محدثین کی کتابوں میں جعلی کہانیاں کیوں لکھی گئی ہیں؟

سوال: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن جریر طبری ایک مفسر، مؤرخ اور محدث تھے جس نے اہل سنت میں گھس کر جعلی کہانیاں اپنی کتاب میں اپنی کاروائیاں کیں۔ آپ کی رائے کیا ہے؟ طلحہ خضر، لاہور

جواب: اس میں ایک دم تیزی سے فیصلہ نہیں کرنا چاہیےبلکہ اسے کنفیوژن کی حالت ہی میں رہنا چاہیے۔ اس میں ان تمام  طبری حضرات  پر اگر  کسی محدث نے کنفرم کیا کہ وہ فلاں فرقہ کے تھے تو ٹھیک ہے ورنہ پھر ان حضرات کی اپنی کتاب ہی کو پڑھنا چاہیے۔ اس میں محض روایت کی بنیاد پر ان علماء کے عقائد سامنے نہیں آتے ہیں بلکہ انہوں نے روایات پر کوئی تبصرہ  یا شرح لکھا ہوا ہو تو پھر کنفرم ہو سکتا ہے۔ یہ بھی نہ ہو تو پھر اسی علماء کی کوئی ایسی کتاب کو ڈھونڈنا چاہیے جس میں انہوں نے روایات کے علاوہ اپنے نقطہ نظر کو بیان کیا ہو۔ 

اس میں ان کی کوئی کتاب نہ ملے تو پھر انہی علماء کے شاگردوں اور اساتذہ کو چیک کرنا چاہیے۔ اگر ان کے اساتذہ اور شاگردوں میں زیادہ لوگ شیعہ ہوں تو پھر ان  صاحب پر تبصرہ کر سکتے ہیں۔ ان کے شاگردوں نے ان عالم کی سیرت پر کچھ کہا ہو تو پھر معلوم ہو سکتا ہے۔ ایسا نہ ہو تو پھر ان صاحب کو محض یہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ بس تیزی سے روایات کو ہی اکٹھا کیا لیکن جانچ پڑتال نہیں کر سکے ہیں۔   اس کی مثال آپ احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت ہے۔ وہ صرف روایات ہی اکٹھے کر سکے لیکن جانچ پڑتال نہیں کی۔ لیکن ان کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی فرقہ کے نہیں تھے بلکہ فلسفہ پر تنقید کر کے بادشاہ سے سزا لیتے رہے تھے۔

اگر ان کی کتاب میں کسی ناقابل اعتماد راوی کی روایت موجود ہو تب بھی محدث کو اس فرقہ کے پیروکار نہیں کہہ سکتے ہیں بلکہ اس راوی کو اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ مجہول شخصیت ہے اور بس۔ اس سے زیادہ کسی علام پر تقیہ یا کوئی الزام نہیں لگانا چاہیے کہ وہ ہماری تعمیر شخصیت کے خلاف ہے۔ زیادہ سے زیادہ بس مجہول ہی کہہ سکتے ہیں ۔ مجہول کا معنی ہے کہ ان کی شخصیت کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔

سوال: میرا سوال ہے کہ اگر یہی حقیقتِ حال ہے تو سنیوں کی اول تفسیر و تاریخ کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے۔ اگر کوئی تفسیر ابنِ کثیر و تاریخ ابنِ کثیر کو ماخذ شمار کرے تو یہ دونوں تصانیف طبری ہی کا اختصار ہے۔ 

جواب: تفسیر و تاریخ پر اہمیت کسی حد تک ہے لیکن بس اس کے متن پر جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔ خواہ اہل سنت ہوں یا شیعہ علماء، انہوں نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے، اسے عز ت کے ساتھ ان کے متن پر جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔ تفسیر میں لکھا ہو تو پھر جہاں کنفیوژن آئے، اسی پر قرآن مجید کی اسی موضوع کی سورتوں کا مطالعہ کر لیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ تفسیر میں یہ غلطی ہے۔ 

تاریخ کے لیے اسی زمانے کے دیگر مورخین کی کتاب دیکھ لینا چاہیے کہ ایسا ممکن ہے اور دیگر مورخین کی بات کس حد تک درست ہے یا نہیں۔ مورخین کی شخصیت ایسی ہوتی ہے جیسا کہ آج کل اینکرز اور اخبار کے آرٹیکلز لکھنے لوگ موجود ہیں۔ اگر کسی مورخ میں کہیں بھی تعصب نظر آیا کہ وہ فلاں سیاسی پارٹی یا فرقہ کے ساتھی ہیں یا اس کے دشمن ہیں تو پھر اس مورخ  کی شخصیت کنفیوژن کی شکل میں آ جاتے ہیں۔ انہوں نے کسی واقعے پر بات کی اور اس کا کسی بھی پارٹی یا فرقہ سے متعلق نہ ہو تو پھر امید ہے کہ بات ٹھیک ہو گی۔ لیکن کسی بھی پارٹی یا کسی فرقہ کے بارے میں بات پر یقین نہیں ہونا چاہیے۔ 

عام طور پر کنفیوژن والی باتیں سیاست ، پارٹی یا فرقہ سے متعلق ہی ہو سکتی ہیں۔ اس لیے تاریخ پر بھی محدثین کی جانچ پڑتال کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ ہاں ، جہاں کسی واقعے میں کوئی بڑی اہمیت نہیں ہے تو پھر وہاں جانچ پڑتال کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ 

میں نے اسی بنیاد پر تاریخ لکھی ہے تو یہی اصول کو چیک کیا ہے۔ اس کی مثال آپ دیکھیے کہ جیسے اکبر بادشاہ کا دین الہی کا نظریہ تو تواتر کے ساتھ معلوم ہے، اس لیے میں نے لکھ لیا۔ اس کے بعد اگلے بادشاہ جہانگیر اور شاہ جہاں کا دین الہی سے نہ دشمنی ملی اور نہ ہی عقیدت۔ اس سے کنفیوژن کی حالت ہے، اس لیے اس پر میں نے کوئی بات نہ کی۔ آگے پڑپوتے اورنگزیب عالمگیر صاحب سے کنفرم ہے کہ وہ دین الہی کو انہوں نے ختم کیا ہے  تو اس میں تواتر ہے کہ انہوں نے دین  الہی کی بجائے شریعت اسلام پر کام کیا ہے۔ اس لیے ، ان پر لکھ دیا ہے۔ 

اس سے ہٹ کر فرقوں اور پارٹیوں کی تاریخ میں یہی کوشش کی ہے کہ انہی کے علماء پر تاریخ کو قبول کر کے انہیں لکھا ہے۔ اس کی مثال ہے کہ اسماعیلی شیعہ حضرات کی تاریخ پر انہی کے عالم نے جو لکھا ہے، اسی کو میں نے اپنی کتاب میں ان کے حوالے کے ساتھ لکھا ہے۔

اسی طرح غزالی صاحب کی اپنی کتابوں پر ہی ان کی سیرت  اور نقطہ نظر پر بات کی ہے۔ بالکل اسی طرح ابن تیمیہ، محمد بن عبدالوہاب  صاحبا ن کی تاریخ پر انہی کی کتابوں کو استعمال کیا ہے۔ بالکل ایسے ہی میلین تحریکوں کے لیے انہی کے اسکالرز کی تاریخ لکھی ہے۔ اس کےساتھ انہی پر تنقید کرنے والوں کو انہی کی کتابوں میں لکھا ہے اور فیصلہ آپ پر چھوڑ دیا کہ خود ہی فیصلہ کریں کہ کونسا نقطہ نظر درست ہے  اور کس کا غلط ہے۔  امید ہے کہ آپ نے یہ کتابیں پڑھی ہوں گی یا لیکچرز سنے ہوں گے۔

سوال: ہمارے اہلِ سنت حضرات نے اس معاملے کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی َ؟

جواب: یہ دلچسپ سوال ہے اور اس پر پھر میں نے ایک ہی بیماری دیکھی ہے جسے  آپ نفسیاتی غلامی اور تقلید ہی پر کتاب بھی لکھ دی ہے۔ بالکل یہی نفسیاتی غلامی کسی ایک فرقے تک محدود نہیں ہے بلکہ سب کے ساتھ ہی یہ بیماری موجود ہے۔ اس لیے تاریخ کی کتابوں میں یہی کنفرم کر دیا کہ امت مسلمہ کے زوال کی وجہ تقلید اور نفسیاتی غلامی ہی ہے۔ 

اس میں پلیز آپ جب میری تاریخ کی کتابیں پڑھیں تو اس میں انہی کھلے ذہن میں جانچ پڑتال کر کے بتا دیجیے گا کہ میں نے انہی اصولوں میں کہاں غلطی کی ہے؟ جب بھی آپ میری زندگی کے اندر ہی بتائیں گے تو پھر میں اسے تبدیل بھی کر دوں گا انشاء اللہ۔  میری وفات کے بعد آپ اور دیگر اسٹوڈنٹس نے تنقید کی تو اس میں ایڈوانس میں ہی معذرت کر دیتا ہوں۔ 

امت مسلمہ کے زوال پر وجوہات جو عرض کی ہیں، اس میں میں نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے اور اس کے دلائل پیش کیے ہیں۔ اس میں آپ کو غلطی نظر آئے تو ضرور ارشاد فرمائیے گا۔ 

حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ہاں جب جمود پیدا ہوا تو پھر پرانے علماء نے اپنی کتابوں میں جو کچھ لکھ لیا، اسی کو مقدس سمجھ بیٹھے اور موجودہ زمانے میں پرانے علماء کی کتابوں کی جانچ پڑتال کو چھوڑ دیا اور وہ آنکھیں بند کر کے مکھی پر مکھی مارے رہے ہیں۔ یہی ہماری بیماری ہے جس نے امت مسلمہ کو زوال پہنچا دیا ہے۔ اسے ہم جو بھی مقدس سمجھ بیٹھے تو یہی جھک ہم مارتے رہے ہیں۔

سوال: مستدرک حاکم کی ایک روایت کا جائزہ پیش ہے۔

4327 - حَدَّثَنَا لُؤْلُؤُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُقْتَدِرِيُّ، فِي قَصْرِ الْخَلِيفَةِ بِبَغْدَادَ، ثنا أَبُو الطَّيِّبِ أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْوَهَّابِ الْمِصْرِيُّ، بِدِمَشْقَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى الْخَشَّابُ، بِتِنِّيسَ، ثنا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، ثنا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمُبَارَزَةُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ لِعَمْرِو بْنِ عَبْدِ وُدٍّ يَوْمَ الْخَنْدَقِ أَفْضَلُ مِنْ أَعْمَالِ أُمَّتِي إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»

المستدرك على الصحيحين للحاكم (3 / 34)

مندرجہ بالا روایت احمد بن عیسٰی خشاب کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اس راوی کے متعلق تفصیل درج ذیل ہے۔

نام: احمد بن عیسٰی بن زید بن عبد الجباربن مالک

شہرت: احمد بن عیسٰی مصری

نسب: تنیسی، خمی، مصری

مرتبہ:حدیث میں جھوٹا اور واضع ہونے   کا ملزم ہے

رہائش پذیر:تینس، مصر

جرح و تعدیل

امام جرجانی کہتے ہیں کہ یہ منکر روایات بیان کرتا تھا۔ امام ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ  مجہول لوگوں سےمنکر اورمشہور لوگوں سے مقلوب چیزیں بیان کرتا ہے، لہٰذا میرے نزدیک منفرد روایت میں اس سے حجت پکڑنا  جائز نہیں ہے۔ امام ابو زرعہ نے اس کے کذب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ امام ابن یونس مصری کے نزدیک یہ بہت زیادہ  مضطرب الحدیث ہے۔ امام ابن حجر عسقلانی اور امام دار قطنی کے نزدیک یہ روایت میں قوی نہیں ہے۔ امام محمد بن طاہر قیسرانی   کہتے ہیں کہ یہ کذاب ہے ، روایات وضع کیا کرتا ہے۔امام مسلمہ بن قاسم اندلسی  کے نزدیک بھی یہ کذاب ہے اور موضوع روایات بیان کرتا تھا۔

اس ساری تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت قابلِ قبول نہیں ہے۔  لیکن حیرت ہےامام حاکم اسے بخاری و مسلم  کی شرط پر کیونکہ قبول کر سکتے ہیں؟ جبکہ اس کا متن ہی اس کی کمزوری کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم بخاری و مسلم کی روایات کو بھی اسی طرح جانچ سکتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ان میں بھی ایسی روایات ہیں جو سنداً صحیح ہونے کے باوجود متناً کمزور ہیں جبکہ اہلِ حدیث حضرات کہتے ہیں ائمہ حدیث نے روایات کو سند کے ساتھ ساتھ متن کو بھی پوری طرح پرکھ کر اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔  لیکن جب ہم ان روایات کو دیکھتے ہیں تو ان کو قبول کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔اگر کوئی صاحب ِ علم ان روایات پر علمی تنقید کرتا ہے تو اسے منکرِ حدیث کہہ دیا جاتا ہے۔

کیا ہمارے محدثین نے واقعی صحاح ِستہ کی حد تک تمام  روایات   کی سند کے علاوہ ان کے متن کو بھی جانچ پرکھ کر کتابوں میں درج کیا ہے؟

آپ کا کیا خیال ہے؟ 

جواب: طلحہ بھائی۔ آپ نے بہت عمدہ ریسرچ کی ہے۔ اللہ تعالی آپ کو کامیاب فرمائے۔ آپ کی اس ریسرچ کی بنیاد پر محدثین کے آئیڈیا پر تنقید ہے کہ حاکم صاحب کا لیول صحیح بخاری و مسلم کے لیول کا نہیں ہے۔ لیکن آپ کی یہ تنقید  تب درست ہو گی جب حاکم صاحب کی 20% احادیث ضعیف ثابت ہوں۔ ورنہ اکا دکا غلطی تو ہر انسان سے ہو سکتی ہے۔ ایک دو حدیث ضعیف نکلے تو پھر حاکم صاحب پر اتنا اعتراض نہیں بن سکتا ہے۔ جب آپ حاکم صاحب کی تمام احادیث کی ریسرچ کر لیں گے تو تب ہی فائنل فیصلہ ہو سکے گا کہ  حاکم صاحب کا لیول بخاری و مسلم تک ہے یا نہیں؟

آپ نے بالکل صحیح فرمایا ہے کہ متن کا ریسرچ لازمی کرنا ہے۔ اسی بنیاد پر بخاری و مسلم میں بھی غلطیاں سامنے آ جائیں گی۔ یہ کام محدثین نے اتنا نہیں کیا بلکہ فقہاء نے کام زیادہ کیا ہے کہ وہ متن کی جانچ پڑتال پر کام کافی کیا ہے۔ عام طور پر صحاح ستہ محدثین کا فوکس بس راویوں کی جانچ پڑتال پر ہے لیکن متن پر بہت کم ہی کام کیا ہے۔ اسے فقہاء نے متن میں کام کیا ہے۔ 

منکر حدیث کا فتوی جو بھائی کہہ دیتے ہیں، ان کے ہاں صرف شدت پسندی کی بیماری ہی موجود ہے۔ اگر  محدثین کے طریقہ کار کے مطابق جانچ پڑتال کوئی کر رہا ہے تو وہ بالکل منکر حدیث نہیں ہے۔

سوال: آپ کی بات درست ہےکہ چند احادیث کے ضعیف ثابت ہونے پر امام حاکم پر تنقید نہیں کی جا سکتی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حدیث میں ان کا مقام امام بخاری و امام مسلم جیسا نہیں ہے۔ ان کے ناقدین کا مؤقف ہے کہ امام حاکم بہت سی ضعیف بلکہ موضوع احادیث کی بھی تصحیح کر جاتے ہیں۔اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ابھی مستدرک  پر نظر ثانی کرنا باقی تھا  کہ امام صاحب کا انتقال ہو گیا  تو اس طرح کا دعویٰ ہر اس محدث کے متعلق کیا جا سکتا ہے  جو اپنی کتاب میں ضعیف احادیث  درج کر دے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہامام حاکم کا مستدرک لکھنے کا مقصد  ان روایات کو جمع کر دینا تھا جو بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح تھی لیکن امام بخاری و امام مسلم نے انہیں اپنی کتاب میں درج نہیں کیا۔دوسرا یہ کہ امام حاکم جب کبھی کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو وہ عموماً اپنا تبصرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

 هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ

هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. فَإِنَّهُمَا قَدِ احْتَجَّا بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ فِي الشَّوَاهِدِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ

 هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ

قَدْ أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ بِغَيْرِ هَذِهِ السِّيَاقَةِ

قَدِ اتَّفَقَ الشَّيْخَانِ عَلَى إِخْرَاجِ حَدِيثِ الرَّايَةِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ بِهَذِهِ السِّيَاقَةِ

 هَذَا حَدِيثٌ لَهُ طُرُقٌ، عَنِ الْبَرَاءِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ

لیکن کتاب کے اندر متعدد جگہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض حدیث کے بعد امام حاکم کااس طرح کا کوئی تبصرہ موجود نہیں ہے۔زیرِ بحث روایت  کے بعد بھی کوئی تبصرہ موجود نہیں ہے۔ البتہ امام ذہبی کا ایک جملہ ضرور موجود ہے۔

قبح الله رافضيا افتراه

کہیں ایسا تو نہیں کہ اس طرح کی بلا تبصرہ روایات  امام حاکم کی وفات کےبعد مستدرک میں کسی نے شرارتاً شامل کر دی  ہو ں جو ان کی بدنامی کا باعث بنیں ؟ یہ میری محض ایک رائے ہے۔ کیا آپ نے بھی اس طرح کی بات محسوس کی ہے؟آپ کا اس ساری صورتِ حال کے متعلق کیا کہنا ہے ؟

جواب: آپ کے ارشادات پر پوری طرح متفق ہوں۔ حاکم صاحب کو محدثین نے جو بتایا ہے، یہ متفق ہے اور اس پر اتفاق عام ہے۔ اب آپ کا جو اگلا پوائنٹ ہے کہ حاکم صاحب کی وفات کے بعد کسی نے جعلی احادیث کا اضافہ کر دیا تو یہ ممکن ہے بلکہ حاکم صاحب کی زندگی میں بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن کنفرم کرنے کے لیے آپ کو کام کرنا ہو گا۔ 

پہلے اس زمانے کے ماحول کو دیکھ لیجیے۔ اس زمانے میں مصنف اپنی کتاب لکھ دیتے۔ پھر اس کی کاپیاں کاتب حضرات کر دیتے تھے۔ اس کی ہزاروں کاپیاں بن جاتیں اور پھر دوسرے شہروں میں پہنا دیا جاتا تھا۔ اس کام میں پریکٹیکل نہیں تھا کہ مصنف ہر کاپی کو چیک کر سکیں۔ اب ہزاروں کاپیوں کو کون آدمی ایک ایک صفحے میں چیک کرے۔ ہاں اتنا ہو سکتا تھا کہ کسی آدمی نے ایک کاپی کا مطالعہ کیا اور غلطی میں انہیں شک آ گیا تو اگر وہ پھر مصنف سے ملاقات ہو سکتی تو پوچھ لیتے۔ مصنف واضح کر دیتے تو اس کاپی کو ٹھیک کیا جا سکتا تھا۔  لیکن ہر کاپی میں وہ غلطی یا فراڈ نہیں ہو سکتا ہے بلکہ چند ہی اکا دکا مخطوطے میں ہوا ہو گا۔ 

اب آپ کو ریسرچ کے لیے یہ کرنا ہو گا کہ موجودہ زمانے میں حاکم صاحب کی کتاب کے مخطوطے اکٹھے کر لیں اور پھر ان میں فرق چیک کریں۔ اگر فرق نظر آیا تو پھر ان احادیث کی جانچ پڑتال کرنی ہو گی کہ یہ قابل اعتماد ہیں یا نہیں۔ اگر یہ بہت بڑی جعلی احادیث مل گئیں تو تب آپ کا نقطہ نظر ثابت ہو جائے گا ورنہ نہیں۔  لاکھوں مخطوطے تو ویسے ہی فنا ہو چکے ہیں۔ 

صرف چند ہی مخطوطے دنیا میں موجود ہوں گے۔ سب سے زیادہ مستند مخطوطے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں موجود ہیں جو لائبریریز کے اندر انہیں اسکین کر کے  مل گیا ہے۔   یہ وہ مخطوطے ہیں جن میں مصنف حضرات نے اپنی کاپی کو خود حج کرتے ہوئے دیتے رہے ہیں اور لاکھوں مخطوطے موجود ہیں۔ پہلے وہاں لائبریری میں فری اسکین کاپی مل جاتی تھی اور میں بھی لیتا تھا جو اپنی لیپ ٹاپ میں  اپلوڈ کر دیتا تھا۔ اگر انہوں نے اسکین نہیں کیا تو میں خود ااپنے کیمرے میں تصویر بنا کر لیپ ٹاپ میں ڈال  سکتا تھا لیکن کبھی ضرورت ہی نہیں ہوئی۔ پلیز آپ چیک کریں کہ ان کی ویب سائٹس میں یہ مخطوطوں کی کاپی مل سکتی ہے؟  اگر مل جائے تو آپ کی ریسرچ ہو جائے گی انشاء اللہ۔

میرے استاذ عزیر شمس صاحب یہ کام کرتے تھے کہ انہوں نے تیمیہ صاحب اور ابن قیم صاحب کے مخطوطوں پر لکھتے اور جدید عربی زبان میں ٹرانسلیٹ کرتے تھے۔  یہ پرانی عربی سے جدید عربی کا ترجمہ ہوتا تھا۔ اسی پر پبلشرز اسے پبلش کر کے عرب ممالک میں بیچتے رہے ہیں۔ انہی کی سافٹ کاپی ہمیں فری میں مل جاتی ہے۔ اس طرح مزید اسکالرز نے مزید بہت سی کتابوں کو پبلش کروایا ہے۔ عزیر صاحب خود البانی صاحب کے شاگرد تھے۔ 

اب ظاہر ہے کہ تمام مخطوطے تو آپ نہیں ڈھونڈ سکتے ہیں۔ اب تک پبلشنگ میں  اگر مختلف ورژن بنے ہیں تو انہیں آپ چیک کر سکتے ہیں۔  اس کے بعد ہی آپ کنفرمیشن کے ساتھ کتاب لکھ سکیں گے۔ امام ذہبی رحمتہ اللہ علیہ  کو کئی مخطوطے ملے ہوں گے جن میں جعلی احادیث  یا محض روایات مل گئی ہوں گی تو تب انہوں نے تبصرہ فرمایا ہے۔ آپ کوشش کریں کہ ذہبی صاحب نے اگر وہ جانچ پڑتال کر کے وہی روایات کو اکٹھا کر کے پبلش کیا ہے تو ان کی کتاب میں آپ کو مل سکتا ہے۔  اگر ذہبی صاحب لکھ چکے تو پھر آپ کو شارٹ کٹ مل جائے گا۔ اس میں آپ چیک کریں کہ ذہبی صاحب نے اگر کچھ جعلی روایات مل جائیں تو کام ہو سکتا ہے۔  پلیز مجھے بھی بتا دیجیے گا  تو میں دوسروں کو بتا سکوں۔ اگر ذہبی صاحب نے جعلی روایات نہیں لکھیں تو پھر وہی مخطوطوں کی ریسرچ کرنی پڑے گی۔ 

سوال: مستدرک حاکم کے مخطوطات کے حوالے سےحضرت امام عالی مقام جناب گوگل بابا حفظہ اللہ تعالٰی  کی بارگاہ سے درج ذیل معلومات مل سکیں ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔
https://al-maktaba.org/book/31618/48737

جواب: بہت خوب۔ آپ نے یہ ڈھونڈ لیے ہیں تو اس میں سے جہاں بھی جعلی احادیث ملیں تو ان سب کو آپ ایک ہی مائیکرو سافٹ ورڈ میں کاپی پیسٹ کر لیجیے گا۔ چاہیں تو اس کا ترجمہ بھی کر لیجیے گا۔ جہاں ضرورت محسوس ہوئی  تو شرح بھی کر لیجیے گا۔ اس کے بعد فائنل کتاب بھیج دیجیے گا تو اسے ویب سائٹ میں پبلش کر دوں گا انشاء اللہ۔

سوال: اس متعلق میں نے علمی مواد جمع کیا تھا جو دوسرے سسٹم میں موجود ہے۔ ان شاء اللہ میں اسے آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ اختلافِ قراءت ایک بہت پیچیدہ معاملہ ہے اور  اس پر بہت سی بحثیں موجود ہیں لیکن سب اخبارِ احاد کی بنیاد پر ہے۔ میں حیران ہوں کہ اس تصویر میں موجود تحریر میں اتنا سخت ترین مؤقف اپنانے کی آخر کیا ضرورت ہے؟آخر ہمارے اہلِ علم حضرات کو اخبارِ احاد کی بنیاد پر لوگوں کے ایمان و اسلام کا فیصلہ کرنے کا اختیار کب حاصل ہوا؟

جواب: اس کی وجہ وہی اندھی تقلید کی بیماری ہے۔ یہ جب پیدا ہوئی تو پھر ہر طرف پھیلتے گئے۔ تاریخ میں اس کا تفصیل سے تجزیہ میں نے کر دیا ہے۔ یہ بیماری چوتھی پانچویں ہجری میں پھیلنے لگی۔ لیکن ا س بیماری کا عروج پھر ساتویں صدی ہجری میں ہوا جب مسلم ممالک کو مغلوں نے تباہ کر دیے تھے۔ یہ دلچسپ ٹاپک ہے اور آپ اسے میری کتاب میں مطالعہ کر سکتے ہیں۔ 

سوال: اللہ تعالٰی کی بات سے میں محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے نقطہ نظر سے پوری طرح متفق ہوں کہ اخبارِ احاد سے  کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا ۔ لیکن ہمارے علماء کو اصرار ہےکہ وہ قرآن مجید کے اجماعی تواتر کو بھی حدثنا، أخبرنا وغیرہ کی سند سے  سے ثابت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

میں اس تواتر کو سمجھانے کے لیے ان حضرات کو ایک ہی حقیقت بتاتا ہوں کہ دنیا میں تمام مسلمان گھرانوں میں قرآن مجید موجود ہے  جبکہ صحاحِ ستہ و اصول ِ کافی  کسی کسی گھر میں موجود ہوتی ہے  جبکہ اکثر گھرانوں میں تو حدیث کی ایک کتاب بھی نہیں ہوتی جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن مجید لفظاً، معناً، قراءتاً،  حفظاً جیسا دورِ رسالت میں تھا ویسے ہی ہم تک متواتر پہنچا ہے  جبکہ یہ معاملہ احادیث کے متعلق کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ آپ کا اس متعلق کیا مؤقف ہے ؟

جواب: احادیث کی کتابیں تو بہت کم لوگ ہی پڑھتے ہیں۔ مدارس کے اسٹوڈنٹس اور علماء جتنا پڑھتے ہیں، اس میں جانچ پڑتال کیے بغیر ہی جو حدیث پسند آ گئی تو اسے عقائد کا حصہ بنا کر اپنی تقریریں کرتے ہیں۔ پھر اسی پر وہ بحثیں اور مناظرے کرتے ہیں اور پھر فرقہ واریت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہی ہماری بیماری ہے۔ 

عاجزی کاوش میں نے اسی بنیاد پر کی ہے کہ پہلے ان نئے اسٹوڈنٹس کے لیے کھلے ذہن بنانے کی کوشش کی ہے اور نفسیاتی غلامی کی بیماری پر تفصیلی تجزیہ کیا ہے۔ پھر تاریخ کی کتابیں لکھ دیں تاکہ اپنی امت کی بیماریاں سامنے آ جائیں اور لوگ ٹھیک ہونے پر قائل ہو جائیں۔ اس کے بعد پھر اگلا اسٹیپ کہ وہ علوم الحدیث پڑھیں اور تنقیدی ذوق پیدا ہو۔ اگلےا سٹیپ پر تقابلی مطالعہ کریں تو پھر وہ فرقہ واریت سے بچ جائیں۔ 

الحمد للہ، اس کی کاوش کا فائدہ نظر آیا ہے۔ خاص طور پر مدارس کے اسٹوڈنٹس میں سے جو لوگ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے یونیورسٹی تک پہنچتے ہیں، وہ الحمد للہ علوم الحدیث اور تقابلی مطالعہ کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ الحمد للہ۔ امید ہے کہ یہ زیادہ لوگ پڑھنے لگیں گے تو ان کے ذہن کھلتے جائیں گے انشاء اللہ۔ 

الحمد للہ،  اختلاف قرا’ت کے مسئلے میں بہت بڑے ایشو پیدا نہیں ہوئے ہیں۔ ورنہ اس پر بھی فرقہ واریت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور تقلید کی بیماری کے اثرات زیادہ پھیل جاتے۔ جاوید صاحب نے اگر قرا’ت  پر تو بحث کی ہے لیکن وہ بہت بڑا ایشو نہیں بنا ہے۔ زیادہ تر ایشوز جعلی احادیث سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس کے بعد پھر فقہاء کے اجتہاد پر فتاوی پر بحثوں نے فرقہ واریت کو زیادہ پھیلا دیا ہے۔ 

والسلام

محمد مبشر نذیر

 اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔

www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com

تعلیمی و تربیتی کورسز کے ویب لنکس

 اسلامک اسٹڈیز کی کتابیں اور لیکچرز

Islamic Studies – English

Quranic Studies – English Books

علوم القرآن ۔ کتابیں

علوم القرآن اردو لیکچرز

Quranic Studies – English Lectures

Quranic Arabic Language 

Quranic Arabic Language Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice English

Methodology of Hadith Research English

علوم الحدیث سے متعلق کتابیں

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات

علوم الحدیث اردو لیکچرز

علوم الفقہ پروگرام

Islamic Jurisprudence علم الفقہ

مسلم تاریخ ۔ سیاسی، تہذیبی، علمی، فکری اور دعوتی تاریخ

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ لیکچرز

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات

تعمیر شخصیت کتابیں، آرٹیکلز اور لیکچرز

تعمیر شخصیت کا طریقہ کار

Personality Development

Books https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1ntT5apJmrVq89xvZa7Euy0P8H7yGUHKN

علوم الحدیث: ایک تعارف

مذاہب عالم  پروگرام

Impartial Research امت مسلمہ کے گروہوں کے نقطہ ہائے نظر کا غیر جانب درانہ تقابلی مطالعہ

تقابلی مطالعہ پروگرام کی تفصیلی مضامین کی فہرست

کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse
Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse
Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse
Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us
Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33
Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114
Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War
Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory
Quranic Studies
Comments on “Quranic Studies Program”
Quranic Arabic Program – Lectures

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2
علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33
علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

Hadith Research English Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice
Methodology of Hadith Research

علوم الحدیث اردو لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات
اصول الحدیث لیکچرز
علوم الحدیث: ایک تعارف

Personality Development

تعمیر شخصیت لیکچرز

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی
تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات
اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ
Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟
قرآن اور بائبل کے دیس میں
 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر
سفرنامہ ترکی
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات
Social Sciences سماجی علوم
مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز 
 (Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ سیاست 
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ

BC 250,000 to 610CE نبوت محمدی سے پہلے کا دور ۔۔۔ حضرت آدم سے لے کر محمد رسول اللہ کی نبوت تک
571CE-632CE عہد رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی، علمی، دعوتی، سیاسی  اور تہذیبی تاریخ
عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات
عہد صحابہ اور تابعین کی سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 632-750
 امت مسلمہ کی تہذیبی عروج کا دور : سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ750-1258
 تہذیبی جمود اور زوال کا دور اور پھر  ریکوری: سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1258-1924
 امت مسلمہ  کی  ریکوری  کا دور  ۔۔۔  سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1924سے آج تک
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی
نفسیاتی، فکری اور ذہنی غلامی کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟
Comments on “The History of Abolition of Physical & Intellectual Slavery in Islam”
محدثین کی کتابوں میں جعلی کہانیاں کیوں لکھی گئی ہیں؟
Scroll to top