سوال: السلام علیکم سر جی امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہونگے آج کا مطالعہ سورہ نساء کیا ہے۔ سوال صرف یہ ہیں کہ 128 آیت میں کہا گیا ہے کہ آپس میں سمجھوتہ کر لیں وہ کس بارے میں ذکر ہے؟
جواب: ہر آیت کو اسے پچھلی اور اگلی آیات کو پڑھ کر دیکھا کریں تو آپ کو وضاحت مل جاتی ہے۔ اس لیے میں نے وہی ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ پورا سیاق و سباق سامنے آ جائے۔ پرانی اردو میں علماء نے جب ترجمہ کیا ہے تو انہوں نے الگ الگ ایک ایک آیت کو کیا ہے لیکن پورا سیاق و سباق واضح نہیں ہوتا ہے۔
اب آپ 127 آیت کو دیکھیے تو وہاں پر وہ سوالات پیدا ہوئے جب سورۃ النساء کے شروع میں اللہ تعالی نے حکم دیا تھا کہ بیوہ خواتین سے شادی کریں تاکہ ان کے یتیم بچوں کی پرورش ہو سکے۔ اب اس میں سوال یہ پیدا ہوا کہ اب بیوہ خاتون سے شادی ہو جائے تو پھر خطرہ ہے کہ ان کے ساتھ مزاج نہ مل سکے تو کیا کریں؟
اس کا جواب اللہ تعالی نے دیا ہے کہ شادی کے بعد بھی سمجھوتہ کریں۔ کچھ عرصے میں یہ ہو جائے گا کہ میاں بیوی کے مزاج سیٹ ہو جائیں گے انشاء اللہ۔ پھر بھی اگر نہ ہو سکا تو پھر طلاق کر لیجیے گا۔ ان آیات کا مکمل ترجمہ یہ عرض کرتا ہوں۔ اس سے آپ کو واضح ہو جائے گا کہ نارمل حالات میں بھی اگر شادی ہوئی لیکن تعلق خراب رہا تو تب بھی یہی عمل کرنا ہے کہ پہلے سمجھوتہ کی کوشش کریں۔ سمجھوتہ کے طریقےآپ سورۃ الطلاق 65 میں پڑھیں گے۔ پھر بھی حل نہ ہوا تو ایک طلاق دیں، اس میں بھی تین ماہ تک عدت پوری کریں۔ چانس یہی ہوتا ہے کہ اتنے عرصے میں اگر بچہ پیدا ہو گیا تو پھر سمجھوتہ کامیاب ہو جاتا ہے اور نہ ہوا تو پھر طلاق ہو جائے گی۔
وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَنْ تَقُومُوا لِلْيَتَامَىٰ بِالْقِسْطِ ۚ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا. (127)
وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِنْ تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا. (128)
وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا. (129)
وَإِنْ يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِنْ سَعَتِهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا. (130)
اے رسول! وہ آپ سے خواتین (بیوہ کی خدمت کرنے کے لیے دوسری شادی کرنے) کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں۔
اُن سے کہہ دیجیے کہ اللہ تعالی آپ کو اُن کے بارے میں جواب دیتا ہے اور جن خواتین کے حقوق آپ ادا نہیں کرنا چاہتے، مگر اُن سے نکاح کرنا چاہتے ہوں، اُن کے یتیموں سے متعلق جو ہدایات اِس کتاب میں آپ کو دی جارہی ہیں۔
اُن کے بارے میں اور (دوسرے) بے سہارا بچوں کے بارے میں بھی جواب دیتا ہے کہ خواتین کے حقوق ہر حال میں ادا کریں اور یتیموں کے ساتھ ہر حال میں انصاف پر قائم رہیں اور (یاد رکھیں کہ اِس کے علاوہ بھی) جو بھلائی آپ کریں گے، اُس کا صلہ لازماً پائیں گے، اِس لیے کہ وہ اللہ تعالی کے علم میں رہے گی۔
ہاں، اگر کسی خاتون کواپنے شوہر سے بے زاری یا بے پروائی کا اندیشہ ہو تواُن پر گناہ نہیں کہ دونوں آپس میں کوئی سمجھوتہ کر لیں، اِس لیے کہ سمجھوتہ بہتر ہے۔ اور (یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ) لالچ لوگوں کی سرشت میں ہے، لیکن حسن سلوک سے پیش آئیں گے اور تقویٰ اختیار کریں گے توصلہ پائیں گے، اِس لیے کہ جو کچھ آپ کریں گے، اللہ تعالی اُسے جانتا ہے۔
خواتین کے درمیان پورا انصاف تو اگر آپ چاہیں بھی تو نہیں کر سکتے، اِس لیے اتنا کافی ہے کہ ایک کی طرف بالکل اِس طرح نہ جھک جائیں جبکہ دوسری لٹکتی رہ جائے۔ ہاں، اگر اپنے آپ کو درست کرتے رہیں گے اور اللہ تعالی سے خبردار رہیں گے تو اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ہمیشہ کے لیے ہے۔
اگر میاں بیوی، دونوں الگ ہی ہو جائیں گے تو اللہ تعالی اُن میں سے ہر ایک کواپنی وسعت سے بے نیاز کر دے گا۔ اللہ بڑی وسعت رکھنے والا اور بڑی حکمت والا ہے۔ (سورۃ النساء 127-130)
سوال: ہمارے ہاں یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے کہ میرے بھائی کی شادی کا دن طے ہوئی تھی، گھر بنا دیا اور لڑکی کے لیے زیورات بنا دیے ہیں۔ لیکن شادی ہونے سے پہلے ہی ایک رشتے دار فوت ہو گئے ہیں اور ہماری فیملی میں بہت دکھ ہے۔ اس کا کیا حل ہے؟
جواب: بیٹی۔ زندگی میں ایسے مسائل جب آتے ہیں تو انہیں مینج کرنے کے لیے مشکلات آتی ہیں۔ اس کے لیے اگر ذہنی طور پر انسان پہلے ہی تیار ہو تو مشکلات آسان ہو جاتی ہیں۔ مثلاً انسان اگر ٹوور ازم کے بڑے انجوائے منٹ کے ساتھ جا رہا ہے اور بڑی سپیڈ گاڑی چلا رہا ہے تو اچانک کسی وقت روڈ خراب ہوتا ہے تو وہ انسان گاڑی کے ساتھ ہی وادی اور دریا میں جا گرتے ہیں۔ اگر وہی انسان پہلے ہی ذہنی طور پر مشکلات کی عادت کر لیتا تو پھر وہ بچ سکتا تھا۔ مثلاً اچھی اسپیڈ میں بھی اسے احساس ہو سکتا تھا کہ آگے روڈ خراب ہو سکتا ہے تو وہ اس جگہ آہستہ گاڑی چلاتا تو پھر بچ جاتا۔
آپ کی فیملی کو کسی حادثے کا خیال نہیں تھا، اس لیے وہ نقصانات سے بچ جاتے۔ اس لیے آپ عادت بنا لیجیے کہ کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ موجودہ حالت میں آپ کے بھائی کا زیادہ نقصان نہیں ہے۔ والد صاحب نے گھر بنا دیا اور زیورات بنا دیے ہیں تو انہیں سنبھال کر رکھیں بلکہ گولڈ کو بنک لاکر میں رکھ دیجیے۔
جو بھی فوت ہوئے ہیں، ان کے لیے مغفرت کی دعا کو جاری رکھیں۔ کچھ ہفتوں میں بھائی اور ان کی بیگم کی فیملی بھی سیٹل ہو جائے گی اور پھر شادی کر لیجیے گا۔ بھائی کو ابھی خوشی پر جھٹکہ لگا ہے تو یہی صبر کا امتحان ہے۔ کچھ ہفتوں بعد وہ جھٹکہ نارمل ہو جائے گا اور انہیں دوبارہ خوشی پیدا ہو جائے گی انشاء اللہ جب ان کی شادی ہو جائے گی۔
جیسا کہ میں نے مشورہ دیا ہے کہ آپ سب کو شاک ابزاربر کی عادت بن جائے تو پھر جھٹکہ قابل قبول ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال یہی گاڑی ہے جس میں شاک ابزاربر کو بریک کے ساتھ لگایا ہوتا ہے۔ اب اچانک معاملہ ہوا تو ایمرجنسی بریک لگانی پڑتی ہے تو تب بھی گاڑی میں نقصان نہیں ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ سیٹ بلٹ لگائی ہو تو بریک سے انسان بھی بچ جاتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی اپنے ذہن میں شاک ابزاربر کی پریکٹس کر لیجیے تو زندگی میں جب بھی جھٹکہ آئے گا تو تب بھی آپ لوگ آسانی سے سیٹل ہو جائیں گے۔ اگر چاہیں تو میری اہلیہ سے آپ موبائل میں بات کر سکتی ہیں تو وہ بھی آپ کو کئی طریقے بتا سکتی ہیں۔
اب آپ اس کا طریقہ کار پوچھیں گے تو اس میں نفسیات میں ایک طریقہ ہے جسے سیلف ہپناسس کہا جاتا ہے۔ اسے آپ میرے استاذ ڈاکٹر ارشد جاوید صاحب کے اس لیکچر میں طریقہ سیکھ لیجیے اور روزانہ سونے سے پہلے کچھ منٹ تک پریکٹس کر لیا کریں تو پھر شاک ابزاربر ذہن میں انشاء اللہ پیدا ہو جائے گا۔
سوال: انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی سیرت میں ہمیں کیا ہدایت ملتی ہے؟
جواب: آپ کا دلچسپ ٹاپک ہے۔ اس پر آپ پہلے میرے سفرنامے میں پڑھ اور سن لیجیے جس میں میں نے جیوگرافی پر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی خاص مقامات پر پہنچا تھا اور وہاں کے ماحول پر غور کیا تھا۔
پھر اس کے بعد آپ تفصیل سے تاریخ کے جن ٹاپکس پر دلچسپی ہو تو اسی کا مطالعہ کیجیے گا۔ ان سب کتابوں پر لیکچرز بھی موجود ہیں اور کتابیں بھی۔
سوال: ماں باپ کی ایک ہی بیٹی ہے، والد پہلے فوت ہوگیا تھا، اب والدہ بھی فوت ہوگئی ہے ۔والدہ کو جو اپنے شوہر کی جانب سے آٹھواں حصہ ملا تھا اب وہ کس کو ملے گا؟ صرف بیٹی کو یا اس عورت کے بھائیوں کو بھی اس میں سے کچھ ملے گا؟
جواب: والدہ صاحبہ کو 12.5% والد صاحب کے انتقال کے بعد مل گیا تھا۔ اس میں اپنے والد کی بنیاد پر بیٹی کو 50% حصہ مل گیا ہو گا۔ باقی 37.5% حصہ کس کو دیا گیا تھا؟ اگر والد صاحب ہی نے وصیت میں کہہ دیا تھا کہ اپنی بیٹی یا بیگم کو مزید جو دیا ہو تو وہ چلا گیا ہو گا یا پھر ان کے بھائی بہنوں کو مل گیا ہو گا۔
اب والدہ صاحبہ کا انتقال ہوا ہے تو ان کے ہاتھ میں جو کچھ بھی تھا، اس کا 50% بیٹی کو دینا ہی ہے۔ اس کے بعد باقی 50% کے لیے والدہ صاحبہ نے اگر وصیت میں بیٹی ہی کو دیا ہے تو معاملہ ختم۔ لیکن کوئی وصیت نہیں ہے تو پھر والدہ کے بھائی بہنوں کو 50% حصہ ہی ملے گا۔ آگے ان کی مرضی ہے کہ وہ چاہیں تو اپنی بھانجی کو تحفہ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔ نہ دینا چاہیں تو تب بھی شریعت کی بنیاد پر ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com