا کر جیل میں بند کر دیا۔
اب آپ کا سوال یہ ہو گا کہ پھر اللہ تعالی نے مدد کیوں نہیں کی؟ اللہ تعالی نے مدد کی لیکن پہلے کچھ عرصے کے لیے حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام پر صبر کا امتحان آیا اور ساتھ ہی تربیت بھی جاری رہی۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوت کو جیل میں پہنچا دیا۔ اس کے بعد پھر اللہ تعالی نے بادشاہ کے ذہن میں تبدیلی کر کے حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کا رابطہ کروا دیا اور پھر انہیں وزیر اعظم بنا دیا۔ اس میں پھر ان خواتین نے بھی اپنی حرکت کو بادشاہ کو بتا دیا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہمارے صبر کا امتحان مکمل ہو تو پھر شکر کا امتحان آ جاتا ہے۔
سوال: حضرت یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے بیٹوں کو مصر میں جاتے ہوئے یہ فرمایا کہ الگ الگ دروازے سے داخل ہونا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟
جواب: حضرت یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام نے بیٹوں کو اس لیے الگ الگ دروازے کا مشورہ دیا تھا کہ اکٹھے ہی گرفتار نہ ہوں۔ اس طرح کوئی تو بچے گا تو وہ واپس آ کر انہیں انفارمیشن دے گا۔ اب تک حضرت یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام پر صبر کا امتحان جاری تھا اور اب ختم ہونے والا تھا۔ اب بیٹے گرفتار نہیں ہوئے اور پھر اللہ تعالی نے بتا بھی دیا کہ آپ کا پیار بیٹا حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ اس لیے اب آپ سب نے مصر میں دعوت دین کی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔
اس کے نتیجے میں حضرت یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام اپنی فیملی کے ساتھ مصر پہنچ گئے ورنہ اس سے پہلے ان کی دعوت فلسطین میں جاری تھی۔ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام نے زرخیز زمین ڈیلٹا کے علاقے میں دے دی اور سب سیٹل ہو گئے۔ اس کے بعد دعوت دین جاری رہی۔ اب وہ 12 بھائیوں کی نسل پیدا ہوئی اور ساتھ ہی اہل مصر بھی ایمان لائے تو ان کی امت بنی اسرائیل بن گئی اور ان کی تعداد 600,000 کے قریب ہو گئے۔ یہ عمل 500 سال تک جاری رہا تھا۔ اب اگلے بادشاہ نے ڈر کر انہیں غلام بنا دیا اور پھر حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت کا سلسلہ جاری ہوا ۔ پھر بنی اسرائیل کو دوبارہ فلسطین بھیج کر ان دنیا کی سپر پاور بنا دیا۔
اس سے یہ بھی جواب مل گیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے دعوت پورے مصر اور افریقی ممالک تک پہنچ گئی۔ پھر حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے بنی اسرائیل کو آزاد کر دیا اور اس کے بعد حضرت داؤد و سلیمان علیہما الصلوۃ والسلام کے ذریعے یہ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور بن گئی۔ اس طرح دیگر ممالک تک اللہ تعالی کا پیغام پہنچتا رہا۔ اس کے بعد جب بنی اسرائیل نے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے دین میں بدعتیں ایجاد کیں تو انہیں پھر یہ سزا ملی کہ وہ رومن ایمپائر کے تحت غلام بن کر رہے۔
ان کی یہ تاریخ ہی ہم مسلمانوں کی بھی ہے۔ جب تک ہم دین پر صحیح طرح عمل کرتے رہے تو ہم دنیا کی سپر پاورز بنے لیکن جب ہم نے گمراہیاں کیں تو ہم بھی منگول، یورپ اور امریکہ کے قومی طور پر غلام بن کر رہے ہیں۔ اس تاریخ سے یہ ثبوت ہر انسان کو مل جاتا ہے کہ ایسا ہی رزلٹ آخرت میں ہر ہر انسان کو ذاتی طور پر ہونا ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com